کیا کمپیوٹر خطاطوں کا نام و نشان مٹادیں گے؟

عاطف بٹ

محفلین
133290_83103112.jpg
 

نایاب

لائبریرین
کمال فن کا بہت خوب ذکر
واقعی " کمپیوٹر " آسانی تو پیدا کر رہا ہے مگر ان عظیم فنون کو مٹا بھی رہا ہے ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بٹ بھائی
 

تلمیذ

لائبریرین
بٹ جی، یہ کہانی تو کچھ اپنے یہاں کے خطاطوں کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔ فنی لحاط سے تو ہو سکتا ہے، وہ عالم اسلام کے کلاکاروں کے ساتھ ہی کھڑے ہوں تاہم مادی (مالی) لحاظ سے تو ان کا مستقبل بھی ویاس ہی مخدوش ہے۔
 

سویدا

محفلین
عام خطاط تو واقعی متاثر ہوئے ہیں اور ہوں گے لیکن بہرحال بڑے ماہرین فن خطاط کی بہرصورت ضرورت رہے گی
 

عاطف بٹ

محفلین
بٹ جی، یہ کہانی تو کچھ اپنے یہاں کے خطاطوں کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔ فنی لحاط سے تو ہو سکتا ہے، وہ عالم اسلام کے کلاکاروں کے ساتھ ہی کھڑے ہوں تاہم مادی (مالی) لحاظ سے تو ان کا مستقبل بھی ویاس ہی مخدوش ہے۔
سر، ہمارے ہاں مالی لحاظ سے تو تقریبآ ہر طرح کے تخلیق کاروں اور کلاکاروں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
پاکستانی اردو صحافت کے بیشتر کاتب اب کمپیوٹر کمپوزر بن چکے ہیں۔کاغذ کی ایجاد سے قبل چمڑے، پتے اور کپڑے وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔ قلم کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔اور آج کاغذ قلم کی جگہ کمپیوٹر اسکرین اور کی بورڈ نے لے لی ہے۔ کل جو کام گھنٹوں اور دنوں میں ہوتا تھا اور جو دفتری الماریوں میں بھی بمشکل سمایا کرتا تھا، آج وہی کام انتہائی قلیل وقت میں ہوتا ہے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات کا متن محض ایک یو ایس بی میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ جو کام ایک خطاط عشروں میں سیکھتا تھا اب وہی کام چند گھنٹوں یا دنوں کے ریفریشر کورس کے ذریعہ کوئی بھی بآسانی سیکھ سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم سب کو اپنا اپنا ماضی بہت سہانا لگتا ہے۔ لیکن دنیا آگے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہم اگر دنیا کے قدم بہ قدم ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے ماضی، اپنی تاریخ کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ٹیکنالوجی کو خوش دلی سے ویلکم کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اس کا موازنہ صدیوں پرانی ”ٹیکنالوجی“ سے کرکے اس کی حسین یادوں میں ”کھو جانے“ کی۔:)
 
بلکل درست
بہتر ہے کہ خطاطی کو جدید ٹیکلنالوجی کے ذریعے جاری رکھا جائے۔
موضوع برطرف۔ کہیں ایک مرتبہ پڑھا تھا کہ ایک وقت ائے گا جب قرآن اٹھالیا جائے گا۔ اس وقت یہ بات کچھ زیادہ سمجھ میں نہیں اتی تھی کہ کتاب سے کیسے تحریر غائب ہوجائے گی۔ مگر اپ یہ اندازہ ہورہا ہے کہ کتابیں بہت جلد برقی کتابیں بن جائیں گی۔ شاید مبطوعہ کتب کا رواج ختم ہوجائے۔ ٹیبلٹز میں بکس پڑھی جائیں۔ پھر تو اس ڈاٹا کو غائب کرنا ایک کمانڈ کا کام ہو۔
 

تلمیذ

لائبریرین
سر، ہمارے ہاں مالی لحاظ سے تو تقریبآ ہر طرح کے تخلیق کاروں اور کلاکاروں کو پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کلی طور پر متفق، بٹ جی۔ جدید سائنس کے کرشموں، کمپیوٹر گرافکس، اور فونٹ سازی میں کی گئی تحقیق اورجدتوں کو تسلیم کرتے ہوئے میں یہ کہے بغیرنہیں کہہ سکتا کہ انسانی ہاتھوں کے کمال کاکبھی کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتااور جب تک انسان ہےیہ فنون لطیفہ زندہ رہیں گے۔ اس سلسلے میں اسی اردو محفل کے صفحات پر التباس کے ترسیل کردہ اسلامی خطاطی کے نقوش کو ملاحظہ کریں جن میں سے چند کو دیکھ کر تو طبیعت دنگ رہ جاتی ہے اور دل میں ان ہاتھوں کو چومنے کی تمنا جاگتی ہے جنہوں نے یہ عالیشان فن پارے تخلیق کئے ہیں۔ میرے خیال میں تو کمپیوٹر پراس طرح کا اوریجنل کام ابھی تک کہیں دیکھنے میں نہیں آیا اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے شاید ابھی کئی اور سال لگیں گے۔
شاکرالقادری @زبیرمرزا دوست الف نظامی ، قیصرانی
 

زبیر مرزا

محفلین
جس طرح فوٹوشاپ مصوروں کو نہیں مٹا سکا بلکہ ان کا ایک ٹول بن گیا ہے اسی طرح خطاطی کے فن سے آشنا
جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوں گے اور اپنے فن کا اظہار مختلف میڈیم کے ذریعے کریں گے لیکن یہ گمان کہ خطاطوں کافن
مٹ جائے گا دُرست نہیں -
 

الف نظامی

لائبریرین
حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی​

اشرف ہیرا جیسے ذہین، باہمت جوان کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے جوانوں کوپیروں کا استاد بنانے کا درس غلط نہیں دیا تھا، حال ہی میں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے خطاط اشرف ہیرا نے لیبیا کے شہر طرابلس میں منعقدہ عالمی خطاطی مقابلے میں 45 ممالک کے دو ہزار خطاطوں کے ساتھ ایک زبردست مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان کا نام ایک بار پھر بلند کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اشرف ہیرا وہ ہونہار پاکستانی خطاط ہے جس نے 2003ءسے پاکستانی خطاطی کا ڈنکا دنیائے اسلام میں بجایا اور ترکی میں خطاطی کے ایک بہت بڑے عالمی مقابلے میں حصہ لے کر پہلا انعام حاصل کیا۔
اسلامی فنونِ لطیفہ میں خطاطی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور مسلم آرکٹیکٹچر(فن تعمیر) میں خطاطی کے ذریعہ عمارات کی خوبصورتی میں اضافے کا آغاز بھی مسلمانوں نے ہی کیا تھا۔ شاہی مسجد میں دوسرے فنون کی خوبصورتی ہے۔ خوبصورت گل بوٹوں اور حسین رنگوں کے استعمال سے جلال و جمال کا حسین امتزاج پیدا کیا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بہت کم ایسی عمارتیں وجود میں آتی رہیں جو اسلامی فن تعمیر کے زمرے میں شمار کی جا سکیں۔ لاہور کا ایوان اقبال اس لحاظ سے اسلامی فن تعمیر کا ایک عمدہ نمونہ ہے جہاں چھت پر اور دیواروں پر علامہ اقبال کے خوبصورت اشعار بہت خوبصورت انداز میں لکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی خطاط اشرف ہیرا نے لیبیا سے واپسی پر بتایا اس وقت تک میں دنیا کا واحد خطاط ہوں جس کے پاس سب سے زیادہ بین الاقوامی ایوارڈ اور سرٹیفیکیٹ ہیں۔ ترکی کی انٹرنیشنل (عالمی) خطاطی کے مقابلہ میں بالترتیب 2003 ,2007 اور 2010 میں جیت چکا ہوں اور اب 2013ءمیں بھی نئے مقابلے کا اعلان ہو چکا ہے جس کے لئے خطاطی کے نمونے بھیجنے کی آخری تاریخ 5 مارچ ہے۔ سعودی عرب سے دو مرتبہ عالمی مقابلہ جیتا، چین سے تین مرتبہ، مصر اور ایران سے دو دو مرتبہ اور دبئی، الجیریا، اردن، جاپان اور قطر میں منعقدہ مقابلوں میں ایک ایک بار فتح حاصل کی ہے۔ میں جس ملک میں بھی مقابلے میں شریک ہوتا ہوں تو جب مقابلہ جیت لیتا ہوں تو خطاطوں کی اکثریت کا خیال ہوتا ہے کہ پاکستان میں خطاطی سکھانے کے بہت سے ادارے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں خطاطی کی تربیت دینے کے لئے ایک بھی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے(نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں خورشید عالم گوہر قلم خطاطی کی تعلیم دیتے ہیں) بلکہ خطاطی کو فروغ دینا تو دور کی بات ہے فن خطاطی کو تو کسی لیول(سطح) پر بھی نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ آج بھی پاکستانی طلبہ خوشخط لکھ سکتے ہیں اگر انہیں قلم دوات کی عادت ڈال دی جائے۔ بال پوائنٹ سے تو لکھائی خراب ہوتی ہے اسی لئے لطیفہ مشہور ہے کہ ڈاکٹری نسخہ کو دوا کے علاوہ سب ہی دوسری جگہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ لکھے موسیٰ اور پڑھے خدا ۔ حکومت کو بھی سرکاری سطح پر خطاطی کے عالمی مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے، صرف ایک بار ہوا تھا لاہور ٹولنٹن مارکیٹ میں(کالم نگار سے متفق نہیں ہوں کہ انہیں کیلی گرافر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے منعقد کردہ خطاطی نمائشوں کا علم نہیں)، نیشنل کونسل آف آرٹس کے اس وقت ڈائریکٹر جنرل (نسیم طاہر) آدھی رقم کھا گئے تھے باقی آدمی رقم وفاقی محتسب کے فیصلے کے بعد ملی تھی۔
خوشنویسی کا ایک ہی گر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس​
می نویس و می نویس و می نویس​
 

arifkarim

معطل
کمال فن کا بہت خوب ذکر
واقعی " کمپیوٹر " آسانی تو پیدا کر رہا ہے مگر ان عظیم فنون کو مٹا بھی رہا ہے ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بٹ بھائی
ان فنون کو کمپیوٹر نہیں مٹا رہا، لوگ خود مٹا رہے ہیں۔ اگر لوگوں کو ان قدیم فنون کی اتنی ہی فکر یا ضرورت ہوتی تو وہ اسکو باقاعدہ اپنا ثقافتی ورثہ سمجھ کر اسکی حفاظت کرتے۔ کمپیوٹر میں اسکے لئے ایسے ٹولز اور سافٹوئیرز بناتے جنکی مدد سے اس قدیم ثقافتی ورثہ کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا سکتا۔ جیسے انتہائی جدید ڈیجیٹل کیمرے آنے کے باوجود مغرب سے نقاشی اور کلاسیکل فوٹوگرافی کا فن ناپید نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح مغربی کلاسیکل موسیقی آج بھی یہاں جوان اور عمر رسیدہ طبقے میں اتنی ہی مقبول جتنی کچھ سو سال قبل ہوا کرتی تھی۔ جدیدت کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی تاریخ کو بھولا دیا جائے!

ہم اگر دنیا کے قدم بہ قدم ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے ماضی، اپنی تاریخ کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ تیز رفتار ٹیکنالوجی کو خوش دلی سے ویلکم کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اس کا موازنہ صدیوں پرانی ”ٹیکنالوجی“ سے کرکے اس کی حسین یادوں میں ”کھو جانے“ کی۔:)
بالکل۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ماضی کا مالیخولیا ہے جو ہمیں جدید دور میں قدم رکھنے نہیں دیتا۔ اگر ماضی میں ہم بڑے پھنے خان تھے تو اس میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟ قومیں اپنے حال اور مستقبل سے پہچانی جاتی ہیں۔ اپنے ماضی سے نہیں!
 

فلک شیر

محفلین
اس کالم میں جس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اُس کے بارے میں مختصراً عرض ہے،کہ ٹیکنالوجی انسان کی جگہ لے چکی ہے....... لیکن کاروباری اور کمرشل امور میں.........لیکن یہ بھی ایک لازوال حقیقت ہے، کہ ذہن انسانی میں کوندتا خیال اور انسانی حسیات سے بصورتِ جمال گری اُس کا اظہار مشین کے بس کی بات نہیں........کبھی بھی نہیں......
کون کہتا ہے، کہ کمپیوٹر دُھن کمپوز نہیں کر سکتا.......اور روبوٹ طے شدہ patternsپہ مختلف امور سرانجام نہیں دے سکتے....مگر کیا یہ انسانی ذہن سے مقابلہ کر سکتا ہے، جسے وجدان اور خیال سے رزق ملتا ہے.......
امید ہے، کسی نہ کسی شکل اور سطح پہ یہ فن شریف پذیرائی پاتا رہے گا..........ہر چیز میں ttheory of evolution سےinspire ہونے کی ضرورت نہیں.........:)
انسانی ہاتھ کے اس میدان میں کمالات یہاں دیکھیے...........اور فطرت سے قربت کا کچھ لمحات کو شرف پائیے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
کون کہتا ہے، کہ کمپیوٹر دُھن کمپوز نہیں کر سکتا.......اور روبوٹ طے شدہ patternsپہ مختلف امور سرانجام نہیں دے سکتے....مگر کیا یہ انسانی ذہن سے مقابلہ کر سکتا ہے، جسے وجدان اور خیال سے رزق ملتا ہے.......

یہی تو بکھیڑا ہے، مشین کسی صورت بھی وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتی جوانسانی ذہن کی پرواز کے ثمرات، ان فن پاروں کی صورت میں خود اس کے ہاتھوں کو استعمال میں لا کر تخلیق کئے جا سکتے ہیں۔
 

فلک شیر

محفلین
یہی تو بکھیڑا ہے، مشین کسی صورت بھی وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتی جوانسانی ذہن کی پرواز کے ثمرات، ان فن پاروں کی صورت میں خود اس کے ہاتھوں کو استعمال میں لا کر تخلیق کئے جا سکتے ہیں۔
اور یہی راہ صواب بھی ہے اصغر صاحب!
اور یہ جو احباب ’’اسلامی ثقافتی ورثہ‘‘کے نام سے کد اور چڑ رکھتے ہیں..............اُن کا کوئی علاج نہیں ہے ..........بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’موتو بغیظکم‘‘.........
 

مغزل

محفلین
اچھا اظہاریہ ہے بحیثیت فنکار میں اپنے رائے محفوظ رکھتاہوں کہ لڑی اکھاڑہ بن جاتی ہے۔۔۔ :p:)
بادی النظر میں ایک شعر یاد آگیا۔۔:)

ہاتھ بیکار کر دیے میرے
اے ترقی تجھے زوال آئے
(لیاقت علی عاصم)
 
بالکل درست بات کہی گئی ہے۔۔۔اقبال کے شعر میں معمولی سی ترمیم کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ:
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ محبت کو کچل دیتے ہیں آلات
 
Top