سید عمران
محفلین
کس سے؟؟؟خیر ہے جی، وزیر سے استعفی لے لیا گیا ہے۔
کس سے؟؟؟خیر ہے جی، وزیر سے استعفی لے لیا گیا ہے۔
آٹھ ماہ میں جتنا قرضہ لیا گیا وہ تمام حدوں کو پار کر چکا ہے۔ رہی بات اسد عمر کی تو وہ یوتھیوں کے نزدیک ہی ماہر معیشت ہے ۔معیشت کے محاذ پر ناکامی کا ذمہ دار لائے گئے لاڈلے نہیں بلکہ اسٹیبلیشیہ اور عوام کی روایتی بے صبری ہے۔ نئی حکومت کیلئے نہایت ہی آسان تھا کہ آتے ساتھ سیدھا آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتے۔ ملک و قوم پر مزید بیرونی قرضے چڑھاتے۔ ڈالر پیٹو اسٹیبلیشیہ اور بھوکی عوام کے منہ پر مارتے۔ اور یوں 5 سالوں میں 150 ارب ڈالر تک کا بیرونی قرضہ چڑھا کر یہ رفع دفع ہو جاتے۔
لیکن اسد عمر نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ ملک کے اقتصادی نظام میں جو بگاڑ بھٹو کے بعد سے پیدا ہو چکا تھا۔ اسے ٹھیک کرنے کیلئے اصلاحات شروع کی۔ یہ کافی تکلیف دہ کام تھا جسے ظاہر ہے عوام اور مقتدر حلقوں نے برداشت نہیں کیا۔ بہرحال معاشی نظام کو ٹھیک کرنے کی ایک کوشش ضرور کی گئی۔
اب روایتی اسٹیبلشیہ کا وزیر خزانہ آنے کے بعد پھر وہی پرانی تاریخی دہرائی جائے گی۔ اور 5 سال بعد آنے والی حکومت اسی طرح گھبرا رہی ہوگی جیسے تحریک انصاف آتے ساتھ خالی خزانہ دیکھ کر گھبرا گئی تھی
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہے اس لیے عمران مستعفی ہوں اورنئے انتخابات کرائے جائیں، مہنگائی آخری حدود کو چھو رہی ہے، غرباء کاجینا محال ہوگیا ہے، معیشت مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے یہ حکومت بجٹ پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، آئی ایم ایف بجٹ پیش کرے گا۔کیوں کہ صرف ٹیکنوکریٹس کے ذریعہ ملک چلانے کی بات ہورہی ہے۔۔۔
مفتی صاحب، اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ کے مطابق مارشل لا لگانے کا مقصد ہی ملک میں آئین توڑ کر صدارتی نظام نافذ کرنا ہوتا ہےاگر مجوزہ صدارتی نظام آگیا تو شاید سب سے پہلے آئین ہی لپیٹا جائے گا!!!
یہ بھی پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ عین فوجی حکومتوں کے نزول کے وقت امریکہ بہادر کو پاکستان کی سخت ضرورت پڑتی رہی ہے۔ یوں اس عارضی نظر کرم کی بدولت ڈکٹیٹرز کے ادوار میں ملک جمہوری ادوار کی نسبت زیادہ خوشحال رہا ہے۔یہاں ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین اور جمہوریت کو معطل کرنے سے ملک مزید معاشی بحران کا شکار تو نہیں ہو جائے گا ۔
وزیر گیس اور پٹرولیم سےکس سے؟؟؟
مثلاً؟؟؟1958 اور 1977 کے مارشل لاز کے بعد ڈکٹیٹران نے نہایت آرام سے ملک کا صدر بن کر کئی سال حکومت کی ہے۔ جس کے سنگین نتائج بھی قوم و ملک بھگت چکا ہے۔
نہیں۔۔۔کیا صدارتی نظام ریاست کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتا ہے؟
مسائل کا حل نظام میں نہیں، قانون کی حکمرانی میں ہے۔
ایک معصومانہ سوال: قانون کی حکمرانی کو یقینی کون بناتا ہے؟مسائل کا حل نظام میں نہیں، قانون کی حکمرانی میں ہے۔
حکمران!!!ایک معصومانہ سوال: قانون کی حکمرانی کو یقینی کون بناتا ہے؟
جس طرح ہمارا سوال معصومانہ ہے، اسی طرح آپ کا جواب بھی معصومانہ ہے۔حکمران!!!
ایک معصومانہ سوال: قانون کی حکمرانی کو یقینی کون بناتا ہے؟
ہالوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو دو وسیم بادامی محفل پر اکٹھے جلوہ افروز۔جس طرح ہمارا سوال معصومانہ ہے، اسی طرح آپ کا جواب بھی معصومانہ ہے۔
پوری لڑی ابھی تک نہیں پڑھی۔ لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ڈار کی ڈالر پالیسی کیا تھی؟ یعنی کس کس مقام پر وہ معیشت کے لیے نقصان دہ تھی۔یقینا بخش دیتے اگر وہ ملک کے اقتصادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرتے۔ اسحاق ڈار تو اُلٹا اپنی ڈلر پالیسی کے تحت ملک کو اچھا خاصا نقصان پہنچا کر گئے ہیں۔ جس کا اقرار سابقہ لیگی وزیر خزانہ مفتا اسمٰعیل بھی آن ریکارڈ کر چکے ہیں۔
اس تشبیہ کی وجہ؟وسیم بادامی
الفاظ ’معصومانہ سوال‘ وسیم بادامی کا ٹریڈ مارک سمجھ لیجیے۔اس تشبیہ کی وجہ؟
مجھے بھی اندازہ ہوگیا تھا۔ لیکن زیادہ سنا نہیں اس کو۔ بہت شکریہ۔الفاظ ’معصومانہ سوال‘ وسیم بادامی کا ٹریڈ مارک سمجھ لیجیے۔
مارشل لاز سے ملک کی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئی ہیں ۔ جسکی وجہ سے کوئی بھی خالص سیاسی رہنما قوم کو میسر نہ آسکا۔مثلاً؟؟؟