وہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے جو اپنے فلسفیوں کی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے چینی فلسفیوں کی باتوں پر اعتبار کرے۔کہیں انشاء جی اٹھ کر کوچ کرنے والے تو نہیں ہیں؟؟؟
یہ دو اڑھائی سال پہلے 'وزیراعظم ہاؤس' کو یونیورسٹی بنانے کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا تھا۔ سمجھداروں کے لیے اس میں بھی کافی بڑا اشارہ تھا۔نظام جمہوریت تو نہیں البتہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی باتیں گردش رہی ہیں وہ بھی وہی انصافی بھائی کر ریے ہیں جو۔۔۔۔
معیشت کے محاذ پر ناکامی کا ذمہ دار لائے گئے لاڈلے نہیں بلکہ اسٹیبلیشیہ اور عوام کی روایتی بے صبری ہے۔ نئی حکومت کیلئے نہایت ہی آسان تھا کہ آتے ساتھ سیدھا آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتے۔ ملک و قوم پر مزید بیرونی قرضے چڑھاتے۔ ڈالر پیٹو اسٹیبلیشیہ اور بھوکی عوام کے منہ پر مارتے۔ اور یوں 5 سالوں میں 150 ارب ڈالر تک کا بیرونی قرضہ چڑھا کر یہ رفع دفع ہو جاتے۔یہ محض اپنے لائے گئے لاڈلوں کی معیشت کے محاذ پر مکمل ناکامی کے بعد ہونے والی سبکی سے بچنے کا ایک نیا بہانہ ہے۔
یہ گھسا پٹا سیاسی نظام تب تک ہی چل سکتا ہے جب تک قومی خزانہ مکمل خالی نہیں ہوجاتا۔ ملکی معیشت کے پچھلے 10 سالوں میں اعداد و شمار دیکھیں تو ملک دیوالیہ پن کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ملک میں موجودہ نظام چل جائے تو بڑی بات ہے۔
تو پھر، گزشتہ حکومتوں کو بھی بخش دیجیے۔معیشت کے محاذ پر ناکامی کا ذمہ دار لائے گئے لاڈلے نہیں بلکہ اسٹیبلیشیہ اور عوام کی روایتی بے صبری ہے۔
یقینا بخش دیتے اگر وہ ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرتے۔ اسحاق ڈار تو اُلٹا اپنی ڈلر پالیسی کے تحت ملک کو اچھا خاصا نقصان پہنچا کر گئے ہیں۔ جس کا اقرار سابقہ لیگی وزیر خزانہ مفتا اسمٰعیل بھی آن ریکارڈ کر چکے ہیں۔تو پھر، گزشتہ حکومتوں کو بھی بخش دیجیے۔
موجودہ حکومت نے بھی کیا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھ گیا؛ برآمدات غالباََ، اس کے باوجود، کم ہی رہی ہیں۔ کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔!یقینا بخش دیتے اگر وہ ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرتے۔ اسحاق ڈار تو اُلٹا اپنی ڈلر پالیسی کے تحت ملک کو اچھا خاصا نقصان پہنچا کر گئے ہیں۔ جس کا اقرار سابقہ لیگی وزیر خزانہ مفتا اسمٰعیل بھی آن ریکارڈ کر چکے ہیں۔
ان پر صلوات بھیجے بغیر مراسلے کا سواد نہیں آتا۔تو پھر، گزشتہ حکومتوں کو بھی بخش دیجیے۔
یہ فائدہ اتنی جلدی نظر نہیں آتا۔کیونکہ ملکی برآمداد عرصہ دراز سے درآمداد پرمنحصر رہی ہیں۔ ڈالر مہنگا ہونے پر جہاں درآمداد میں یکدم کمی واقع ہوئی ہے وہیں معاشی اصول کے تحت برآمداد میں وقتی مندی ہونا تو بنتی تھی ۔ البتہ اس پالیسی کے دیر است نتائج ہمیشہ مثبت نکلتے ہیں۔ ثبوت کے لئےیہ برآمداد کا 10 سالہ گراف دیکھیں:موجودہ حکومت نے بھی کیا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھ گیا؛ برآمدات غالباََ، اس کے باوجود، کم ہی رہی ہیں۔ کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔!
محترم مفتی صاحب! لسانی، جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے تقسیم در تقسیم معاشرہ آئے روز نئے تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ، ایسے تجربات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ، آئین میں اب اس کی گنجائش نہیں ہے اور اگر نکلے گی تو بہت کڑی شرائط پر۔ وفاق کی اکائیوں کو بھی اس پر تحفظات ہوں گے۔ یہ مارشل لاء کی نئی صورت ہو سکتی ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کا خدشہ خارج از امکان نہیں۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے قبل اس طرح کی ایک صورت حال ہمارے سامنے تھی۔اب تک کے مراسلات کا خلاصہ کریں تو مزید کئی سوالات اٹھتے ہیں۔۔۔
کیا صدارتی نظام کا جو خاکہ پیش کیا جارہا ہے وہ موجود جمہوری نظام کا خاتمہ نہیں لگ رہا۔۔۔
کیوں کہ صرف ٹیکنوکریٹس کے ذریعہ ملک چلانے کی بات ہورہی ہے۔۔۔
اس میں عوام کی رائے بذریعہ ووٹ وغیرہ کا کوئی تصور نظر نہیں آرہا ۔۔۔
دوسرے صدارتی نظام آنے سے ملک ٹوٹنے کا کیا تعلق؟؟؟
معاشی معاملات پر بحث بعد میں!!!
اگر مجوزہ صدارتی نظام آگیا تو شاید سب سے پہلے آئین ہی لپیٹا جائے گا!!!آئین میں اب اس کی گنجائش نہیں ہے
ان کے تحفظات کو خاطر میں کون لائے گا۔۔۔وفاق کی اکائیوں کو بھی اس پر تحفظات ہوں گے۔
ہ مارشل لاء کی نئی صورت ہو سکتی ہے۔
عوام مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر پس چکی ہے کہ گھروں سے نکلنا بند کردیا ہے، شاید ہی ایسا کچھ ہوسکے!!!ملک میں خانہ جنگی کا خدشہ خارج از امکان نہیں۔
عوام مہنگائی کے ہاتھوں اس قدر پس چکی ہے کہ گھروں سے نکلنا بند کردیا ہے، شاید ہی ایسا کچھ ہوسکے!!!