شاہد شاہنواز بھائی مجھے کہنا پڑے گا کہ آپ گمراہ ہیں۔ کیونکہ اس تعریف پر آپ اپنا قول کسی سے بھی نہیں منوا سکتے۔ نہ کوئی استاد مانے گا، نہ کوئی عروضی، اور نہ ہی کوئی اور۔ اس دن
اسد قریشی صاحب کی جس غزل کے قوافی کو درست کہا اسے میں نے دلائل سے ثابت بھی کیا اور استاد شاعر کا کلام بھی بطور دلیل پیش کیا۔ اس کے بعد رد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ مگر آپ کی جو تعریفِ قافیہ ہے وہ یقیناً درست نہیں۔ اب آپ اوپر میری قافیہ میں دی گئی اجازتیں دیکھیں اور پھر غالب کا درجِ ذیل کلام دیکھیں؛
1:
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
2:
دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا
عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا
3:
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا
فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا
ثابت ہوا کہ غالب اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔
اب میر کو دیکھیں:
4:
کیا طرح ہے آشنا گاہے، گہے ناآشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے، ہو جیے یا آشنا
پائمالِ صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا
کون سے یہ بحرِ خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میری موجِ دریا آشنا
رونا ہی آتا ہے ہم کو دل ہوا جب سے جدا
جائے رونے ہی کی ہے جاوے جب ایسا آشنا
بلبلیں رو رو کہ یوں کہتی تھیں ہوتا کاش کے
یک مژہ رنگِ فراری اس چمن کا آشنا
5:
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا
اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کفِ رنگیں کا مارا نہ ہوا ہو گا
ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا
بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہو گا
ہے قائدۂ کلی یہ کوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا
دیکھیں میر بھی آپ کے ساتھ نہیں۔ اب حسرت کو دیکھیں:
6:
توڑ کر عہدِ کرم نا آشنا ہو جائيے
بندہ پرور جائيے اچھا خفا ہو جائيے
ميرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کيجے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائے
خاطر محرام کو کر ديجئے محوِ الم
درپئے ايذائے جانِ مبتلا ہو جائيے
راہ ميں ملئے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ کاٹ کر فورا جدا ہو جائيے
گر نگاہِ شوق کو محوِ تماشا ديکھئے
قہر کی نظروں سے مصروفِ سزا ہو جائيے
ميری تحريرِ ندامت کا نہ ديجئے کچھ جواب
ديکھ ليجئے اور تفاغل آشنا ہو جائيے
لیجئے حسرت موہانی بھی آپ کے ساتھ نہیں۔ اب کیا کرینگے آپ؟
تینوں شعراء خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ تینوں میں سے ہر ایک نے ایسے قوافی استعمال کرے۔ بلکہ حسرت موہانی (رئیس المتغزلین) نے تو اس قافیہ کو اتنا استعمال کیا کہ غزلیات گنتے گنتے تھک جائیں آپ۔ تو حضور بنے بنائے اصول کو مت توڑیں۔ یہ زیادتی ہے۔