کیا گلہ کروں اس زندگی سے۔۔۔۔۔

جنوری 2014 کی ایک یخ دھندلائی ہوئی رات ہوتی ہے...سخت سردی میں ٹھٹھرا ہوا زمانے سے ناراض ایک غیرروایتی کردار کھیوہ اڈہ پے گاڑی کی ڈگی سے ایک کالے رنگ کا پولیتھین بیگ نکالتا ہے،ڈرائیور سیٹ کے نیچے ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولتا ہے،تھوڑی تگ و دو کے بعد سیٹ کے نیچے چپکا ہوا کچھ اتارتا ہے...

کھیوہ

ایک بوڑھا گاؤں ہے جسے شمال سے گزرتا دریا اور جنوب سے بہتی نہر،لہلہاتے کھیت،پیاز اور تربوز کی فصل،ڈھیر سارے سرویئر اور بیرون ملک مقیم کهیلوالیے اردگرد کے دیہات میں نمایاں کرتے ہیں...

کھیوہ اڈہ

ویسے تو یہ گردونواح کے دیہات اور شہر کو گاؤں سے جوڑنے کا کام کرتا ہے مگر اسی جگہ پر گاؤں کے لڑکے بالوں کو "مرد" بنانے کا فریضہ پرانے ،گھینٹ اور جہاندیدہ،ہاتھوں پے تمباکو مسلتے "دانشور" ادا کرتے ہیں یہ مختلف النواع سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے،جس میں سیاست،معاشرت مذہب،آتی جاتی عورتوں اور مردوں کے شجرہ اور زیرزمین مصروفیات پر بحث اور معلومات کے تبادلے سے لیکر کھل،کھاد اور دوسری روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی تجارت بھی کی جاتی ہے-یہ جنہیں گھر سے دوسری بار سالن مانگنےپرشدید انکار ہوتا،ان کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے،غرضیکہ اس اڈے پے ایک جہاں آباد ہے-

غیر روائتی کردار

اپنی اصل عمر کے بارے میں تو شاید اسے خود بھی پتا نہ ہو کیونکہ گاؤں کے اکثر والدین کے لیے صرف بچوں کی تعداد قابل توجہ ہوتی ہے اب بھلا تاریخ پیدائش یاد رکھنے کی صعوبت کون اٹھاے،دیکھنے میں بڑا تنومند،سرخ و سپید کلین شیو چہرہ،چوڑی پیشانی،نکلتا ہوا قد،چوڑا سینہ بوسکی کا ایک جدید ڈیزائنر سوٹ،اس پے ایک برانڈ لانگ کوٹ زیب تن کیے ہوئے ہے-چہرے مہرے سے فارغ بالی اور لاابالی پن چھلک رہا ہے-گاڑی کو روک کر انجن بند کردیتا ہے...ایک ہاتھ جس میں کالے رنگ کا پولیتھین بیگ ہے اسے کھول کر اس کے اندر موجود سامان کا اطمینان کرتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں موجود سیاہ رنگ کی کسی ٹھوس چیز کو اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ کر اپاؤں کی ٹھوکر سے گاڑی کے دروازے کو بند کر دیتا ہے...رات کے دس بج چکے ہیں،غیر روایتی کردار کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں،آہستہ آہستہ چلتے ہوے اڈے کے چوک جسے میلاد چوک کا نام جانے کس نے دیا،میں آ جاتا ہے اور منہ کو مغرب کی طرف جاتی سڑک کی طرف کر کے ایک ٹھنڈی اہ بھرتا ہے...پھر آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور زور سے پکارنے کے انداز میں گویا ہوتا ہے
"ربا تو میرے نال انج نہ کر،کیوں اوہ سامنے اس ڈیرے کول صبح بھائی سرور دی گڈی دے انتظار وچ کھلون آلی نوں میں بھل گیا،کیوں تو میرے دل اچ فر جین دی خواہش پائی،کیوں اک کٹھور محبوب میرے مقدر اچ لکھیا،کیوں تو اے نواں عذاب من دے چھڈیا،ربا میں اس عشق دا ہور بھار نیں چک سکدا...ربا ہیلپ می تو گیٹ آوٹ آف آل دس میس ،پلیز،پلیز .." وہ روتا ہے-
اس کی آواز اسکی سسکیوں میں دبنے لگتی ہے،پھر اسے من ہلکا محسوس ہونے لگتا ہے... جیب سے ایک خوشبودار ٹشو نکال کر آنسوؤں کو خشک کرتا ہے،پھر مارلبورو ریڈ کا سگریٹ سلگا کر بڑا سا کش لیکر دھویں کو فضا میں اس احساس کے ساتھ بکھیر دیتا ہے جیسے اسکے سارے درد،محرومیاں دھویں کی نظر ہو گئے ہوں...

رات کچھ دس سے اوپر ہے وہ دکانوں پر نظر ڈالتا ہے ،اسوقت تک ساری دوکانیں بند ہو چکی ہیں حالانکہ اڈے کا آخری "دانشور"بھی اپنا آج کا "دانشی کوٹہ" پورا کر کے اچھے مستقبل کے خواب دیکھنے میں مشغول ہے، صرف ایک سنوکر کلب میں موجود کچھ کھلاڑی اپنے "ہنر کو مزید"نکھارنے میں منہمک ہیں...اس پولیتھین بیگ میں ہمارے مشھور "دانشور" حسن نثار کے پسندیدہ انگریزی مشروب کی کچھ شیشیاں ہیں،وہ آگے بڑھتا ہے سنوکر کلب میں اسے کچھ جانی پہچانی آوازیں سنائی دیتی ہیں ،دروازے پے رک آواز دیتا ہے ..

"مانی! میری گل سنیں.."
وہ جس کا نام مانی ہے وہ مسکراتا ہوا باہر آتا ہے،کھیل کچھ دیر کو رک جاتا ہے ،مانی آتے ہی اس سے یوں بغل گیر ہوتا ہے جیسے پچھلے جنم کے بچھڑے کوئی ہمدم ہوں...
مانی "بھائی!کدے آج ؟"

وہ "نہ یار کجھ نیں ...انجے ای " وہ آنسو چھپاتا ہے ...
پھر وہ اسے وہ بیگ تھما کر کہتا ہے یہ رکھ لو ...
مانی خاموشی سے بیگ تھام لیتا ہے اور کنکھیوں سے اسے دیکھتا ہے جیسے اس کے چہرے سے کچھ ڈھونڈھ رہا ہو...پھر کوٹ کی اندرونی جیب سے وہ سیاہ رنگ کی ٹھوس چیز بھی اسے تھما دیتا ہے ...
مانی واپس جاتے جاتے مڑ کر پوچھتا ہے "بھائی !خیر ...؟؟"
وہ اسے کہتا ہے "مجھے اب ہوش کھونے کے لیے ان دوائیوں کی ضرورت نہیں...مجھے عشق ہو گیا ہے یار..."

مانی زیر لب مسکراتا ہے اور لمبی عمر کی دعا دیتا ہوا بیگ سمیت سنوکر کلب میں گھس جاتا ہے...

وہ واپس گاڑی کے پاس آتا ہے ..اسکا آی فون بجتا ہے ...ماں کا نمبر دیکھ کہ فون کان سے لگا لیتا ہے...ماں کو جلدی گھر واپسی بتا کر فون سے ایک دوسرا نمبر ڈائل کرتا ہے،بیل جاتی ہے مگر کوئی فون نہیں اٹھاتا،پھر،پھر،پھر،وہ یکے بعد دیگرے کئی بار نمر ڈائل کرتا ہے ،سوکھ چکے آنسو پھر سے اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں تیرنے لگتے ہیں...وہ آہستہ سے بڑبڑاتا ہے "توں میری جان کڈ کے ای انسان بننا ایں "
شدید دکھ اور رنج اسے گھیر لیتا ہے،فون کا جواب نہ دینے والی کی شکل اسکی آنکھوں میں تیر رہی آہی ...کافی دیر درد سے کھیلنے اور سوچنے کے بعد وہ گاڑی سے یوں باہر نکلتا ہے جیسے کسی حتمی نتیجے پے پہنچ گیا ہو ...
اپنے پرانے جوتے اتار کر ایک دن پہلےخریدے گئے نئے جوگر پہنتا ہے اور گاڑی کو لاک کر کے نہر کی طرف چل پڑتا ہے ...
دھند پانی بن کر کیکر کے درختوں سے گر رہی ہے رات اسکے دکھوں کے بوجھ سے بوجھل اور اس کی زندگی کی طرح تاریک ہے...تیز تیز چلتے وہ نہر کے پل پر پہنچ جاتا ہے-
اس نہر نے کئی سالوں سے انسانی جان کی نہیں لی،وہ سوچتا ہے- آگے بڑھ کر پیراپٹ وال پے چڑھ جاتا ہے...جھک کر بہتے ہوے پانی کو دیکھتا ہے اسی دوران اس کا آئ فون ایک جانی پہچانی ٹون بجاتا ہے یہ وہی ٹون ہے جو اسنے کچھ ماہ قبل ایک خاص نمبر پے لگائی تھی جسے سننے کو وہ ترسا کرتا تھا اور جس کی آواز اسکے لیے ھمیشہ سے زندگی کا پیغام رہی تھی...وہ جیب سے فون نکال کر انتہائی سرعت سے کال اٹینڈ کرتا ہے...لب پے کوئی شکوہ نہیں ،آواز میں بلا کی لجاجت اور خوشامد آ جاتی ہے...کانوں میں رس گھول کر فون کرنی والی فون بند کردیتی ہے ...
اب وہ خوش ہے...نیچے اتر کر کچھ سوچتا ہے اور فون کی میوزک لائبریری سے "میں رنگ شربتوں کا تو میٹھے گھاٹ کا پانی " ریپیٹ پے لگا کر ہینڈ فری کانوں میں اڑس لیتا ہے ...

رات کے گیارہ بجے ہیں اسکا منہ شہر کی طرف ہے ،چل رہا ہے،اچھے مستقبل کے تانے بانے بنتا،پچھلے کچھ مہینوں میں دیکھے خوابوں کو مستقبل کے دھاگے میں پروتا وہ ست سرا پے پہنچ جاتا ہے ...یھاں سے اسکا منہ ایک مانوس سڑک کی طرف ہو جاتا ہے ،یہ سڑک بھی اسے جانتی ہے وہ اس سڑک پے وہ بےشمار دفع گیا ہے اور آج پھر...

خواب،بہتر مسقبل،کسی کی سنگ جینے کی حسرت

انہی سوچوں میں ڈوبا وہ اس گاؤں میں داخل ہوتا ہے جس کی بیشتر گلیوں سے وہ واقف ہے،وہ زور زور سے اس گاؤں کی فضا میں سانس لیتا ہے جیسے اس فضا سے کچھ کشید کر رہا ہو،اس پے وجد کی کیفیت ہے -اس کی سانسیں اس فضا میں شامل ہیں وہ سوچتا ہے....شاید یہی اسکی منزل تھی...پو پھٹ رہی ہے اسکا آئ فون بجتا ہے یہ وٹس ایپ کی رنگ ٹون ہے...کھولتا ہے دیکھتا ہے ....

02/01/14 5:42:49 قبل دوپہر: !Devi: Mrng
 

نایاب

لائبریرین
کیا آپ کی مراد سامراج کے خلاف بولنے والے اشتراکیت اور سوشلزم کے علمبرداروں سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
بہت دعائیں
اگر تو یہی مراد ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک سچا سرخا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیض احمد فیض
انقلاب کا داعی اور اردو کی ترقی پسند سوچ میں ایک نئی جان پھونکنے والا الفاظوں کا سچا مسیحا فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو خالق حقیقی سے جاملا۔مگر اس کے سچے لفظ اس کی حیات دائمی کی دلیل بن کر آج بھی اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ حقیقت بھری بدقسمتی بھی اپنی جگہ کہ فیض کو کبھی سرخے کا لقب ملا تو کبھی دہریہ کبھی ملامتی صوفی اور کبھی اسیر سچ کہلایا ۔
 
Top