حسینی
محفلین
۔
حسن رضا چنگیزی
۔
الله تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم میں کوئی خرابی نہیں، اگر ہے بھی تو ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کرتے اس لئے انہیں دور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہم اپنی غلطیوں کا بھی کبھی اعتراف نہیں کرتے لہٰذا انہیں بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ بونگیاں مارنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم میں کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو لیکن لاف زنی میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ہم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے لیکن دور کی کوڑی لانے میں ہمارا کوئی جواب نہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ہم کسی اندھے کنویں کے گرد مسلسل ایک ہی دائرے میں گھومتے جارہے ہیں لیکن تصور یہ کرتے ہیں کہ ہم ہی قافلے کے سالار ہیں۔
ہم نے اپنے کان بھی بند کر رکھے ہیں، ایسے میں اگر ہمیں کوئی آواز سنائی بھی دے رہی ہے تو وہ ہمارے ہی گلے میں بندھی گھنٹی کی ہے۔ ہم اس گھمنڈ میں گرفتار ہیں کہ اللہ کا ہم پر خاص کرم ہے۔ ہم نے اس خیال کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے کہ ہم اللہ کے خاص بندے ہیں جن سے وہ دنیا کی امامت کا کام لینے والا ہے۔ یہی سوچ کر ہم نے از خود دنیا جہان کے سرخاب کے پر اپنے بدن پر سجالئے ہیں اوراپنے لئے ایسے شاندار القاب کا انتخاب کر رکھا ہے جن کے مفہوم سے بھی ہم نا آشنا ہیں!
دنیا میں تقریباَ 197 خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ملکوں کی تعداد 57 ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں مغربی افریقی ملک الجمهورية الإسلامية الموريتانية، جمہوری اسلامی ایران اور جمہوری اسلامی افغانستان کے علاوہ پاکستان ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک کی اکثریت اسلامی کے بجائے عرب ریاستیں یا جمہوریائیں کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہے۔ ان 57 اسلامی ملکوں میں بھی صرف پاکستان ہی کو “مملکت خداداد” یعنی خدا کی عطا کردہ مملکت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر کہ بنگالیوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے بہت سارے خون خرابے کے بعد اس مملکت خداداد سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے آپ کو خدا کی رحمتوں سے محروم کر دیا؟
یا پھر بلوچوں کی ایک بڑی تعداد اس مقدس سرزمین کی برکات سے فیضیاب ہونے پر کیوں راضی نہیں؟
یہ سوالات بھی جواب کے متقاضی ہیں کہ اس سرزمین پر آئے دن ہزارہ بچّوں، بوڑھوں، عورتوں اور مزدوروں کا قتل عام کیوں ہوتا ہے؟ اس مملکت خداداد میں شیعیوں کے لئے کوئی جائے پناہ کیوں نہیں؟ یہاں احمدیوں اور عیسائیوں کو جان کے لالے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور ہندو اپنی عزت و آبرو بچانے کی خاطرملک چھوڑنے پرکیوں مجبور ہیں؟
ہم بڑے فخر سے پاکستان کو ‘اسلام کا قلعہ’ کہتے ہیں۔ گرچہ یہ واضح نہیں کہ ایک ایسے ملک کو اسلام کے قلعے کا خطاب کس نے، کیوں اور کب دیا؟
- جہاں ہر دوسرا شخص اس لئے کافر ہے کیوں کہ اس کے مخالف فرقے نے اس پر کفر کا فتویٰ صادر کر رکھا ہے۔
- جہاں ایک دوسرے کو جہنمی قرار دینے کی خاطر بڑی باقاعدگی سے فتووں کا جمعہ بازار لگتا ہے۔
- جہاں اسلام کے نام پر بڑی بے دردی سے مخالفین کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔
- جہاں مساجد، امام بارگاہیں، مزارات اور جنازے تک مسلمان خود کش بمباروں سے محفوظ نہیں۔
- جہاں اللہ و اکبرکا نعرہ لگا کر بچوں اور عورتوں تک کو ٹکڑوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔
- جہاں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ جہاں قبروں سے مردوں کی ہڈیاں نکال کر بیچی جاتی ہیں ۔
- جہاں کتے بلیوں سمیت تمام مردار اور مردہ جانوروں کا گوشت بڑی بے شرمی سے فروخت ہوتا ہے۔ جہاں مردار جانوروں کے دانتوں سے انسانی دانت بنوائے جاتے ہیں اور ان کی چربی سے گھی بنا کر فروخت کیا جاتا ہے۔
- جہاں کھاد، کیمیکل اور بال صفا پاؤڈر کی آمیزش سے بچّوں کا دودھ تیار ہوتا ہے اور جہاں چاک، آٹے، چینی یا نلکے کے پانی سے جان بچانے والی مصنوعی ادویات بنائی جاتی ہیں۔
ہم ایک ایسے ملک کو اسلام کا قلعہ کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جس کا شمار دنیا کے چالیس کرپٹ ترین ملکوں میں ہوتا ہے؟
- جہاں جعلی ڈگری والے اور بدعنوان سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک اورعوام کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔
- جہاں ملازمین کے پینشن کے اربوں روپیوں کو شیر مادر سمجھ کر نوش جان کیا جاتا ہے۔
- جہاں مفتیان کرام اسلامی بینکاری اور مضاربہ کے نام پر فتوے فروخت کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے اربوں روپے ہڑپ کر لیتے ہیں۔
- جہاں ہر دوسرے قدم پر کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
- جہاں لاکھوں بچّے، بوڑھے اور جوان راتوں کو فٹ پاتھوں پر سونے کے لئے مجبور ہیں۔ جہاں مائیں اپنے بھوکے بچّوں کی خاطر خیرات یا امداد حاصل کرنے کی کوشش میں پیروں تلے کچلی جاتی ہیں۔
- جہاں کے دفتروں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جہاں قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کی دھجیاں اڑا نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
- جہاں چوکیدار چوروں کے ساتھ مل کر گھروں میں نقب لگاتے ہیں۔ جہاں امیر اپنے کتوں کو بھی درآمد شدہ خوراک کھلاتے ہیں لیکن جہاں غریبوں کے بچّے کچروں کے ڈھیر پر اپنی روزی تلاش کرنے پر مجبور ہیں؟
ہمیں اس بات پر بھی بہت ناز ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن ہم اس بات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے 120 ممالک میں کئے گئے سروے کے مطابق ہمارا پاکستان شرح خواندگی میں 113 ویں نمبر پر ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچوں کو مناسب خوراک تک دستیاب نہیں۔
ہم اپنی عوام کو ضرورت بھر بجلی بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک کے متعدد کارخانے بند ہونے کے قریب ہیں۔ ہم تو ڈینگی مچھر اور کانگو وائرس تک کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہو نے کی وجہ سے غریب ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمران اور امراء علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بچوں میں اموات کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 25 ویں نمبر پرجبکہ جنوبی ایشیاء میں سر فہرست ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک کی تقریباَ نصف آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ 22 فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسر نہیں۔
بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں عوام اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے ہوتا ہے۔
امن و امان کی صورت حال ایسی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ بم دھماکے، خودکش حملے، اور ٹارگٹ کلنگ کی بدولت آئے روز بے شمار لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان حتیٰ کہ کراچی جیسے شہر میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی۔
دہشت گرد پاکستان بھر میں ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں جبکہ ریاست ان کی منتیں کرنے پر مجبور ہے۔ ان دہشت گردوں کو نہ تو پاکستان کی پیشہ ورافواج کا کوئی ڈرہے نہ ہی سول انتظامیہ کا۔ انہیں اگر خوف ہے تو صرف امریکی ڈرونز کا جنہیں ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھے کچھ گنتی کے لوگ ایسے کنٹرول کررہے ہوتے ہیں جیسے فرصت کے اوقات میں بچّےویڈیو گیم کھیلتے ہیں۔
ہمارے حکمران ملک میں جاری بدامنی کو بیرونی قوتوں کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن وہ ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیرونی قوتوں کی بدمعاشیوں کو لگام نہیں دےسکتے توایسے ایٹمی پروگرام پر عوام کے خون پسینے کی کمائی خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
اب تو ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم کسی کو اپنی ایٹمی صلاحیت سے مرعوب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہے۔ اس کے برعکس ہم ساری دنیا کو یہ اطمینان دلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت دہشت گردوں کی پہنچ سے دور اور مکمل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
ہماری ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لئے تنقید بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ کوئی ہماری خامیوں کی نشاندہی کرے تو ہم جھٹ سے اس پر غداروطن اوراسلام دشمن ہونےکا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
دوسروں کے معاملات سدھارنے کا ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے جبکہ اپنے معاملات دوسروں کے سپرد کر دئے ہیں۔ اس میدان میں ہمارے سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ووٹ کے حصول اور پارلیمنٹ تک رسائی کے لئے وہ ہر اس ہتھکنڈے کا استعمال کرتے ہیں جو ان کے گرد بھیڑ قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
ملک کو مشکلات سے نکالنے کی خاطر عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے بجائے ہمارے یہ راہنما بِھیڑ کے پیچھے پیچھےچلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قوم کو ان کی منزل تک پہنچاکر دم لیں گے۔
اگر ہمیں واقعی ایک باوقار قوم بننا ہے تو ہمیں اپنی غلطیاں سدھارنی ہونگی، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، تنقید کو تحمّل کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا اور منافقت ترک کرنی ہو گی ورنہ صرف بڑھکیں مارنے اور شیخیاں بگھارنے سے کام نہیں چلے گا۔
http://urdu.dawn.com/2013/11/07/ham-murda-qaum-hain-riza-cha
حسن رضا چنگیزی
۔
الله تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم میں کوئی خرابی نہیں، اگر ہے بھی تو ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کرتے اس لئے انہیں دور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہم اپنی غلطیوں کا بھی کبھی اعتراف نہیں کرتے لہٰذا انہیں بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ بونگیاں مارنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم میں کچھ اچھا کرنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو لیکن لاف زنی میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ہم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے لیکن دور کی کوڑی لانے میں ہمارا کوئی جواب نہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ ہم کسی اندھے کنویں کے گرد مسلسل ایک ہی دائرے میں گھومتے جارہے ہیں لیکن تصور یہ کرتے ہیں کہ ہم ہی قافلے کے سالار ہیں۔
ہم نے اپنے کان بھی بند کر رکھے ہیں، ایسے میں اگر ہمیں کوئی آواز سنائی بھی دے رہی ہے تو وہ ہمارے ہی گلے میں بندھی گھنٹی کی ہے۔ ہم اس گھمنڈ میں گرفتار ہیں کہ اللہ کا ہم پر خاص کرم ہے۔ ہم نے اس خیال کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا ہے کہ ہم اللہ کے خاص بندے ہیں جن سے وہ دنیا کی امامت کا کام لینے والا ہے۔ یہی سوچ کر ہم نے از خود دنیا جہان کے سرخاب کے پر اپنے بدن پر سجالئے ہیں اوراپنے لئے ایسے شاندار القاب کا انتخاب کر رکھا ہے جن کے مفہوم سے بھی ہم نا آشنا ہیں!
دنیا میں تقریباَ 197 خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ملکوں کی تعداد 57 ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں مغربی افریقی ملک الجمهورية الإسلامية الموريتانية، جمہوری اسلامی ایران اور جمہوری اسلامی افغانستان کے علاوہ پاکستان ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب ممالک کی اکثریت اسلامی کے بجائے عرب ریاستیں یا جمہوریائیں کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہے۔ ان 57 اسلامی ملکوں میں بھی صرف پاکستان ہی کو “مملکت خداداد” یعنی خدا کی عطا کردہ مملکت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر کہ بنگالیوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے بہت سارے خون خرابے کے بعد اس مملکت خداداد سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے آپ کو خدا کی رحمتوں سے محروم کر دیا؟
یا پھر بلوچوں کی ایک بڑی تعداد اس مقدس سرزمین کی برکات سے فیضیاب ہونے پر کیوں راضی نہیں؟
یہ سوالات بھی جواب کے متقاضی ہیں کہ اس سرزمین پر آئے دن ہزارہ بچّوں، بوڑھوں، عورتوں اور مزدوروں کا قتل عام کیوں ہوتا ہے؟ اس مملکت خداداد میں شیعیوں کے لئے کوئی جائے پناہ کیوں نہیں؟ یہاں احمدیوں اور عیسائیوں کو جان کے لالے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور ہندو اپنی عزت و آبرو بچانے کی خاطرملک چھوڑنے پرکیوں مجبور ہیں؟
ہم بڑے فخر سے پاکستان کو ‘اسلام کا قلعہ’ کہتے ہیں۔ گرچہ یہ واضح نہیں کہ ایک ایسے ملک کو اسلام کے قلعے کا خطاب کس نے، کیوں اور کب دیا؟
- جہاں ہر دوسرا شخص اس لئے کافر ہے کیوں کہ اس کے مخالف فرقے نے اس پر کفر کا فتویٰ صادر کر رکھا ہے۔
- جہاں ایک دوسرے کو جہنمی قرار دینے کی خاطر بڑی باقاعدگی سے فتووں کا جمعہ بازار لگتا ہے۔
- جہاں اسلام کے نام پر بڑی بے دردی سے مخالفین کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔
- جہاں مساجد، امام بارگاہیں، مزارات اور جنازے تک مسلمان خود کش بمباروں سے محفوظ نہیں۔
- جہاں اللہ و اکبرکا نعرہ لگا کر بچوں اور عورتوں تک کو ٹکڑوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔
- جہاں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں۔ جہاں قبروں سے مردوں کی ہڈیاں نکال کر بیچی جاتی ہیں ۔
- جہاں کتے بلیوں سمیت تمام مردار اور مردہ جانوروں کا گوشت بڑی بے شرمی سے فروخت ہوتا ہے۔ جہاں مردار جانوروں کے دانتوں سے انسانی دانت بنوائے جاتے ہیں اور ان کی چربی سے گھی بنا کر فروخت کیا جاتا ہے۔
- جہاں کھاد، کیمیکل اور بال صفا پاؤڈر کی آمیزش سے بچّوں کا دودھ تیار ہوتا ہے اور جہاں چاک، آٹے، چینی یا نلکے کے پانی سے جان بچانے والی مصنوعی ادویات بنائی جاتی ہیں۔
ہم ایک ایسے ملک کو اسلام کا قلعہ کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جس کا شمار دنیا کے چالیس کرپٹ ترین ملکوں میں ہوتا ہے؟
- جہاں جعلی ڈگری والے اور بدعنوان سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ کر ملک اورعوام کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔
- جہاں ملازمین کے پینشن کے اربوں روپیوں کو شیر مادر سمجھ کر نوش جان کیا جاتا ہے۔
- جہاں مفتیان کرام اسلامی بینکاری اور مضاربہ کے نام پر فتوے فروخت کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے اربوں روپے ہڑپ کر لیتے ہیں۔
- جہاں ہر دوسرے قدم پر کوئی بھکاری ہاتھ پھیلائے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
- جہاں لاکھوں بچّے، بوڑھے اور جوان راتوں کو فٹ پاتھوں پر سونے کے لئے مجبور ہیں۔ جہاں مائیں اپنے بھوکے بچّوں کی خاطر خیرات یا امداد حاصل کرنے کی کوشش میں پیروں تلے کچلی جاتی ہیں۔
- جہاں کے دفتروں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جہاں قانون کے رکھوالے خود ہی قانون کی دھجیاں اڑا نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
- جہاں چوکیدار چوروں کے ساتھ مل کر گھروں میں نقب لگاتے ہیں۔ جہاں امیر اپنے کتوں کو بھی درآمد شدہ خوراک کھلاتے ہیں لیکن جہاں غریبوں کے بچّے کچروں کے ڈھیر پر اپنی روزی تلاش کرنے پر مجبور ہیں؟
ہمیں اس بات پر بھی بہت ناز ہے کہ ہمارا ملک پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے لیکن ہم اس بات کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے 120 ممالک میں کئے گئے سروے کے مطابق ہمارا پاکستان شرح خواندگی میں 113 ویں نمبر پر ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے 31 فیصد بچوں کو مناسب خوراک تک دستیاب نہیں۔
ہم اپنی عوام کو ضرورت بھر بجلی بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ملک کے متعدد کارخانے بند ہونے کے قریب ہیں۔ ہم تو ڈینگی مچھر اور کانگو وائرس تک کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہو نے کی وجہ سے غریب ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمران اور امراء علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
بچوں میں اموات کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 25 ویں نمبر پرجبکہ جنوبی ایشیاء میں سر فہرست ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک کی تقریباَ نصف آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے جبکہ 22 فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسر نہیں۔
بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقوں میں عوام اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے ہوتا ہے۔
امن و امان کی صورت حال ایسی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ بم دھماکے، خودکش حملے، اور ٹارگٹ کلنگ کی بدولت آئے روز بے شمار لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان حتیٰ کہ کراچی جیسے شہر میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی۔
دہشت گرد پاکستان بھر میں ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے پھر رہے ہیں جبکہ ریاست ان کی منتیں کرنے پر مجبور ہے۔ ان دہشت گردوں کو نہ تو پاکستان کی پیشہ ورافواج کا کوئی ڈرہے نہ ہی سول انتظامیہ کا۔ انہیں اگر خوف ہے تو صرف امریکی ڈرونز کا جنہیں ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھے کچھ گنتی کے لوگ ایسے کنٹرول کررہے ہوتے ہیں جیسے فرصت کے اوقات میں بچّےویڈیو گیم کھیلتے ہیں۔
ہمارے حکمران ملک میں جاری بدامنی کو بیرونی قوتوں کی سازش قرار دیتے ہیں لیکن وہ ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہیں کہ اگر ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی بیرونی قوتوں کی بدمعاشیوں کو لگام نہیں دےسکتے توایسے ایٹمی پروگرام پر عوام کے خون پسینے کی کمائی خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
اب تو ہماری یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم کسی کو اپنی ایٹمی صلاحیت سے مرعوب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں رہے۔ اس کے برعکس ہم ساری دنیا کو یہ اطمینان دلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت دہشت گردوں کی پہنچ سے دور اور مکمل محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
ہماری ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اس لئے تنقید بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ کوئی ہماری خامیوں کی نشاندہی کرے تو ہم جھٹ سے اس پر غداروطن اوراسلام دشمن ہونےکا فتویٰ لگادیتے ہیں۔
دوسروں کے معاملات سدھارنے کا ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے جبکہ اپنے معاملات دوسروں کے سپرد کر دئے ہیں۔ اس میدان میں ہمارے سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ووٹ کے حصول اور پارلیمنٹ تک رسائی کے لئے وہ ہر اس ہتھکنڈے کا استعمال کرتے ہیں جو ان کے گرد بھیڑ قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔
ملک کو مشکلات سے نکالنے کی خاطر عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے بجائے ہمارے یہ راہنما بِھیڑ کے پیچھے پیچھےچلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قوم کو ان کی منزل تک پہنچاکر دم لیں گے۔
اگر ہمیں واقعی ایک باوقار قوم بننا ہے تو ہمیں اپنی غلطیاں سدھارنی ہونگی، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، تنقید کو تحمّل کے ساتھ برداشت کرنا ہوگا اور منافقت ترک کرنی ہو گی ورنہ صرف بڑھکیں مارنے اور شیخیاں بگھارنے سے کام نہیں چلے گا۔
http://urdu.dawn.com/2013/11/07/ham-murda-qaum-hain-riza-cha