حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اشرف ہیرا جیسے ذہین، باہمت جوان کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے جوانوں کوپیروں کا استاد بنانے کا درس غلط نہیں دیا تھا، حال ہی میں پاکستان کے بین الاقوامی شہرت کے خطاط اشرف ہیرا نے لیبیا کے شہر طرابلس میں منعقدہ عالمی خطاطی مقابلے میں 45 ممالک کے دو ہزار خطاطوں کے ساتھ ایک زبردست مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پاکستان کا نام ایک بار پھر بلند کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اشرف ہیرا وہ ہونہار پاکستانی خطاط ہے جس نے 2003ءسے پاکستانی خطاطی کا ڈنکا دنیائے اسلام میں بجایا اور ترکی میں خطاطی کے ایک بہت بڑے عالمی مقابلے میں حصہ لے کر پہلا انعام حاصل کیا۔
اسلامی فنونِ لطیفہ میں خطاطی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور مسلم آرکٹیکٹچر(
فن تعمیر) میں خطاطی کے ذریعہ عمارات کی خوبصورتی میں اضافے کا آغاز بھی مسلمانوں نے ہی کیا تھا۔ شاہی مسجد میں دوسرے فنون کی خوبصورتی ہے۔ خوبصورت گل بوٹوں اور حسین رنگوں کے استعمال سے جلال و جمال کا حسین امتزاج پیدا کیا گیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بہت کم ایسی عمارتیں وجود میں آتی رہیں جو اسلامی فن تعمیر کے زمرے میں شمار کی جا سکیں۔ لاہور کا ایوان اقبال اس لحاظ سے اسلامی فن تعمیر کا ایک عمدہ نمونہ ہے جہاں چھت پر اور دیواروں پر علامہ اقبال کے خوبصورت اشعار بہت خوبصورت انداز میں لکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی خطاط اشرف ہیرا نے
لیبیا سے واپسی پر بتایا اس وقت تک میں دنیا کا واحد خطاط ہوں جس کے پاس سب سے زیادہ بین الاقوامی ایوارڈ اور سرٹیفیکیٹ ہیں۔
ترکی کی انٹرنیشنل (عالمی) خطاطی کے مقابلہ میں بالترتیب 2003 ,2007 اور 2010 میں جیت چکا ہوں اور اب 2013ءمیں بھی نئے مقابلے کا اعلان ہو چکا ہے جس کے لئے خطاطی کے نمونے بھیجنے کی آخری تاریخ 5 مارچ ہے۔
سعودی عرب سے دو مرتبہ عالمی مقابلہ جیتا،
چین سے تین مرتبہ،
مصر اور
ایران سے دو دو مرتبہ اور
دبئی، الجیریا، اردن، جاپان اور قطر میں منعقدہ مقابلوں میں ایک ایک بار فتح حاصل کی ہے۔ میں جس ملک میں بھی مقابلے میں شریک ہوتا ہوں تو جب مقابلہ جیت لیتا ہوں تو خطاطوں کی اکثریت کا خیال ہوتا ہے کہ پاکستان میں خطاطی سکھانے کے بہت سے ادارے ہیں جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں خطاطی کی تربیت دینے کے لئے ایک بھی سرکاری ادارہ موجود نہیں ہے(نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں خورشید عالم گوہر قلم خطاطی کی تعلیم دیتے ہیں) بلکہ خطاطی کو فروغ دینا تو دور کی بات ہے فن خطاطی کو تو کسی لیول(
سطح) پر بھی نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ آج بھی پاکستانی طلبہ خوشخط لکھ سکتے ہیں اگر انہیں قلم دوات کی عادت ڈال دی جائے۔ بال پوائنٹ سے تو لکھائی خراب ہوتی ہے اسی لئے لطیفہ مشہور ہے کہ ڈاکٹری نسخہ کو دوا کے علاوہ سب ہی دوسری جگہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ لکھے موسیٰ اور پڑھے خدا ۔
حکومت کو بھی سرکاری سطح پر خطاطی کے عالمی مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے، صرف ایک بار ہوا تھا لاہور ٹولنٹن مارکیٹ میں(کالم نگار سے متفق نہیں ہوں کہ انہیں کیلی گرافر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے منعقد کردہ خطاطی نمائشوں کا علم نہیں)، نیشنل کونسل آف آرٹس کے اس وقت ڈائریکٹر جنرل (نسیم طاہر) آدھی رقم کھا گئے تھے باقی آدمی رقم وفاقی محتسب کے فیصلے کے بعد ملی تھی۔
خوشنویسی کا ایک ہی گر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس