کیا کرنا چاہیے؟

انتہا

محفلین
ہم سب اپنے اپنے نظریوں کی چار دیواری کے اندر مقید ہیں۔ کسی شخص کا یہ دعوی کرنا کہ وہ بالکل غیر جانب دار ہے ہر گز قابل اعتبار نہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہی مسلمانوں کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔
ایک طبقہ دینی رخ پر لگ گیا اور اس میں رسوخ پیدا کرنے لگا اب وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں دنیا کے جس شعبے میں چاہوں جس طرح چاہوں دین کا انفاذ کروں، لیکن تربیت کے فقدان اور خود کو بہتر مرتبہ تصور کرنے کی وجہ سے وہ دنیاوی یا تکنیکی معاملات میں اپنے نفس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اپنی رائے کے سامنے دوسروں کی رائے کی کوئی اہمیت تصور نہیں کرتا۔
دنیاوی ایجادات اور اصلاحات سے متاثر دین بیزار طبقہ اس کے مخالف ایڑی چوٹی کا زور صرف اس بات پہ صرف کرتا ہے کہ کسی طرح اس دین کے ٹھیکیدار طبقہ(علماء ومشائخ) کوپست خیال اور دقیانوس ثابت کر کے انھیں بدنام کیا جائے ، اور ان سے گویا دنیا میں زندہ رہنے کا حق ہی چھین لیا جائے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان حالات میں کیا کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک امت بنایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک امت تشکیل فرما کر گئے۔ لیکن یہ سب باتیں تو امت پنےکو پاش پاش کرنے والی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنے بڑے بڑے اختلافات کھل کر سامنے آتے ہیں کہ ایمان اور اسلام کا خطرہ پڑ جاتا ہے۔کیا کوئی اس بات کو سمجھنے والا ہے۔
ہر شخص اپنی نام نہاد علمیت جتانے کے چکر میں اپنے الفاظ کے زہر سے نجانے کتنے افتراق کا سبب بن رہا ہے۔ہمارے الفاظ کے شعلوں سے کتنے ذہنوں میں نئے نئے فتنے جنم لیتے ہیں ہم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے اور ہم اسے آزادی ٔ رائے تصور کرتے ہیں۔
دنیا میں ہر چیز کے ناپنے کا معیار ہے۔ ہم ہر جگہ اس کا اطلاق کرتے ہیں۔ ادھر آزادی کو مہلک جان لیوا تصور کرتے ہیں، لیکن صرف اللہ تعالیٰ کا دین ہی ایسا فضول اور ناکارہ رہ گیا ہے کہ جب چاہے جو چاہے کسی بھی معاملے میں اپنی ٹانگ اڑا دے۔ اپنی رائے کو وقیع سمجھے۔ چاہے وہ اس کا مستحق ہو یا نہ ہو۔
اس بات کو اگر مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر وہی دقیانوسی اور مذہبی ٹھیکے داری کا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔ اگر جواب نہیں دیا جاتا تو اسے قلت علم سمجھا جاتا ہے۔
کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم اپنی تحریروں اور اپنے الفاظ کو ایک دوسرے سے تعلق کو مضبوط کرنے میں صرف کریں۔ کسی کو حقیر نہ سمجھیں۔ اپنی رائے کو پیش کرنے میں وہ رویہ اختیار کریں جو دل پذیر اور دل نشین ہو نہ کہ دل آزاری اور حوصلہ شکنی کا سبب بنے۔
کیا اب ہم دوبارہ سے ایک امت نہیں بن سکتے؟
 
Top