پروین شاکر کیا کیا دکھ دل نے پائے(پروین شاکر)

فر حان

محفلین
کیا کیا دکھ دل نے پائے

کیا کیا دکھ دل نے پائے
ننھی سی خوشی کے بدلے
ہاں کون سے غم نہ کھائے
تھوڑی سی ہنسی کے بدلے
زخموں کا کون شمار کرے
یادوں کا کیسے حصار کرے
اور جینا پھر سے عذاب کرے
اس وقت کا کون حساب کرے
وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا !

پروین شاکر​
 

فر حان

محفلین
کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی(پروین شاکر)

کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی

کمالِ ضبط کو میں خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی

اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی

سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی

پروین شاکر​
 

فر حان

محفلین
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی(پروین شاکر)

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی

عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

کانپ اُٹھتی ہوں یہی سوچ کہ تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی

جس طرح خواب میرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی

میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس اُمید پہ دروازے سے جھانکے کوئی

کوئی آہٹ، کوئی آواز، کوئی چاپ نہیں
دِل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی

پروین شاکر​
 

فر حان

محفلین
اتنے اچھے موسم میں (پروین شاکر)

اتنے اچھے موسم میں

اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں !!!

پروین شاکر
 

فر حان

محفلین
ایک دوست کے نام

ایک دوست کے نام

ایک دوست کے نام
لڑکی
یہ لمحے بادل ہیں
گزر گئے تو ہاتھ کبھی نہیں آئیں گے
ان کی لمس کو پیتی جا
قطرہ قطرہ بھیگتی جا
بھیگی جا جب تک ان میں نم ہے
اور تیری اندر کی مٹی پیاس ہے
مجھ سے پوچھ
کہ بارش کو واپس آنے کا رستہ کبھی یاد نہ ہوا
بال سوُکھانے کے موسم اَن پڑھ ہوتے ہیں !

پروین شاکر
 

Dilkash

محفلین
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی





میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی

پروین شاکر​




بہت خوب

اب کہ ہم بچھڑے تو شائد کبھی خوابوں میں ملے
جس ط۔رح سوکھے ہوئے پھ۔۔۔ول کتابوں میں ملے
 
Top