سید ذیشان
محفلین
کیا نشاط آور ہے
آج زندگی میری!
رخ پہ گل ہر دم ہے
گلستاں معطر ہے
دلربا اس منظر میں
کب کے بھول بیٹھے ہیں
کیسے اس جا پہنچے ہیں
کس طرح سفر کو ہم
چار و ناچار نکلے تھے
کس طرح قزاقوں نے
زادِ راہ لوٹا تھا
کیسے بے رخی سے ہم
ماہتاب تکتے تھے
یوں معلوم ہوتا تھا
روشنی نہیں ہے یہ
وقت ہم پہ خنداں ہے
ہم کو یوں چِڑاتا ہے
اپنی دل لگی کو وقت
ڈھونگ سب رچاتا ہے
دام ایسا پھیلایا
وقت کے اس ساحر نے
ہوشربا و بے خود
سحر زدہ پنچھی ہے
یا ہے کوئی پروانہ
بس چراغ تکتا ہے
ہر کوئی جو رہرو ہے
مجھ سا رہرو ہے جو
مطمئن و خندہ ہے
مسحور و رقصاں ہے
دھیرے کہتا رہتا ہے
کیا نشاط آور ہے
آج زندگی میری