چودھری مصطفی
محفلین
شادی شدہ جن کو میں اکثر شادی زدہ خواتین بھی کہتا ہوں؛ کا پیار ان کا خاوند ہوتا ہے۔ جیسے اللہ نے ہو انسان کو اچھوتا تخلیق کیا ہے، بعینہ ہر شادی زدہ خاتون کا پیار بھی یکتا ہے۔ چونکہ ہم تمام خواتین کو نہیں جانتے لہذا سب کے مسائل سے بھی واقف نہیں، لیکن جو ہماری نظر میں آئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
بیوی الف : ان کو ماں، باپ اور بھائیوں نے بہت توجہ دی۔ ظالم زمانے سے محفوظ رکھنے کی فکر ہر وقت والدین کو رہتی تھی- ماں نے کبھی گھر کا کام بھی کرنے نہیں دیا کہ نجانے سسرال کیسا ہوگا، کم از کم شادی سے پہلے تو ان جھنجھٹ ویں میں نہ پڑے۔ بھائی گھر کے دروازے سے کالج کے دروازے تک چھوڑنے جاتے اور چھٹی سے آدھ گھنٹہ پہلے گیٹ پہ انتظار کرتے۔ خانہ آبادی کا وقت آیا تو بے شمار امیدواروں کو پرکھا گیا۔ کسی کا گھر چھوٹا، کسی کی ماں سخت مزاج، کسی کی پانچ بہنیں، کسی کی کار پرانی!! ماں چاہتی تھی کہ ساس کے طعنے اور نندوں کی سیاست سے بیٹی کا پالا نہ پڑے۔ آخر کار ایک ایسا لڑکا مل ہی گیا، خوب کماؤ پوت، دیارِ غیر میں اکیلا رہتا، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ مگر مسئلہ یہ کہ مجازی خدا کے جتنے بال تصویر میں نظر آتے تھے اس سے آدھے بھی نہیں۔ شادی کے تین ماہ کے اندر ہی توند قمیص پھاڑ کے باہر نکلنے کو ہے۔ پتا چلا کہ موصوف پہلے بھی ایسے ہی تھے، باب بیاہ کے چکر میں کچھ وزن کم کیا تھا۔ رنگ لٹھے کی سلیٹی چادر جیسا اور آنکھوں کے گرد حلقے! یہ سوچتی ہیں کہ کیا یہی پیار ہے؟
بیوی ب: کالج میں تھیں کہ ایک خوبرو، دراز قد، خوش گفتار نوجوان کی ان پہ نظر پڑی اور وہ دل و جان نثار کرنے لگا۔ انہوں نے خاصا پیچھا چھڑانا چاہا مگر وہ اخلاص کا یقین دلاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہے تو ہمارے گھر والوں سے بات کرو۔ رشتہ آیا، والدین کو پسند نہ تھا کیونکہ نہ تو موصوف کا خاندان ہم پلہ تھا اور نہ لڑکے میں ہی گورے رنگ کے علاوہ کوئی خوبی نظر آتی تھی، مگر ان کے اصرار پہ رشتہ ہوگیا۔ چند سال تو خوب گزرے، اللہ نے دو پیارے سے بچے بھی دیے۔ لیکن شوہر شریف اب تک کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ عام نوکری ان کی شان سے مطابق نہیں۔ ایک دو جگہ پہ جہاں سسر نے اثر و رسوخ سے رکھو آیا تھا، نکال دیے گئے۔ طرہ یہ کہ خاتون کا زیور بھی کسی کاروبار کے چکر میں بیچ کر کھا گئے ہیں۔ وہ خود ہی نوکری کرتی ہیں اور ان کا بھیُ خرچہ چلاتی ہیں۔ آج کل خاوند شریف گھر سے بھی بلا وجہ باہر رہتے ہیں، فون کعب سنبھال کر رکھتے ہیں، اورُ اچانک رات کوُ فون اٹھا کر باہر نکل جاتے ہیں۔ بیوی کو یقین ہو چلا ہے کہ کسی ناہنجار کے دام میں پھنس چکے ہیں۔ وہ بھی سوالات کرتی ہیں کیا یہی پیار ہے؟
بیوی الف : ان کو ماں، باپ اور بھائیوں نے بہت توجہ دی۔ ظالم زمانے سے محفوظ رکھنے کی فکر ہر وقت والدین کو رہتی تھی- ماں نے کبھی گھر کا کام بھی کرنے نہیں دیا کہ نجانے سسرال کیسا ہوگا، کم از کم شادی سے پہلے تو ان جھنجھٹ ویں میں نہ پڑے۔ بھائی گھر کے دروازے سے کالج کے دروازے تک چھوڑنے جاتے اور چھٹی سے آدھ گھنٹہ پہلے گیٹ پہ انتظار کرتے۔ خانہ آبادی کا وقت آیا تو بے شمار امیدواروں کو پرکھا گیا۔ کسی کا گھر چھوٹا، کسی کی ماں سخت مزاج، کسی کی پانچ بہنیں، کسی کی کار پرانی!! ماں چاہتی تھی کہ ساس کے طعنے اور نندوں کی سیاست سے بیٹی کا پالا نہ پڑے۔ آخر کار ایک ایسا لڑکا مل ہی گیا، خوب کماؤ پوت، دیارِ غیر میں اکیلا رہتا، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ مگر مسئلہ یہ کہ مجازی خدا کے جتنے بال تصویر میں نظر آتے تھے اس سے آدھے بھی نہیں۔ شادی کے تین ماہ کے اندر ہی توند قمیص پھاڑ کے باہر نکلنے کو ہے۔ پتا چلا کہ موصوف پہلے بھی ایسے ہی تھے، باب بیاہ کے چکر میں کچھ وزن کم کیا تھا۔ رنگ لٹھے کی سلیٹی چادر جیسا اور آنکھوں کے گرد حلقے! یہ سوچتی ہیں کہ کیا یہی پیار ہے؟
بیوی ب: کالج میں تھیں کہ ایک خوبرو، دراز قد، خوش گفتار نوجوان کی ان پہ نظر پڑی اور وہ دل و جان نثار کرنے لگا۔ انہوں نے خاصا پیچھا چھڑانا چاہا مگر وہ اخلاص کا یقین دلاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہے تو ہمارے گھر والوں سے بات کرو۔ رشتہ آیا، والدین کو پسند نہ تھا کیونکہ نہ تو موصوف کا خاندان ہم پلہ تھا اور نہ لڑکے میں ہی گورے رنگ کے علاوہ کوئی خوبی نظر آتی تھی، مگر ان کے اصرار پہ رشتہ ہوگیا۔ چند سال تو خوب گزرے، اللہ نے دو پیارے سے بچے بھی دیے۔ لیکن شوہر شریف اب تک کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ عام نوکری ان کی شان سے مطابق نہیں۔ ایک دو جگہ پہ جہاں سسر نے اثر و رسوخ سے رکھو آیا تھا، نکال دیے گئے۔ طرہ یہ کہ خاتون کا زیور بھی کسی کاروبار کے چکر میں بیچ کر کھا گئے ہیں۔ وہ خود ہی نوکری کرتی ہیں اور ان کا بھیُ خرچہ چلاتی ہیں۔ آج کل خاوند شریف گھر سے بھی بلا وجہ باہر رہتے ہیں، فون کعب سنبھال کر رکھتے ہیں، اورُ اچانک رات کوُ فون اٹھا کر باہر نکل جاتے ہیں۔ بیوی کو یقین ہو چلا ہے کہ کسی ناہنجار کے دام میں پھنس چکے ہیں۔ وہ بھی سوالات کرتی ہیں کیا یہی پیار ہے؟