کیا یہ بحر ہے؟

ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
غزل لکھ لو، بحر ہم بنا دینگے۔ :cool:
یا کوئی غزل یا شعر اس بحر میں کہیں پڑھا ہے تو بتاؤ۔
ہا ہا ہا ہا وہی تو، دہ شعر موزوں کر بیٹھا تب ہی پوچھا نا، ویسے سُر بھی خوب اسکا

خیال اُس کا جواں تھا۔ میں تھا​
لہو بھی تیز رواں تھا، میں تھا​
تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا​
وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا​
 
بلکہ غزل ہی لیجیے جناب

خیال اُس کا جواں تھا۔ میں تھا​
لہو بھی تیز رواں تھا، میں تھا​
تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا​
وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا​
بدل سکا نہ کبھی خود کو میں​
میں جیسا تیسا، جہاں تھا، میں تھا​
گلوں کے بیچ کھڑا وہ جانم​
بہار کا وہ سماں تھا، میں تھا​
سرور کیسے نہ ہوتا اظہر​
لبوں سے اُس کے بیاں تھا، میں تھا​
 
اسے بحر اظہر ہی کہہ لو۔ :D
”مفاعلن فاعلاتن فعلن“ تو بنتا تھا۔
مگر یہ ”مفاعلن فعِلاتن فعلن“ ہے۔ اس وزن کی اس طرح اجازت نہیں۔ ”فاع لاتن“ کی اجازت ہے مگر ”فعلاتن“ کی اجازت نہیں۔ مزید عروضی اساتذہ کو ٹیگ کر دیتا ہوں شاید بات بن جائے۔ باقی مقرر کردہ ارکان پر تجرباتی غزل خوب ہے میری رائے میں۔
فاتح
محمد یعقوب آسی
محمد وارث
 
خیال اُس کا جواں تھا۔ میں تھا​
مفاعلاتن مفاعلاتن
لہو بھی تیز رواں تھا، میں تھا

یہ اس میں نہیں آ رہا




تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا

مفاعلاتن مفاعلاتن

وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا

مفاعلاتن مفاعلاتن

بدل سکا نہ کبھی خود کو میں

یہ اس میں نہیں آ رہا

میں جیسا تیسا، جہاں تھا، میں تھا

مفاعلاتن مفاعلاتن


گلوں کے بیچ کھڑا وہ جانم

یہ اس میں نہیں آ رہا

بہار کا وہ سماں تھا، میں تھا

مفاعلاتن مفاعلاتن


سرور کیسے نہ ہوتا اظہر

مفاعلاتن مفاعلاتن

لبوں سے اُس کے بیاں تھا، میں تھا

مفاعلاتن مفاعلاتن

بہت آداب۔
 
محمد اظہر نذیر صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب۔
میرے حساب میں تو یہ بحر مرغوب مربع ہے۔
ایک مصرعے میں ’’مفاعلاتن‘‘ دو بار۔

ایک دو مصرعوں کے سوا باقی سب اس بحر میں پورے اتر رہے ہیں۔
ایسے ٹھیک ہو جاتی گویا


خیال اُس کا جواں تھا۔ میں تھا​
لہو کا سیل رواں تھا، میں تھا​
تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا​
وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا​
بدل سکا میں کبھی نہ خود کو​
میں جیسا تیسا، جہاں تھا، میں تھا​
گلوں میں گُل کی طرح کھڑا وہ​
بہار کا وہ سماں تھا، میں تھا​
سرور کیسے نہ ہوتا اظہر​
لبوں سے اُس کے بیاں تھا، میں تھا​
 
محمد اظہر نذیر صاحب، مزمل شیخ بسمل صاحب۔
میرے حساب میں تو یہ بحر مرغوب مربع ہے۔
ایک مصرعے میں ’’مفاعلاتن‘‘ دو بار۔

ایک دو مصرعوں کے سوا باقی سب اس بحر میں پورے اتر رہے ہیں۔

یعنی ہماری والی رجز مخبون مرفل ہوئی۔ اگر شاعر کو اعتراض نہ ہو تو ضرور۔
اب یہ تو شاعر کی صواب دید پر ہے کہ اسے ”مفاعلن فعلاتن فعلن“ والا آہنگ چاہئے یا مفاعلاتن والا۔
 
ایسے ٹھیک ہو جاتی گویا


خیال اُس کا جواں تھا۔ میں تھا​
لہو کا سیل رواں تھا، میں تھا​
تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا​
وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا​
بدل سکا میں کبھی نہ خود کو​
میں جیسا تیسا، جہاں تھا، میں تھا​
گلوں میں گُل کی طرح کھڑا وہ​
بہار کا وہ سماں تھا، میں تھا​
سرور کیسے نہ ہوتا اظہر​
لبوں سے اُس کے بیاں تھا، میں تھا​

جی اسی آہنگ میں زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
تو اب اس کی اصلاح کی جائے؟؟؟
ویسے صرف دو اشعار میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔​
تلاش اُس کی عبث تھی، کرتا​
وجود اُس کا کہاں تھا، میں تھا​
پہلا مصرع کی الفاظ کی نشست درست نہیں، اور دوسرے میں ردیف درست نہیں بیٹھ رہی۔​
سرور کیسے نہ ہوتا اظہر​
لبوں سے اُس کے بیاں تھا، میں تھا​
اس میں بھی ردیف کا استعمال؟​
 
Top