کیا یہ نظم کہلا سکتی ہے اور کیا یہ بحر میں ہے- اصلاح کا طالب ہوں

وہ مجھ سے الگ نہیں رہتا
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

اُلجھا وہ کام کاج میں ہے
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

کان پڑنے پہ جو لگے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو تمہیں بلانے کو ہی نہیں ہے
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

دم گھٹا جا رھا اگر ہو تو
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

مرض جس سے بڑھے اگر یارو
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

دل ہی جسے ملا تونگر
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

پتھر کا جو بنا ہوا اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ غزل ہے۔

کئی مصرعے بحر میں ہیں کئی بے بحرے، خصوصاً دوسرے مصرعے بحر میں ہیں لیکن سارے کے سارے پھر چیک کریں، اسکا وزن ہے

فاعلاتن مفاعلن فعلن

فا ع لا تن 2 1 2 2
م فا ع لن 1 2 1 2
فع لن 2 2

فاعلاتن کی جگہ فعلاتن یعنی 1 1 2 2 بھی آ سکتا ہے اور فعلن کی جگہ فعلان 2 2 1 بھی۔

اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

ا سِ کو پھر - فعلاتن 1 1 2 2
ک ہو ج دا - مفاعلن 1 2 1 2
تم لوگ - فعلان 2 2 1
 

وہ مجھ سے الگ نہیں رہتا
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

اُلجھا وہ کام کاج میں ہے
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

گھبرا سا رہا ہو دل جس میں
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

نہیں جب مرض دوا کے بس میں تو
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

جس کو دل ملا تونگر ہو
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

جو سنگ سے بنا ہوا اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ

محترم اُستاد وارث صاحب،
یہ جو چار سطریں لکنے کے قابل ہوا ہوں اس میں ایک بڑا حصہ صریر خامہء وارث کا ہے
اگر وضاحت کر سکیں کہ یہ غزل کیوں ہے تو نوازش ہو گی
اب ملاحظہ کیجیے تو جناب
دعا گو
اظہر​
 

مغزل

محفلین
کیوں کہ غزل کی ہیت میں لکھی گئی ہے ، ہر شعر الگ الگ مضمون رکھتا ہے ، اسی لیے غزل ہے ، نظم کے سارے اشعار آپس میں ربط رکھتے ہیں، ۔
نظم اپنا مزاج رکھتی ہے اور اس کی ہیت بھی قدرے مختلف ہوتی ہے ہرچند کہ پابند ہی کیوں نہ ہو۔
 
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
جو ہے زندہ، فنا کہو تم لوگ

وہ مجھ سے الگ نہیں رہتا
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

اُلجھا وہ کام کاج میں ہے
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

گھبرا سا رہا ہو دل جس میں
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

نہیں جب مرض دوا کے بس میں تو
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

جس کو دل ملا تونگر ہو
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

جو سنگ سے بنا ہوا اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ

اُستاد گرامی،
مطلع لکھنے کی کوشش کی ہے ذرا دیکھیے تو اب
والسلام
اظہر
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے غزل بغیر مطلعے کے بھی ہو سکتی ہے!

یہ تمام مصرعے خارج از بحر ہیں، پھر کہیئے

وہ مجھ سے الگ نہیں رہتا

اُلجھا وہ کام کاج میں ہے

گھبرا سا رہا ہو دل جس میں

نہیں جب مرض دوا کے بس میں تو

جس کو دل ملا تونگر ہو

جو سنگ سے بنا ہوا اظہر
 
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
جو ہے زندہ، فنا کہو تم لوگ

جو رھا ھی نہیں الگ مجھ سے
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

یوں ہی الجھا ہوا کام میں ہے
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

جو گھٹا جا رھا ھو دم باھر
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

جو مرا مرض ہی دوا سے بڑھے
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

غنی دل کا مگن مرے جیسا
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

جو بنا سنگ سے ترے اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ

اُستاد گرامی،
ذرا دیکھیے تو اب، معزرت ابھی تل بحرِ خفیف بھی قابو نہیں آ سکی
والسلام
اظہر​
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ مصرعے ابھی بھی بے بحر ہیں:

یوں ہی الجھا ہوا کام میں ہے (کام غلط بندھ گیا)

جو مرا مرض ہی دوا سے بڑھے (مرض کا صحیح تلفظ مَرَض ہے، آپ اسے غَلَط باندھ رہے ہیں)

غنی دل کا مگن مرے جیسا (غنی عربی کا لفظ ہے اور میرے خیال میں اس کی یے گرانا احسن نہیں ہے)
 
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
جو ہے زندہ، فنا کہو تم لوگ

جو رھا ھی نہیں الگ مجھ سے
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

یوں ہی مصروف ہے بہت وہ تو
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

جو گھٹا جا رھا ھو دم باھر
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

بڑھ رہا ہے جو دردِ جاں میرا
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

دل غنی ہے اگر تونگر ہے
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

جو بنا سنگ سے ترے اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ


شاید اب صحیح ہو؟
آستادِ محترم
 

محمد وارث

لائبریرین
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
جو ہے زندہ، فنا کہو تم لوگ

زندہ کے ساتھ مردہ آتا ہے عموماً، اور فنا کے ساتھ بقا، یوں دیکھیں

صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
کیوں بقا کو فنا کہو تم لوگ؟

یہ اگر میرا شعر ہوتا تو میں اس کا مطلب زیر و زبر کر دیتا :)

صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
کیوں فنا کو بقا کہو تم لوگ؟

لیکن شاید ایسے آپ کے مطلب کا نہ ہو :)
 

محمد وارث

لائبریرین
جو رھا ھی نہیں الگ مجھ سے
اُسے کیوں پھر جدا کہو تم لوگ

مطلب واضح ہے لیکن پہلا مصرع رواں نہیں، کچھ اور سوچیں جیسے

میری ہر سانس میں جو ہے موجود
اُسے کیوں پھر جدا کہو تم لوگ؟

وغیرہ وغیرہ
 
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
کیوں بقا کو فنا کہو تم لوگ؟

میری ہر سانس میں جو چلتا ہے
اُسے کیوں پھر کہو جدا تم لوگ

یوں ہی مصروف ہے بہت وہ تو
اُسے کیوں پھر کہو خفا تم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر کہو صدا تم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر کہو ندا تم لوگ

جو گھٹا جا رھا ھو دم باھر
اُسے کیوں پھر کہو فضا تم لوگ

بڑھ رہا ہے جو دردِ جاں میرا
اُسے کیوں پھر کہو شفا تم لوگ

دل غنی ہے اگر تونگر ہے
اُسے کیوں پھر کہو گدا تم لوگ

جو بنا سنگ سے ارے اظہر
اُسے کیوں پھر کہو خدا تم لوگ
 

محمد وارث

لائبریرین
بھائی میرے اس غزل کی ردیف صحیح کرو، مطلع میں یہ 'کہو تم لوگ' ہے اور بقیہ اشعار میں 'تم لوگ' صرف، اور تم سے پہلے قافیہ ہے۔

مطلعے والی زیادہ رواں لگ رہی ہے۔
 
Top