کیا "مہنگے انتخابات" کی مدد سے "خوش عنوان" لوگ سامنے آ سکیں گے؟

کیا پاکستان میں 'انتخابی عمل' سے 'سرمایہ کاری' کا عنصر کم کیا جا سکتا ہے؟


  • Total voters
    15
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے ہاں (پاکستان میں) جب بھی انتخابات ہوتے ہیں انتخابی مہمات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔

تشہیر کے لئے ہر طرح کا میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔ بینرز پوسٹرز سے لے کر مہنگے ٹی وی اشتہارات اور جلسوں تک جس کے پاس جتنا سرمایہ ہے اُس کی انتخابی مہم اُتنی ہی کامیاب ہوتی ہے۔

انتخابی مہمات میں جو لوگ 'پیسہ' لگاتے ہیں وہ اِسے 'سرمایہ کاری' خیال کرتے ہیں۔ اور اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے 'فرائضِ منصبی' سے بے گانہ ہو کر اپنی سرمایہ کردہ رقم کے حصول اور اُس پر ملنے والے منافع کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کا شکوہ کرنا کہ انتخابات کے ذریعے ایماندار اور مخلص لوگ سامنے نہیں آتے بے جا ہے۔

میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے 'پیغام' کی عوام تک 'ترسیل' کے لئے الیکشن کمیشن کو اقدامات کرنے چاہیے اور باقی تمام اشتہاری مہمات پر جس قدر ممکن ہو پابندی لگا دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں سیاسی سرمایہ کاروں کی مداخلت کم سے کم ہو اور انتخابات کے ذریعے وہ لوگ سامنے آسکیں جو ملک کی واقعتاً خدمت کرنا چاہتے ہوں اور جو حکمرانی کو 'موقع' کے بجائے 'ذمہ داری' سمجھیں۔

اس سلسلے میں آپ احباب بھی اپنی تجاویز پیش کریں، اگر کوئی باقاعدہ دستاویز تیار ہو سکی تو ہم اُسے الیکشن کمیشن کو بھی بھیج سکتے ہیں۔ :) :)
 

ابن رضا

لائبریرین
احمد بھائی عنوان اور رائے دہی کا ٹائٹل وونوں میں اختلاف کیوں۔تھوڑی کنفیوژن ہو جاتی ہے ویسے مسئلہ کوئی نہیں :)

جواب: ہاں
کیوں کہ یہ ایک تدریجی عمل ہے پہلے انتخابات کی شفافیات کو یقینی بنایا جائے کم از کم ڈیفالٹر اور جعلساز لوگ آگے نہ آ سکیں اور پھر بتدریج دیگر نقائص کی اصلاح ممکن ہو سکے گی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی عنوان اور رائے دہی کا ٹائٹل وونوں میں اختلاف کیوں۔تھوڑی کنفیوژن ہو جاتی ہے ویسے مسئلہ کوئی نہیں :)

یہ بات آپ نے اچھی کہی میں نے غور نہیں کیا تھا اس پر۔

جواب: ہاں
کیوں کہ یہ ایک تدریجی عمل ہے پہلے انتخابات کی شفافیات کو یقینی بنایا جائے کم از کم ڈیفالٹر اور جعلساز لوگ آگے نہ آ سکیں اور پھر بتدریج دیگر نقائص کی اصلاح ممکن ہو سکے گی۔

یہ انتخابات سے پہلے کرنے کا کام ہے اور اگر 'کم سے کم خرچ' میں انتخابات لڑنا ممکن ہو جائے تو 'پاور پولیٹکس' میں کمی کے باعث شفافیت کا آدھا مسئلہ تو از خود حل ہو جائے گا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
میں ذاتی طور انتخابات میں سرمایہ کاری کے خلاف ہوں۔ اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے ۔
الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ پوسٹرز بینرز اور ہورڈنگز کی تعداد مقرر کرے
آجکل ٹی وی چینلز کی بھر مار ہے
جگہ جگہ جلسوں کی بجائے ٹی وی چینلز پر مذاکرے مناظرے ہو سکتے ہیں
ایف ایم ریڈیو کو استعمال کیا جا سکتا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
دنیا میں بیشتر ممالک میں سیاست ایک پیشہ ہے خدمت نہیں،

ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہے۔

لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ یہ پیشہ ور لوگ خود کو "خادمِ اعلیٰ" (اور اسی طرح کی دیگر القاب) کہتے ہیں۔

اگر یہ پیشہ ور بھی ہیں تب بھی پیشہ ورانہ زندگی کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ بات آپ نے اچھی کہی میں نے غور نہیں کیا تھا اس پر۔



یہ انتخابات سے پہلے کرنے کا کام ہے اور اگر 'کم سے کم خرچ' میں انتخابات لڑنا ممکن ہو جائے تو 'پاور پولیٹکس' میں کمی کے باعث شفافیت کا آدھا مسئلہ تو از خود حل ہو جائے گا۔
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی پورا نظام ہی تل پٹ ہے اس لیے ایسا جھاڑو پھیرنا کے شروع سے ہی ساری گندگی صاف ہو جائے ممکن نہیں۔ تاہم پہلے کچھ حد تک بہتر لوگ سامنے آئیں جو کم از کم پڑھے لکھے ہوں اعلانیہ جعلساز یا کرپٹ نہ ہوں ڈیفالٹر نہ ہوں تو پھر بتدریج نئے قوانین بنیں اور ان پر عملددرامد یقنی بنایا جائے یاد رہے ایسی سرمایہ کاری پر ابھی بھی قدغن موجود ہے تاہم عمل داری کا فقدان ہے کہ لوگ اچھے نہیں بیٹھے ہوئے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ایک عملی اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ لوکل باڈیز کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ ممبرانِ اسمبلی کو ڈیولپمنٹ فنڈ وغیرہ کی ضرورت ہی نہ پڑے اور سب فنڈ لوکل باڈیز کو دیئے جائیں۔ درست طریقہ بھی یہی ہے کہ ان ارکانِ اسمبلی کو قانون سازی کے لئے منتخب کیا جاتا ہے نہ کہ روڈ وغیرہ بنانے کے لئے۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ جب تک فری چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں لاگو ہوگا، یہی چہرے ہی سامنے آتے رہیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ فائدہ ہے کہ بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا جرم کر لیں، ایک مخصوص مدت کے اندر اندر اس کی جوابدہی کو تیار ہونا پڑتا ہے
 

سید ذیشان

محفلین
میرا خیال ہے کہ جب تک فری چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں لاگو ہوگا، یہی چہرے ہی سامنے آتے رہیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ فائدہ ہے کہ بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا جرم کر لیں، ایک مخصوص مدت کے اندر اندر اس کی جوابدہی کو تیار ہونا پڑتا ہے

جمہوری نظام بذاتِ خود چیک اینڈ بیلینس کا نظام ہے کہ جو لوگ صحیح کام نہیں کرتے ان کو اگلی مرتبہ الیکٹ نہ کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی بندہ کرپشن کرے تب ایسا مضبوط ادارہ ہونا چاہیے جو ان پر ہاتھ ڈال سکے لیکن یہ بعید از قیاس ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جمہوری نظام بذاتِ خود چیک اینڈ بیلینس کا نظام ہے کہ جو لوگ صحیح کام نہیں کرتے ان کو اگلی مرتبہ الیکٹ نہ کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی بندہ کرپشن کرے تب ایسا مضبوط ادارہ ہونا چاہیے جو ان پر ہاتھ ڈال سکے لیکن یہ بعید از قیاس ہے۔
اسی خیال سے "فری" کا دم چھلا لگا دیا تھا :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی پورا نظام ہی تل پٹ ہے اس لیے ایسا جھاڑو پھیرنا کے شروع سے ہی ساری گندگی صاف ہو جائے ممکن نہیں۔ تاہم پہلے کچھ حد تک بہتر لوگ سامنے آئیں جو کم از کم پڑھے لکھے ہوں اعلانیہ جعلساز یا کرپٹ نہ ہوں ڈیفالٹر نہ ہوں تو پھر بتدریج نئے قوانین بنیں اور ان پر عملددرامد یقنی بنایا جائے یاد رہے ایسی سرمایہ کاری پر ابھی بھی قدغن موجود ہے تاہم عمل داری کا فقدان ہے کہ لوگ اچھے نہیں بیٹھے ہوئے۔

قدغن تو موجود ہے تاہم الیکشن کمیشن انتخابی تشہیر کا متبادل راستہ فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی اس قانون کی عملداری کو یقینی بناتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک آزاد الیکشن کمیشن کی طرف سے جامع حکمت عملی اور بھرپور عملدرامد کی ضرورت ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک عملی اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ لوکل باڈیز کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ ممبرانِ اسمبلی کو ڈیولپمنٹ فنڈ وغیرہ کی ضرورت ہی نہ پڑے اور سب فنڈ لوکل باڈیز کو دیئے جائیں۔ درست طریقہ بھی یہی ہے کہ ان ارکانِ اسمبلی کو لیجیسلیشن کے لئے منتخب کیا جاتا ہے نہ کہ روڈ وغیرہ بنانے کے لئے۔

ہونا تو یہی چاہیے۔ اگر یہ کام ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔:)
 

محمداحمد

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ جب تک فری چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں لاگو ہوگا، یہی چہرے ہی سامنے آتے رہیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ فائدہ ہے کہ بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا جرم کر لیں، ایک مخصوص مدت کے اندر اندر اس کی جوابدہی کو تیار ہونا پڑتا ہے

بلاشبہ انصاف ہونے لگے تو معاملات آہستہ آہستہ خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی پورا نظام ہی تل پٹ ہے اس لیے ایسا جھاڑو پھیرنا کے شروع سے ہی ساری گندگی صاف ہو جائے ممکن نہیں۔ تاہم پہلے کچھ حد تک بہتر لوگ سامنے آئیں جو کم از کم پڑھے لکھے ہوں اعلانیہ جعلساز یا کرپٹ نہ ہوں ڈیفالٹر نہ ہوں تو پھر بتدریج نئے قوانین بنیں اور ان پر عملددرامد یقنی بنایا جائے یاد رہے ایسی سرمایہ کاری پر ابھی بھی قدغن موجود ہے تاہم عمل داری کا فقدان ہے کہ لوگ اچھے نہیں بیٹھے ہوئے۔
جمہوری نظام بذاتِ خود چیک اینڈ بیلینس کا نظام ہے کہ جو لوگ صحیح کام نہیں کرتے ان کو اگلی مرتبہ الیکٹ نہ کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی بندہ کرپشن کرے تب ایسا مضبوط ادارہ ہونا چاہیے جو ان پر ہاتھ ڈال سکے لیکن یہ بعید از قیاس ہے۔
میرا خیال ہے کہ جب تک فری چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں لاگو ہوگا، یہی چہرے ہی سامنے آتے رہیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ فائدہ ہے کہ بڑے سے بڑا یا چھوٹے سے چھوٹا جرم کر لیں، ایک مخصوص مدت کے اندر اندر اس کی جوابدہی کو تیار ہونا پڑتا ہے

مسائل تو واقعی بہت ہیں تاہم اس گفتگو کا مقصد ایسی تجاویز کو سامنے لانا ہے کہ کس طرح کم سے کم اخراجات میں بہتر انتخابی مہمات چلائی جائیں اور الیکشن کمیشن اس سلسلے میں کیا اقدامات کرے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مسائل تو واقعی بہت ہیں تاہم اس گفتگو کا مقصد ایسی تجاویز کو سامنے لانا ہے کہ کس طرح کم سے کم اخراجات میں بہتر انتخابی مہمات چلائی جائیں اور الیکشن کمیشن اس سلسلے میں کیا اقدامات کرے۔
جرم ہمیشہ کسی مقصد کی خاطر یا کسی تحریک کے زیرِ اثر کیا جاتا ہے۔ اگر مقصد یا تحریک ختم کر دی جائے تو جرم یکسر ختم نہ بھی ہو تو بھی بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ اکثریت کا الیکشن جیتنے کی تحریک یا مقصد کرپشن ہوتا ہے۔ اگر آپ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات سے وسائل کی تقسیم نکال دیں تو مسئلہ حل :)
 

ابن رضا

لائبریرین
جرم ہمیشہ کسی مقصد کی خاطر یا کسی تحریک کے زیرِ اثر کیا جاتا ہے۔ اگر مقصد یا تحریک ختم کر دی جائے تو جرم یکسر ختم نہ بھی ہو تو بھی بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ اکثریت کا الیکشن جیتنے کی تحریک یا مقصد کرپشن ہوتا ہے۔ اگر آپ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات سے وسائل کی تقسیم نکال دیں تو مسئلہ حل :)
آپ بھول رہے ہیں جیسے محترمہ مریم نواز صاحبہ کو 100 ارب روپے یوتھ لون سکیم پر بٹھایاہوا ہے تو قرضہ جاری کرنے والے لوگ اپنا حصہ پہلے مانگتے ہیں جو کہ 60 سے 70 فیصد تک ہوتا ہے اور باقی 30 فیصد لے کر قرضدار ڈیفالٹ کرتا ہے کہ اسے بھی پتا ہوتا ہے کہ میں نے کونسا واپس کرنے ہیں 70 اس کو دیتا ہوں 30 اپنے پاس رکھتا ہوں۔ تو اسی طرح لوکل باڈیز کے ساتھ بھی ایسا ہی لین دین ہوگا کہ کاغذوں میں ان کو فنڈ تو مل رہے ہوں گے مگر ان کا یو ٹرن انہی مفاد پرست عناصر کو ہو رہا ہوگا کسی نہ کسی طریقے سے۔ اس کے تدارک کا واحد حل جو مجھے نظر آتا ہے کہ کچھ کرپٹ لوگوں کو لٹکایا جائے اور مثال قائم کی جائے تو باقی خود ہی سدھر جائیں گے۔ مگر سوال پھر وہی کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟
 
Top