عؔلی خان
محفلین
کیا پشتون یہودی النسل ہیں؟
تحریر: ڈاکٹر لطیف یاد
ترجمہ: محمد لعل خان
ماضی قریب میں بہت ساری ایسی ویب سائٹس کا اجرا کیا گیا جو درحقیقت پشتون دشمنی، بغض و عناد ،تقسیم در تقسیم اور نفرت کی بنیاد پر وجود میں لائے گئے ہیں اور ان ویب سائٹس پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ گویا پشتون قوم یہودی النسل ہیں اور بنی اسرائیل کی ان دس گم شدہ قبائل میں سے ایک قبیلہ ہے جو آپس میں خانہ جنگی کے سبب موجودہ افغانستان کی طرف ہجرت کر کےآیا(حضرت عیسیٰؑ کے بعد). اس قسم کے لکھاری بجائے اس کے کہ اپنی اس بات کو علمی و نظریاتی اور منطقی دلایل سے ثابت کریں، یا کہ اپنی یہ بات مستند تاریخی کتب و تحاریر سے ثابت کریں، یہ حضرات محض بے بنیاد تحاریر اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے اپنی بات کے لیے دلائل دیتے رہے ہیں-
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پشتون قوم کے حوالے سے اس قسم کی بے بنیاد کوششیں کی گئی ہیں بلکہ یہ حرکات پہلے بھی کی جا چکی ہیں کہ جن کے ذریعے پشتون قوم کو کبھی بنی اسرائیل تو کبھی مصر کے قبطیوں کی نسل، کبھی ارمنائی و یونانی تو کبھی ہندو راجپوتوں یا بابلیوں کی اولاد سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے حتٰی کہ بعض متعصب اور نااہل لکھاریوں نے پشتون کو شیطانوں اور دیوو غیرہ کی اولاد اور پشتو زبان کو دوزخ کی زبان ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہےجو کہ ایک نہ صرف غیر مہذب، شرمناک اوربے بنیاد عمل ہے بلکہ علم ِتاریخ کیساتھ ایک گھناؤنا مذاق بھی ہے۔
یہ لکھاری حضرات اس بات سے بے خبر ہیں[ یا قصداً اس بات پر پردہ ڈالتے ہیں ] کہ پشتون قوم اور پشتو زبان کا ذکر آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے ساڑھے 1400سال قبل آریا کی مقدس ترانوں کی کتاب{رگویدا} میں کی گئی ہے اور اس قوم کو {پکھت} کے نام سے لکھا گیا ہے جس سے مراد پختون یا پشتون ہے، رگویدا میں {پکھتا} کا لفظ پشتونوں کے بادشاہ اور لفظ {پکھت} پشتون قوم کےلیے استعمال میں لایا گیا ہے. اور ساتھ ہی دس آریہ قبائل کی لڑائی میں پکھت نام شامل ہے-
اسی طرح زرتشت مذہب کی کتاب [اویستا] میں بھی لفظ {بخد} اور لفظ {پخت} کا ذکر موجود ہے کہ جن سے مراد پختون یا پشتون ہے. حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے پانچ سو سال قبل ایک یونانی امیر البحر سکائی لاکس جو دارا (ایرانی بادشاہ) کی طرف سے بحیرۂ عرب کی تسخیر کیلیے بھیجا گیا تھا بکتیکا {افغانستان کا صوبہ} کے راستے دریائےسندھ {آباسین انڈس] تک پہنچا اور اپنے سفرنامہ میں پشتونوں کے مسکن پکتیکا کے نام سے یاد کیا ہے-
اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے دو سو سال قبل ایک اور یونانی جغرافیہ دان بطلیموس کلودیس نے بھی پشتون وطن کو پکتین، پکتیس او پکتویس ایسے ناموں سے یاد کیا ہے- دوسری طرف افغانستان اور پشتونخواہ کے نامور مؤرخین جیسے استاد احمد علی کہزاد، مرحوم علامہ عبدالحی حبیبی اور مرحوم بہادر شاہ ظفر کاکاخیل نے بھی اپنے علمی دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پشتون نسل کے اعتبار سے آرین ہے نہ کہ اسرائیلی اور یہ کہ پشتو زبان بھی آرین زبان ہے جو کہ ایک زندہ ادبی آرین زبان کی حیثیت سے خود ایک مضبوط تاریخی ثبوت ہے جس کا سامی النسل زبانوں سے نہ تو کوئی تعلق ہے اورنہ ہی یہودیوں کی عبرانی زبان سے کوئی مشترکہ تعلق و عنصر رکھتی ہے-
مزید اس موضوع پر غیر افغان مؤرخین و مستشرقین جیسے پروفیسر کلیرتھ، پروفیسر ڈورن، راورٹی اور ٹرومپ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پشتو زبان کی سامی زبانوں اور یہودی سامی زبان عبرانی سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔نیز یہ کہ پشتو زبان اپنی ہّیت قواعد اور اصولوں کی بنا پر آرین زبان ہے-
درج بالا وجوہات و دلائل کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ علم اللسان (زبانوں کا علم) کے ماہرین کی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکی ہے کہ پشتو زبان ایک آرین زبان ہے ،اور یہودیوں کی عبرانی زبان ،جس کو انگریزی میں ہیبروکہا جاتا ہے، سے اس کا کوئی تعلق و رشتہ نہیں ہے -اسی طرح پشتون نسل کابھی یہودی نسل سے ،جو کہ سامی ہے ،سے بھی کوئی تعلق نہیں -، نیز یہ واہیات ، بے سروپااور بے دلیل باتیں کہ پشتون یہودی النسل ہیں، ان باتوں کی کوئی تاریخی حیثیت موجود نہیں- لہٰذا ثابت ہے کہ پشتون قوم ایک خالص آرین قوم ہے، اگر مان بھی لیا جائے کہ پشتون یہودی النسل ہیں تو آج کے ترقّی یافتہ دور میں انسانوں کا ڈی.این.اے ٹیسٹ ایک سادہ سی بات ہے، جس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ پشتونوں اور یہودیوں کے ڈی.این.اے میں کوئی مشاہبت اور تعلق موجود نہیں-
Source
تحریر: ڈاکٹر لطیف یاد
ترجمہ: محمد لعل خان
ماضی قریب میں بہت ساری ایسی ویب سائٹس کا اجرا کیا گیا جو درحقیقت پشتون دشمنی، بغض و عناد ،تقسیم در تقسیم اور نفرت کی بنیاد پر وجود میں لائے گئے ہیں اور ان ویب سائٹس پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ گویا پشتون قوم یہودی النسل ہیں اور بنی اسرائیل کی ان دس گم شدہ قبائل میں سے ایک قبیلہ ہے جو آپس میں خانہ جنگی کے سبب موجودہ افغانستان کی طرف ہجرت کر کےآیا(حضرت عیسیٰؑ کے بعد). اس قسم کے لکھاری بجائے اس کے کہ اپنی اس بات کو علمی و نظریاتی اور منطقی دلایل سے ثابت کریں، یا کہ اپنی یہ بات مستند تاریخی کتب و تحاریر سے ثابت کریں، یہ حضرات محض بے بنیاد تحاریر اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے اپنی بات کے لیے دلائل دیتے رہے ہیں-
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پشتون قوم کے حوالے سے اس قسم کی بے بنیاد کوششیں کی گئی ہیں بلکہ یہ حرکات پہلے بھی کی جا چکی ہیں کہ جن کے ذریعے پشتون قوم کو کبھی بنی اسرائیل تو کبھی مصر کے قبطیوں کی نسل، کبھی ارمنائی و یونانی تو کبھی ہندو راجپوتوں یا بابلیوں کی اولاد سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے حتٰی کہ بعض متعصب اور نااہل لکھاریوں نے پشتون کو شیطانوں اور دیوو غیرہ کی اولاد اور پشتو زبان کو دوزخ کی زبان ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہےجو کہ ایک نہ صرف غیر مہذب، شرمناک اوربے بنیاد عمل ہے بلکہ علم ِتاریخ کیساتھ ایک گھناؤنا مذاق بھی ہے۔
یہ لکھاری حضرات اس بات سے بے خبر ہیں[ یا قصداً اس بات پر پردہ ڈالتے ہیں ] کہ پشتون قوم اور پشتو زبان کا ذکر آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے ساڑھے 1400سال قبل آریا کی مقدس ترانوں کی کتاب{رگویدا} میں کی گئی ہے اور اس قوم کو {پکھت} کے نام سے لکھا گیا ہے جس سے مراد پختون یا پشتون ہے، رگویدا میں {پکھتا} کا لفظ پشتونوں کے بادشاہ اور لفظ {پکھت} پشتون قوم کےلیے استعمال میں لایا گیا ہے. اور ساتھ ہی دس آریہ قبائل کی لڑائی میں پکھت نام شامل ہے-
اسی طرح زرتشت مذہب کی کتاب [اویستا] میں بھی لفظ {بخد} اور لفظ {پخت} کا ذکر موجود ہے کہ جن سے مراد پختون یا پشتون ہے. حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے پانچ سو سال قبل ایک یونانی امیر البحر سکائی لاکس جو دارا (ایرانی بادشاہ) کی طرف سے بحیرۂ عرب کی تسخیر کیلیے بھیجا گیا تھا بکتیکا {افغانستان کا صوبہ} کے راستے دریائےسندھ {آباسین انڈس] تک پہنچا اور اپنے سفرنامہ میں پشتونوں کے مسکن پکتیکا کے نام سے یاد کیا ہے-
اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے دو سو سال قبل ایک اور یونانی جغرافیہ دان بطلیموس کلودیس نے بھی پشتون وطن کو پکتین، پکتیس او پکتویس ایسے ناموں سے یاد کیا ہے- دوسری طرف افغانستان اور پشتونخواہ کے نامور مؤرخین جیسے استاد احمد علی کہزاد، مرحوم علامہ عبدالحی حبیبی اور مرحوم بہادر شاہ ظفر کاکاخیل نے بھی اپنے علمی دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پشتون نسل کے اعتبار سے آرین ہے نہ کہ اسرائیلی اور یہ کہ پشتو زبان بھی آرین زبان ہے جو کہ ایک زندہ ادبی آرین زبان کی حیثیت سے خود ایک مضبوط تاریخی ثبوت ہے جس کا سامی النسل زبانوں سے نہ تو کوئی تعلق ہے اورنہ ہی یہودیوں کی عبرانی زبان سے کوئی مشترکہ تعلق و عنصر رکھتی ہے-
مزید اس موضوع پر غیر افغان مؤرخین و مستشرقین جیسے پروفیسر کلیرتھ، پروفیسر ڈورن، راورٹی اور ٹرومپ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پشتو زبان کی سامی زبانوں اور یہودی سامی زبان عبرانی سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔نیز یہ کہ پشتو زبان اپنی ہّیت قواعد اور اصولوں کی بنا پر آرین زبان ہے-
درج بالا وجوہات و دلائل کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ علم اللسان (زبانوں کا علم) کے ماہرین کی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکی ہے کہ پشتو زبان ایک آرین زبان ہے ،اور یہودیوں کی عبرانی زبان ،جس کو انگریزی میں ہیبروکہا جاتا ہے، سے اس کا کوئی تعلق و رشتہ نہیں ہے -اسی طرح پشتون نسل کابھی یہودی نسل سے ،جو کہ سامی ہے ،سے بھی کوئی تعلق نہیں -، نیز یہ واہیات ، بے سروپااور بے دلیل باتیں کہ پشتون یہودی النسل ہیں، ان باتوں کی کوئی تاریخی حیثیت موجود نہیں- لہٰذا ثابت ہے کہ پشتون قوم ایک خالص آرین قوم ہے، اگر مان بھی لیا جائے کہ پشتون یہودی النسل ہیں تو آج کے ترقّی یافتہ دور میں انسانوں کا ڈی.این.اے ٹیسٹ ایک سادہ سی بات ہے، جس سے ثابت ہوسکتا ہے کہ پشتونوں اور یہودیوں کے ڈی.این.اے میں کوئی مشاہبت اور تعلق موجود نہیں-
Source