اسلامعلیکم
محمد تابش صدیقی بھائی اور
محمد یعقوب آسی بھائی میں نے بھی بہت ڈونڈھا مگر نہ کامی رہی کہیں پہ تو یہ شعرایسے ہی لکھا ہوا تھا ۔ اور کہیں شعرکے نیچے محسن نقوی کا نام لکھا ہوا تھا۔البتہ ایک مراسلہ ملا ہے ۔ (اردو ٹائمز نیوز میں لکھا ہوا تھا)
Submitted by admin on Mon, 01/16/2012 - 21:16
کراچی: دل کو چھو جانے والی شاعری کے تخلیق کار محسن نقوی کو اس دنیا سے روٹھے 15 برس بیت گئے لیکن شعر و ادب سے رغبت رکھنے والوں کے لیے وہ آج بھی اپنی شاعری کی شکل میں زندہ ہیں۔اردو غزل کو ہر عصر کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے۔ محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا۔ محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ محسن نقوی کو 1994ء میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔15 جنوری 1996 کو محسن نقوی مون مارکیٹ میں اپنے دفتر کے باہر دہشتگردی کا نشانہ بنے۔
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب ہے محسن
میں جس شخص کو چھو لوں، وہ میرا نہیں رہتا
اب والعالم یہ حقیقت ہے یا کیا ۔اگر یہ سچ ہے تو پھر ہو سکتا ہے یہ ان کا کوئی مکتہ ہو ۔
ایک یہ شعر بھی ملا تھا کچھ ملتا جلتا
(Ikram) karachi
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب ہے اے دوست
میں نے جس کو چاہا وہ میرا نہیں رہا