جگر کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی

عاطف ملک

محفلین
جگر سے منسوب کی گئی یہ غزل سوشل میڈیا پر پڑھی ہے۔
شعر اچھے لگے سو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔

جناب محمد وارث سے گذارش ہے کہ تصدیق کر لیں۔
غزل

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی


ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟


یہ مجرمِ الفت ہے، تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی


کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی

مایوس شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی

جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی

واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی

ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی
 
آخری تدوین:
جگر سے منسوب کی گئی یہ غزل سوشل میڈیا پر پڑھی ہے۔
شعر اچھے لگے سو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔

جناب محمد وارث سے گذارش ہے کہ تصدیق کر لیں۔
غزل

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی


ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟


یہ مجرمِ الفت ہے، تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی


کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی

مایوس شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی

جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی

واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی

ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی
عاطف بھائی، غزل خوب ہے۔
جگر کی ہو یا پھیپھڑوں کی :D
 

محمد وارث

لائبریرین
جگر سے منسوب کی گئی یہ غزل سوشل میڈیا پر پڑھی ہے۔
شعر اچھے لگے سو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔

جناب محمد وارث سے گذارش ہے کہ تصدیق کر لیں۔
غزل

کیا چیز تھی، کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی


ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟


یہ مجرمِ الفت ہے، تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی


کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی

مایوس شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی

جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی

واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی

ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی
شکریہ ڈاکٹر صاحب یاد آوری کے لیے۔ یہ جگر ہی کی غزل ہے اور ان کے مجموعے 'شعلۂ طور' میں شامل ہے۔
 
Top