گل زیب انجم
محفلین
کیا میری آہ میں کچھ اثر نہیں
................................
برمی مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی انتہا پر امت مسلمہ کی خاموشی نہ جانے لب کهولنے کی کیا قیمت مانگتی ہے جب کہ بیس ہزار سے زائد روہنگیائی اپنے لہو سے لاچار اور بےحس مسلمانوں کی تاریخ رقم کر چکے ہیں. عصمت زادیوں کے تار تار آنچل درندہ صفت بهشکوں کے ہاتھوں چاک گریبان اور کٹے پستان پاؤں تلے روندے بچے شاید ابھی تک امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لئے ناکافی ہیں. اسی لیے ایوانوں سے خراٹوں کی آواز سنائی دی جا رہی ہے. مسلمان طارق بن زیاد محمد بن قاسم سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کے روپ میں تو تاریخ نے دیکها تها لیکن اس قسم کا ذلیل بےحس اور ڈرپوک مسلمان تاریخ اپنے اوراق پیش کرنے سے قاصر ہے جنهیں آج کے حالات بےحس کا کلنک لگا کر آئندہ نسلوں کے لئے رقم کر رہے ہیں.
روہنگیائی مسلم باشندے جو اٹھارہ سو چهبیس تک بنگالی کہلاتے تهے مغربی برما راختین میں برطانوی سامراج کی ایما پر آباد ہوئے جن کی تعداد تیرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے. مورخین کا کہنا ہے کہ 1430 -34 کے زمانے میں بھی برما میں مسلمانوں کی آبادی موجود تھی. لیکن برما نے انہیں برمی شہریت دینے سے ہمیشہ اجتناب برتا.
روہنگیائی مسلمانوں کا تاریخی پس منظر :-
برما کی ریاست ارکان اور راختین میں بسنے والے مسلم جسمانی قطع وضع سے نیپالی فلپائنی اور چائینوں کی طرح کے ہیں اور چپٹی چهوٹی ناک کی وجہ سے روہنگیا ذاتی کے لوگ کہے جاتے ہیں ان کا ریاست بنگال سے اور بنگلہ دیش سے برما منتقلی کا سلسلہ
1826میں ہوا جب برطانوی راج نے اپنی حدود کو وسیع کرنے کے لیے ریاست بنگال کی توسیع کی اور برما تک بنگال کی ریاست کو پھیلادیا تب وہاں کی زرخیز زمینوں پر کھیتی کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں بنگالی مزدوروں کو وہاں لے جا کر آباد کیا تھا ۔ واضح رہے کہ بنگالی باشندوں کو کھیت مزدور کی حیثیت سے نہ صرف برما لے جایا گیا بلکہ برطانوی سامراج نے انہیں مفلس مزدور سمجھ کر دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں بھی آباد کیا تھا ۔ مثلا آسام ، ماریشس ،مالدیپ ، سورینام، ترینڈاڈ ، گیانا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک ان مسلمانوں کو لے جایا گیا، جن کی نسلیں آج بھی وہاں آباد ہیں ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور برما میں بھی بنگالی مسلمانوں کو آباد کیا گیا تھا ۔ حالانکہ اس سے قبل بھی وہاں خاطر خواہ مسلم آبادی موجود تھی ۔ مورخین کہتے ہیں کہ برما میں 1430-34 کے زمانے سے ہی مسلمانوں کی آبادی موجود تھی.
تاریخی شواہد :-
ماروک علاقے کے راجہ بارا میکھلا نے 1430 میں بنگال کے سلطان جلا ل الدین محمد شاہ کی فوج کی مدد سے ارکان صوبے پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور اسی زمانے میں سلطان بنگال کے مسلمان فوجی وہاں آباد ہوگئے تھے ۔ اس جنگ کے معاوضے کے طور پر ارکان کے راجہ نے وہاں کے کچھ علاقے بھی بنگالی سلطنت کی تحویل میں دے دئے تھے جن پر مسلم آبادیاں بسائی گئی تھیں ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک اراکان میں بنگالی اسلامی سکوں کا چلن جاری رہا۔
خود اراکان کا راجہ بھی جو سکے ڈھلواتا تھا اس میں ایک جانب برمی زبان ہوتی تھی اور دوسری جانب عربی زبان لکھی ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ 1666تک جاری رہا اور اس مرحلے میں اراکان سے آج کے چٹاکانگ تک کا علاقہ برما میں شامل رہا ۔
سلطنت بنگال سے علیحدگی کے بعد بھی لمبے عرصے تک برما کے بودھ راجہ اپنے لئے مسلم خطابات استعمال کرتے رہے۔ 1785تک اراکان ایک خود مختار صوبہ تھا جس پر برما کا کوئی تسلط نہیں تھا اور وہ سلطنت بنگال کی حمایت سے اپنی خود مختاری قائم کئے ہوئے تھا
لیکن 1785 میں برمانے اس خود مختار ریاست پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں اراکانی باشندوں کو قتل کردیا۔
اس سے گھبرا کر بڑی تعداد میں اراکانی لوگ اس وقت کے صوبہ بنگال میں بھاگ کر آگئے، جہاں اس وقت برٹش حکومت تھی ۔ اس کے نتیجے میں اراکان صوبے کی آبادی بہت کم رہ گئی تھی، چنانچہ 1826میں جب برطانوی راج برما تک پھیل گیاتو بنگال اوربرما کے درمیان کوئی لکیریا سرحد بھی نہیں رہی تھی انگریزوں نے جب سمے ہوئے مزدوروں کو دیکھا تو فوراً اراکان پہنچ کر کھیت مزدور کی حیثیت سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں اراکان ضلع کی آبادی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ۔
یہی وہ مسلمان ہیں جن کو آج روہنگیا مسلمان کہاجاتا ہے ،
میانمار حکومت کا جھوٹا دعویٰ:-
میانمار حکومت کا یہ کہنا کہ روہنگیا مسلمانوں کا کبھی میانمار سے کوئی واسطہ نہیں رہا
اور نہ ہی روہنگیا لفظ کبھی برما میں رائج رہا سراسر جھوٹ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ
1799 میں فرانسس ہملٹن نے اپنی کتاب محمڈن میں ارکان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے (Rooinga) کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ وہاں کے مسلمان خود اپنے لئے استعمال بھی کرتے تھے ۔اسی لفظ کی بدلی ہوئی شکل آج روہنگیا ہے۔
واضح ر ہے کہ برما میں بہت سی اصطلاحوں میں مستقل تبدیلی ہوتی رہی ہے، مثلا آج جس ملک کو میانمار کہا جاتا ہے اس سے قبل اس کا نام برما تھا اور آج بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اسی طرح برما کی راجدھانی آج سے اٹھ نو سال پہلے تک رنگون کہلاتی تھی.
روہنگیائی مسلمانوں کی بدنصیبی کا آغاز :-
برما میں روہنگیا ئی مسلمانوں کی قسمت اس وقت بگڑی کہ جب 1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے شہریت کا ایک نیا قانون پاس کیا جس کے تحت روہنگیائی مسلمانوں کی شہریت رد کردی گئی ۔ اس قانون کی رو سے لاکھوں روہنگیائی مسلمانوں سے شہری حقوق سلب کر کے ان کو ملک کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا-تقریبا ایک لاکھ روہنگیائی مسلمان کو اپنا گھر بار چھوڑ کے کسی نہ کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور برمی فوج نے انہیں روزگار حاصل کرنے کی خاطر بھی ان بد حال کیمپوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ سرکاری نوکریاں تو درکنار ڈهابوں اور ٹهیلوں پر کام کرنے تک کی بندش عائد تھی.
نسل کشی :-
گهروں سے نکال کر بهی جب برمیوں کی آتما کو سکون نہ ملا تو انہوں نے تعصب کی چیتا میں جلتی آتما کو شانت کرنے کے لیے بنی روہنگیا پر فرعونیت کو آزمایا اور یہ سرکاری اعلان کر دیا کہ کسی روہنگیائی کو دو سے زائد بچے جننے کی اجازت نہیں ہے.
یہ وہ فرعونی قانون تها جو بنی روہنگیا پر مسلط کر کے نسل کشی پر مجبور کیا. اس کالے قانون نے مسلمانوں کے اندر کچھ خود سری کا بیج بو دیا جو آخر کار 2012 میں ایک پودے کی شکل اختیار کر گیا.
جب پانی سروں اُونچا ہو گیا تب روہنگیائی مسلمانوں نے ایک جلوس کی صورت میں ہاتھ پاؤں مارے جب جلوس کی صورت میں اپنی بے بسی کی کہانی سنانے شہر کی طرف چلے تو فوج نے آتک وادی قرار دے کر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں پللک جھپکتے ہی بیس افراد ہلاک ہو گئے.
مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا کچھ مشکل نہیں سو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر جون 2012سے کچھ زیادہ ہی برماکے بدھسٹوں نے برمی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ خود کو عدم تشدد کے علمبردار کہنے والے بودھ بھکشوؤں نے ان مسلمانوں کی نسل کشی کا بیڑ اٹھا رکھا ہے ۔
دوسال سے مسلسل کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے اورزندہ بچ جانے والوں پر پورے برما میں مختلف قسم کی قدغیں لگاکر روزگار کے دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔
ایسے میں تنگ آکر یہ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔برما کی سرکار دوٹوک الفاظ میں کہتی پھر تی ہے کہ روہنگیانی مسلمان بر ما کے شہری نہیں ہیں۔ گویا ان کو قتل کرنا یا ملک بدر کردینا جائز ہے ۔
دنیا میں حقوق انسانی کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ آن سانگ سوچی جو برما کی نام نہاد جمہوریت پسند لیڈر سمجھی جاتی ہے، بھی یہی کہتی ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ یہ مسلمان برما کے شہری ہیں یا نہیں۔
تب روہنگیائی مسلمانوں نے ہجرت کی. لیکن مسلمان ممالک کی بے حسی دیکهیے کے کوئی بھی ان کو پناہ نہ دے سکا.
اس وقت بحرہند کے ا نڈومان کے سمندری بھنورمیں اکثریتی برمی بودھوں کے مظالم کے مارے برما سے بھاگے ہوئے سسکتے ،بلکتے اوردم توڑتے روہنگیائی اقلیتی مسلمان جان بچانے کے لئے کشتیوں میں سوار ہوکر جائے پناہ کی تلاش میں ہیں،
وہ بھوک وپیاس سے نڈھال اورمختلف بیماریوں میں مبتلا جزائر انڈیمان کے نزدیک موت وحیات کی کشمکش سے لڑ رہے ہیں۔ تقریبا ً تیس کشتیاں جن میں دس ہزارمظلوم روہنگیائی مسلمان بے کسی کے عالم میں بحرہند میں سرگرداں ہیں
مگر کسی ملک کی سر زمین انہیں اپنے ساحل پراُترنے کی اجازت دینے یاپناہ دینے پر آمادہ نہیں۔ برماکے ان مظلوم و بے گھر مسلمانوں کاالمیہ یہ ہے کہ برماکی بدھسٹ آمریت انہیں اپنا شہری ماننے سے صاف انکارکرتی ہے ،پڑوس کی مسلم ریاست بنگلہ دیش ان پر اپنے دروازے بند کر چکی ہے،انڈونیشیا کی حکومت انہیں اپنے ساحل پر اترنے اور انہیں کسی قسم کی مدد دینے کے لئے صدق دلی سے تیارنہیں،
ملایشیاکی حکومت بارباراعلان کررہی ہے کہ بحرہندمیں بھٹکنے والی ان برمی مسلمانوں کی کوئی کشتی ان کے ساحل کی طرف رُخ کرے توا نہیں گرفتارکیا جائے گا۔
غرض تینوں مسلم ممالک میانمار میں ظلم و ستم سے بچنے کے لئے مہاجر روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ کھلے سمندر میں کشتیوں میں محصور ہیں. ان بدنصیبوں کو غیرمسلم ریاست تھائی لینڈ بھی اپنے ساحلوں
سے غذا اور اشیائے خوردنوش دینے سے انکاری ہے۔تاہم کچھ خدا ترس روٹیاں کشتیوں کی طرف اچهال دیتے ہیں جو کچھ کشتی میں گرتی ہیں اور کچھ سمندر میں سمندر میں گرنے والی روٹیوں کو پکڑتے پکرتے خود مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں.
پوری دنیامیں ان مظلومین کی آہ پہنچنے کے بعد ملایشیا نے ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو اس شرط پر اترنے دیا کہ انہیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔ حالانکہ وہ محض اس لئے اپنے وطن سے بھاگ رہے ہیں کہ ان کی جان کو وہاں شدید خطرات لاحق ہیں۔
مسلمان کو مسلمان سے اگر مروانا ہوتا تو تمام طاغوتی طاقتیں یکجا ہو کر آ جاتی ایک مسلمان کے سر کا بیانہ دوسرے مسلمان کو تهما دیا گیا ہوتا لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے مرنے والا مسلمان ہے مارنے والا بده مت کا پیروکار ہے. یہاں نہ تو ڈالر کا سسٹم ہے اور نہ ہی آئل کے کنویں کوئی مدد کو آئے تو کیا سوچ کر آئے.
ستاون مسلم ممالک میں سے صرف ترکی کو اللہ نے اتنی توفیق عطا کی کہ وہ اڑے وقت میں آگے بڑھا اور مدد کے لیے ہاتھ بڑهائے. آج روہنگیا کے مسلم ضرور اتنا سوچتے ہوں گے کے وہ بھی مسلماں جو مدد کے لیے بڑهے تو اپنے واپسی کے راستے مسدود کر دیے وہ بھی مسلم ہی تها جو بحری قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے والی لڑکی نائید کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے سمندروں کے سینے چیرتا ہوا دیبل آن پہنچا تها. آج کیا ہوا کہ بیٹیوں کی عزت لٹی جا رہی ہے لیکن مسلم امہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے. آج روہنگیائی پیرو جواں نیلے آسمان کی طرف آبدیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرتا ہے کہ
کیا میری آہ میں اثر نہیں.
تحریر مکمل ہونے پر خبر ملی کے ترکش فوج اپنے روہنگیائی بهایئوں کی مدد کے لیے برما پہنچ چکی ہے. اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ترک فوج کو قدم قدم حفاظت فرمائے. اور روہنگیائی مسلمانوں کو باعافیت منزل مقصود پر پہنچائے.
................................
برمی مسلمانوں پہ ظلم و ستم کی انتہا پر امت مسلمہ کی خاموشی نہ جانے لب کهولنے کی کیا قیمت مانگتی ہے جب کہ بیس ہزار سے زائد روہنگیائی اپنے لہو سے لاچار اور بےحس مسلمانوں کی تاریخ رقم کر چکے ہیں. عصمت زادیوں کے تار تار آنچل درندہ صفت بهشکوں کے ہاتھوں چاک گریبان اور کٹے پستان پاؤں تلے روندے بچے شاید ابھی تک امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لئے ناکافی ہیں. اسی لیے ایوانوں سے خراٹوں کی آواز سنائی دی جا رہی ہے. مسلمان طارق بن زیاد محمد بن قاسم سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی کے روپ میں تو تاریخ نے دیکها تها لیکن اس قسم کا ذلیل بےحس اور ڈرپوک مسلمان تاریخ اپنے اوراق پیش کرنے سے قاصر ہے جنهیں آج کے حالات بےحس کا کلنک لگا کر آئندہ نسلوں کے لئے رقم کر رہے ہیں.
روہنگیائی مسلم باشندے جو اٹھارہ سو چهبیس تک بنگالی کہلاتے تهے مغربی برما راختین میں برطانوی سامراج کی ایما پر آباد ہوئے جن کی تعداد تیرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے. مورخین کا کہنا ہے کہ 1430 -34 کے زمانے میں بھی برما میں مسلمانوں کی آبادی موجود تھی. لیکن برما نے انہیں برمی شہریت دینے سے ہمیشہ اجتناب برتا.
روہنگیائی مسلمانوں کا تاریخی پس منظر :-
برما کی ریاست ارکان اور راختین میں بسنے والے مسلم جسمانی قطع وضع سے نیپالی فلپائنی اور چائینوں کی طرح کے ہیں اور چپٹی چهوٹی ناک کی وجہ سے روہنگیا ذاتی کے لوگ کہے جاتے ہیں ان کا ریاست بنگال سے اور بنگلہ دیش سے برما منتقلی کا سلسلہ
1826میں ہوا جب برطانوی راج نے اپنی حدود کو وسیع کرنے کے لیے ریاست بنگال کی توسیع کی اور برما تک بنگال کی ریاست کو پھیلادیا تب وہاں کی زرخیز زمینوں پر کھیتی کرنے کی غرض سے بڑی تعداد میں بنگالی مزدوروں کو وہاں لے جا کر آباد کیا تھا ۔ واضح رہے کہ بنگالی باشندوں کو کھیت مزدور کی حیثیت سے نہ صرف برما لے جایا گیا بلکہ برطانوی سامراج نے انہیں مفلس مزدور سمجھ کر دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں بھی آباد کیا تھا ۔ مثلا آسام ، ماریشس ،مالدیپ ، سورینام، ترینڈاڈ ، گیانا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک ان مسلمانوں کو لے جایا گیا، جن کی نسلیں آج بھی وہاں آباد ہیں ۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور برما میں بھی بنگالی مسلمانوں کو آباد کیا گیا تھا ۔ حالانکہ اس سے قبل بھی وہاں خاطر خواہ مسلم آبادی موجود تھی ۔ مورخین کہتے ہیں کہ برما میں 1430-34 کے زمانے سے ہی مسلمانوں کی آبادی موجود تھی.
تاریخی شواہد :-
ماروک علاقے کے راجہ بارا میکھلا نے 1430 میں بنگال کے سلطان جلا ل الدین محمد شاہ کی فوج کی مدد سے ارکان صوبے پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور اسی زمانے میں سلطان بنگال کے مسلمان فوجی وہاں آباد ہوگئے تھے ۔ اس جنگ کے معاوضے کے طور پر ارکان کے راجہ نے وہاں کے کچھ علاقے بھی بنگالی سلطنت کی تحویل میں دے دئے تھے جن پر مسلم آبادیاں بسائی گئی تھیں ۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک اراکان میں بنگالی اسلامی سکوں کا چلن جاری رہا۔
خود اراکان کا راجہ بھی جو سکے ڈھلواتا تھا اس میں ایک جانب برمی زبان ہوتی تھی اور دوسری جانب عربی زبان لکھی ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ 1666تک جاری رہا اور اس مرحلے میں اراکان سے آج کے چٹاکانگ تک کا علاقہ برما میں شامل رہا ۔
سلطنت بنگال سے علیحدگی کے بعد بھی لمبے عرصے تک برما کے بودھ راجہ اپنے لئے مسلم خطابات استعمال کرتے رہے۔ 1785تک اراکان ایک خود مختار صوبہ تھا جس پر برما کا کوئی تسلط نہیں تھا اور وہ سلطنت بنگال کی حمایت سے اپنی خود مختاری قائم کئے ہوئے تھا
لیکن 1785 میں برمانے اس خود مختار ریاست پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں اراکانی باشندوں کو قتل کردیا۔
اس سے گھبرا کر بڑی تعداد میں اراکانی لوگ اس وقت کے صوبہ بنگال میں بھاگ کر آگئے، جہاں اس وقت برٹش حکومت تھی ۔ اس کے نتیجے میں اراکان صوبے کی آبادی بہت کم رہ گئی تھی، چنانچہ 1826میں جب برطانوی راج برما تک پھیل گیاتو بنگال اوربرما کے درمیان کوئی لکیریا سرحد بھی نہیں رہی تھی انگریزوں نے جب سمے ہوئے مزدوروں کو دیکھا تو فوراً اراکان پہنچ کر کھیت مزدور کی حیثیت سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں اراکان ضلع کی آبادی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ۔
یہی وہ مسلمان ہیں جن کو آج روہنگیا مسلمان کہاجاتا ہے ،
میانمار حکومت کا جھوٹا دعویٰ:-
میانمار حکومت کا یہ کہنا کہ روہنگیا مسلمانوں کا کبھی میانمار سے کوئی واسطہ نہیں رہا
اور نہ ہی روہنگیا لفظ کبھی برما میں رائج رہا سراسر جھوٹ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ
1799 میں فرانسس ہملٹن نے اپنی کتاب محمڈن میں ارکان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے (Rooinga) کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لفظ وہاں کے مسلمان خود اپنے لئے استعمال بھی کرتے تھے ۔اسی لفظ کی بدلی ہوئی شکل آج روہنگیا ہے۔
واضح ر ہے کہ برما میں بہت سی اصطلاحوں میں مستقل تبدیلی ہوتی رہی ہے، مثلا آج جس ملک کو میانمار کہا جاتا ہے اس سے قبل اس کا نام برما تھا اور آج بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اسی طرح برما کی راجدھانی آج سے اٹھ نو سال پہلے تک رنگون کہلاتی تھی.
روہنگیائی مسلمانوں کی بدنصیبی کا آغاز :-
برما میں روہنگیا ئی مسلمانوں کی قسمت اس وقت بگڑی کہ جب 1982میں جنرل نی ون کی ایک فوجی حکومت نے شہریت کا ایک نیا قانون پاس کیا جس کے تحت روہنگیائی مسلمانوں کی شہریت رد کردی گئی ۔ اس قانون کی رو سے لاکھوں روہنگیائی مسلمانوں سے شہری حقوق سلب کر کے ان کو ملک کے اندر ہی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا-تقریبا ایک لاکھ روہنگیائی مسلمان کو اپنا گھر بار چھوڑ کے کسی نہ کسی کیمپ میں پناہ گزیں ہونا پڑا اور برمی فوج نے انہیں روزگار حاصل کرنے کی خاطر بھی ان بد حال کیمپوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ سرکاری نوکریاں تو درکنار ڈهابوں اور ٹهیلوں پر کام کرنے تک کی بندش عائد تھی.
نسل کشی :-
گهروں سے نکال کر بهی جب برمیوں کی آتما کو سکون نہ ملا تو انہوں نے تعصب کی چیتا میں جلتی آتما کو شانت کرنے کے لیے بنی روہنگیا پر فرعونیت کو آزمایا اور یہ سرکاری اعلان کر دیا کہ کسی روہنگیائی کو دو سے زائد بچے جننے کی اجازت نہیں ہے.
یہ وہ فرعونی قانون تها جو بنی روہنگیا پر مسلط کر کے نسل کشی پر مجبور کیا. اس کالے قانون نے مسلمانوں کے اندر کچھ خود سری کا بیج بو دیا جو آخر کار 2012 میں ایک پودے کی شکل اختیار کر گیا.
جب پانی سروں اُونچا ہو گیا تب روہنگیائی مسلمانوں نے ایک جلوس کی صورت میں ہاتھ پاؤں مارے جب جلوس کی صورت میں اپنی بے بسی کی کہانی سنانے شہر کی طرف چلے تو فوج نے آتک وادی قرار دے کر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں پللک جھپکتے ہی بیس افراد ہلاک ہو گئے.
مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا کچھ مشکل نہیں سو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر جون 2012سے کچھ زیادہ ہی برماکے بدھسٹوں نے برمی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ خود کو عدم تشدد کے علمبردار کہنے والے بودھ بھکشوؤں نے ان مسلمانوں کی نسل کشی کا بیڑ اٹھا رکھا ہے ۔
دوسال سے مسلسل کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے اورزندہ بچ جانے والوں پر پورے برما میں مختلف قسم کی قدغیں لگاکر روزگار کے دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔
ایسے میں تنگ آکر یہ مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔برما کی سرکار دوٹوک الفاظ میں کہتی پھر تی ہے کہ روہنگیانی مسلمان بر ما کے شہری نہیں ہیں۔ گویا ان کو قتل کرنا یا ملک بدر کردینا جائز ہے ۔
دنیا میں حقوق انسانی کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ آن سانگ سوچی جو برما کی نام نہاد جمہوریت پسند لیڈر سمجھی جاتی ہے، بھی یہی کہتی ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ یہ مسلمان برما کے شہری ہیں یا نہیں۔
تب روہنگیائی مسلمانوں نے ہجرت کی. لیکن مسلمان ممالک کی بے حسی دیکهیے کے کوئی بھی ان کو پناہ نہ دے سکا.
اس وقت بحرہند کے ا نڈومان کے سمندری بھنورمیں اکثریتی برمی بودھوں کے مظالم کے مارے برما سے بھاگے ہوئے سسکتے ،بلکتے اوردم توڑتے روہنگیائی اقلیتی مسلمان جان بچانے کے لئے کشتیوں میں سوار ہوکر جائے پناہ کی تلاش میں ہیں،
وہ بھوک وپیاس سے نڈھال اورمختلف بیماریوں میں مبتلا جزائر انڈیمان کے نزدیک موت وحیات کی کشمکش سے لڑ رہے ہیں۔ تقریبا ً تیس کشتیاں جن میں دس ہزارمظلوم روہنگیائی مسلمان بے کسی کے عالم میں بحرہند میں سرگرداں ہیں
مگر کسی ملک کی سر زمین انہیں اپنے ساحل پراُترنے کی اجازت دینے یاپناہ دینے پر آمادہ نہیں۔ برماکے ان مظلوم و بے گھر مسلمانوں کاالمیہ یہ ہے کہ برماکی بدھسٹ آمریت انہیں اپنا شہری ماننے سے صاف انکارکرتی ہے ،پڑوس کی مسلم ریاست بنگلہ دیش ان پر اپنے دروازے بند کر چکی ہے،انڈونیشیا کی حکومت انہیں اپنے ساحل پر اترنے اور انہیں کسی قسم کی مدد دینے کے لئے صدق دلی سے تیارنہیں،
ملایشیاکی حکومت بارباراعلان کررہی ہے کہ بحرہندمیں بھٹکنے والی ان برمی مسلمانوں کی کوئی کشتی ان کے ساحل کی طرف رُخ کرے توا نہیں گرفتارکیا جائے گا۔
غرض تینوں مسلم ممالک میانمار میں ظلم و ستم سے بچنے کے لئے مہاجر روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ کھلے سمندر میں کشتیوں میں محصور ہیں. ان بدنصیبوں کو غیرمسلم ریاست تھائی لینڈ بھی اپنے ساحلوں
سے غذا اور اشیائے خوردنوش دینے سے انکاری ہے۔تاہم کچھ خدا ترس روٹیاں کشتیوں کی طرف اچهال دیتے ہیں جو کچھ کشتی میں گرتی ہیں اور کچھ سمندر میں سمندر میں گرنے والی روٹیوں کو پکڑتے پکرتے خود مچھلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں.
پوری دنیامیں ان مظلومین کی آہ پہنچنے کے بعد ملایشیا نے ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو اس شرط پر اترنے دیا کہ انہیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔ حالانکہ وہ محض اس لئے اپنے وطن سے بھاگ رہے ہیں کہ ان کی جان کو وہاں شدید خطرات لاحق ہیں۔
مسلمان کو مسلمان سے اگر مروانا ہوتا تو تمام طاغوتی طاقتیں یکجا ہو کر آ جاتی ایک مسلمان کے سر کا بیانہ دوسرے مسلمان کو تهما دیا گیا ہوتا لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے مرنے والا مسلمان ہے مارنے والا بده مت کا پیروکار ہے. یہاں نہ تو ڈالر کا سسٹم ہے اور نہ ہی آئل کے کنویں کوئی مدد کو آئے تو کیا سوچ کر آئے.
ستاون مسلم ممالک میں سے صرف ترکی کو اللہ نے اتنی توفیق عطا کی کہ وہ اڑے وقت میں آگے بڑھا اور مدد کے لیے ہاتھ بڑهائے. آج روہنگیا کے مسلم ضرور اتنا سوچتے ہوں گے کے وہ بھی مسلماں جو مدد کے لیے بڑهے تو اپنے واپسی کے راستے مسدود کر دیے وہ بھی مسلم ہی تها جو بحری قزاقوں کے ہاتھوں لٹنے والی لڑکی نائید کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے سمندروں کے سینے چیرتا ہوا دیبل آن پہنچا تها. آج کیا ہوا کہ بیٹیوں کی عزت لٹی جا رہی ہے لیکن مسلم امہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے. آج روہنگیائی پیرو جواں نیلے آسمان کی طرف آبدیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خود سے سوال کرتا ہے کہ
کیا میری آہ میں اثر نہیں.
تحریر مکمل ہونے پر خبر ملی کے ترکش فوج اپنے روہنگیائی بهایئوں کی مدد کے لیے برما پہنچ چکی ہے. اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ترک فوج کو قدم قدم حفاظت فرمائے. اور روہنگیائی مسلمانوں کو باعافیت منزل مقصود پر پہنچائے.