کیا کیا دکھ دل نے پائے
ننھی سی خوشی کے بدلے
ہاں کون سے غم نہ کھائے
تھوڑی سی ہنسی کے بدلے
زخموں کا کون شمار کرے
یادوں کا کیسے حصار کرے
اور جینا پھر سے عذاب کرے
اس وقت کا کون حساب کرے
وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا !
ایک دوست کے نام
لڑکی
یہ لمحے بادل ہیں
گزر گئے تو ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے
ان کی لمس کو پیتی جا
قطرہ قطرہ بھیگتی جا
بھیگی جا جب تک ان میں نم ہے
اور تیری اندر کی مٹی پیاس ہے
مجھ سے پوچھ
کہ بارش کو واپس آنے کا رستہ کبھی یاد نہ ہوا
بال سوُکھانے کے موسم اَن پڑھ ہوتے ہیں !