علی فاروقی
محفلین
کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا
اِک رشتہ ءِ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طو قِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا
اِک رشتہ ءِ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا