کیرتھر پارک کی پراسرار دنیا اور اس میں موجود آثارِ قدیمہ۔ آصف رضا موریو۔

سندھ کی جغرافی میں کیرتھر جگہ۔
سندھ کو جغرافیائی طور پر تین قدرتی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ پہلا حصہ اس کے مشرق میں واقع تھر کا علاقہ ہے جسے ریگستان یا واریاسو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سارا علاقہ ریتیلا ہے جس کی خوشحال زندگی اور گہماگہمی کا بڑی حد تک انحصارموسمی برساتوں پر ہے ۔ نارا کینال کھولے جانے کے بعد اس علاقے کا کچھ نہری حصہ زراعت کے قابل بھی ہوا ہے ۔
ایک زمانے میں دریائے سندھ کی کئی اہم شاخیں جیسے ہاکڑو اور واھندہ وغیرہ یہاں سے گزرتی تھیں جن کے بہاؤ کے نشانات سانپ کی لکیر کی طرح آج بھی اس خشک علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں ، جبکہ ان میں سے پورن ندی ابھی تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ضلع تھرپارکر کے مغربی حصے کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔
سندھ کا دوسرا قدرتی حصہ کشمور سے شروع ہوکر بحیرہء عرب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کی چوڑائی دریائے سندھ کے دونوں کناروں سے طرفیں دس سے پچیس میل تک ہے یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے اور بغیر کھاد وغیرہ کے سال میں دو فصلیں اگانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
سندھ کا تیسرا حصہ مغرب میں کوہستان کا پہاڑی علاقہ ہے جو بلوچستان کے شہروں قلات، خضدار اور لسبیلہ سے سندھ کو جدا کرتے ہوئے پاکستان کے ان دونوں صوبوں کے درمیان ایک قدرتی سرحدی لکیر کھینچ دیتا ہے ۔ اس حصے کی تعریف یوں بھی کی جا سکتی ہے کہ کوٹڑی ، سیوھن اور لاڑکانہ کے مغرب طرف پہاڑوں کاایک سلسلہ ہے جس کی شاخوں کے الگ الگ نام ہیں جیسے کہ ککریو، کارو، ڈاڑھیاڑو وغیرہ ۔ ان میں سے ڈاڑھیاڑو سب سے اونچا پہاڑ ہے جس کی بلندی چھ ہزار فٹ ہے ۔ اسی کی سطح پر کتے کی قبر اور پرانے کوٹ( جنہیں کافر کوٹ کہا جاتا ہے )بھی موجودہیں۔ یہی پہاڑی سلسلہ کیر تھر کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو کوہِ سلیمان کے جابلو سلسلے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے مقامی لوگ ہالار جبل بھی کہتے ہیں۔ اس کوہستانی سلسلے کا رخ شمال سے جنوب کی طرف ہے جو پاکستان کو افغانستان سے جدا کرتا ہوا سندھ کی سرحد پر 28متوازی کو چھوتا ہوا 26 مماثل کے نزدیک پب پہاڑوں میں ضم ہوجاتا ہے جو بحیرہء روم تک پھیلے ہوئے ہیں۔
کائنات کی ابتدا پر سائنسی نقطہء نظر اور علمی آنکھ سے دیکھنے والے سائنسی عالموں کا خیال ہے کہ جب سمندر اپنے بازو سمیٹ کر دھرتی کو جنم دے رہا تھا اس وقت بریصغیر کا جو حصہ سب سے پہلے رونما ہوا وہ یہی کیرتھر اور کارونجھر کے پہاڑی سلسلے تھے۔

کیرتھر نام کے متعلق دیومالائی کہانی۔
کیرتھر کے کوہستانی علاقے میں بہنے والے جھرنوں اور ندیوں کی مدھر آوازوں میں صدیوں کے سنگیت بسے ہوئے ہیں۔ جہاں بے شمار تاریخی و تہذیبی روایتیں ،صحرائی و پہاڑی ثقافتیں، قبائلی جنگوں اور جھگڑوں کی طویل تاریخی اور رزمیہ داستانیں پہاڑی درو ں اور تنگ منہہ والے غاروں کی دیواروں سے لپٹی ہوئی چمگاڈروں کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔ انہی میں سے ایک قصہ کیرتھر کے متعلق اس طرح ہے کہ گزرے وقتوں میں کبھی اس کوہستانی سلسلے میں رہنے بسنے والے لوگوں پر ایک خاندان حکومت کرتا تھا۔ ان کے حکمران کے دوبیٹے تھے جن کے نام کیرتھر اور کانبھو خان تھے۔ کیر تھر بڑا اور کانبھو چھوٹا تھا جبکہ بیرن (بارن) انکی اکلوتی بہن تھی۔ ہنسی خوشی زندگی گزارنے والے اس خاندان میں کیرتھر کے باپ کے مرنے کے بعد قبیلے کی سرداری اور جائداد کے بٹوارے کی لالچ پر دنگا فساد شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔ لڑائی کے دوران چھوٹے بھائی کانبھو نے تلوار کے ایک وار سے بڑے بھائی کیر تھر کا ایک بازو کاٹ دیاتھا۔ جہاں وہ بازو کٹ کر گرا تھا س جگہ کا نام ابھی تک ’’واڈھڑو ‘‘ہے جس کا سندھی زبان میں مطلب ہے ’’کٹا ہوا‘‘ ۔ کیرتھر نے بھی جواب میں بندوق کے فائر سے کانبھو کو زخمی کر دیا تھا۔ یہاں ایک پہاڑی میں سوراخ ہے جس کا نام تنگی واری (یعنی سوراخ والی) ہے جو بندوق کا (کانبھو کو)فائر لگنے سے ہوا تھا۔ جب لڑائی گھمسان کی صورت اختیار کرگئی اور کسی طرح ضابطے میں آتی دکھائی نہیں دی تو بھائیوں کے درمیاں مصالحانہ کردار ادا کرنے کے لئے ان کی بہن بیرن نے بیچ بچاؤ کیا اور جنگ ختم کرواکے صلح کروادی۔
اب وہ بیرن ندی کی صورت میں کیر تھر اور کانبھو نامی ان پہاڑی سلسلوں کے درمیاں بہتی ہوئی تھانہ بولا خان کی طرف سفر کرتی ہے۔ جہاں سے مشرق طرف مڑ کر آخر میں کوٹڑی سے چار میل نیچے جاکر اپنا آپ دریائے سندھ کوسونپ دیتی ہے ۔ اس ندی کی کل لمبائی نوے میل ہے۔ کوہستان کے مقامی باشندوں کا عقیدہ ہے کہ کیرتھر کا وہ سارا خاندان کسی نامعلوم وجہہ سے بے حس ہوکر کوہستان کے پہاڑوں ، چشموں ، ٹکریوں اور ندیوں وغیرہ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔

کیرتھر اور اس کی دنیائیں ۔
کیرتھرکا علاقہ چونے کے پتھر، ریت اور میدانی علاقوں پر مشتمل ہے، جس کا پچاس فیصد حصہ تہہ نشین پاٹ دار ٹیلوں پرمشتمل ہے۔ تیس فیصد علاقہ میدانی ہے جس کا 1.3 فیصد حصہ (تقریباً 650 کلومیٹر) قابلِ زراعت ہے اور بیس فیصد دریائی کھاد یا سیلابی مٹی سے اٹا ہوا ہے۔ آب و ہوا کے لحاظ سے یہ پہاڑ گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں بے انتہا سرد ہوتے ہیں۔ ان کی اونچائی مختلف علاقوں میں الگ الگ ہے اس کی چار اونچائیاں اہم ہیں جن میں سب سے اونچی چوٹی کتے کی قبر سطح سمندر سے 6878 فٹ بلند ہے۔ دوسری چوٹی بارغ ، تیسری گورغ (گورکھ) اور چوتھی سندھ کے مشہور پہاڑڈاڑھیاڑ و کی چو ٹی ہے جو تقریباً چھ ہزار فٹ بلند کیرتھر کی مشرقی شاخ ہے ۔ جبکہ کیرتھر سلسلے کا سب سے اونچا برج میانگن ہے ۔
کیرتھر کے شمال میں دریاڑو کا مشہور سطحِ مرتفع واقع ہے جس کی اونچائی والے میدان قابلِ زراعت ہیں ۔ پہلا میدانی حصہ ڈھار (ڈھارو) ہے جو سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس کی مٹی سرخی مائل اور تقریباً ایک ہزار ایکڑ زمین قابلِ زراعت ہے ۔ دوسرا حصہ ساڑھے چار ہزار فٹ بلند دانا برج کا میدانی علاقہ ہے۔ کیرتھر رینج میں ہزاروں پہاڑی درے ہیں مگر ان میں اہم مولھ، بولان اور مشکوٹ ہیں جہاں سے برساتی نالے اور ندیاں بہتی ہیں ۔

کیر تھر پارک کا محلِ وقوع۔
پاکستان کے دس قومی پارکوں میں سے ایک اور سندھ کا واحد قومی پارک کیرتھر اسی پہاڑی سلسلے کے گیارہ سو بیانوے کلومیٹر (۷۳۳، 308 ہیکٹر) پر پھیلا ہو اہے۔ صوبہ سندھ کے جنوب مشرق میں لیٹیٹیوڈ 25.10 N اور این26.05 N. اور لانگیٹیوڈ ا27.10 F اور 67.55 F کے درمیاں واقع یہ پارک کیرتھر پہاڑی سلسلے کے جنوب مشرق اور دریائے سندھ کے مغرب میں قائم سندھ اور بلوچستان کی صوبائی سرحد ہے ۔ جو کراچی سے سپر ہاءِ وے پر81 کلومیٹر کی مسافت کے72کلومیٹر کچے کا راستہ طۂ کرکے یہ پارک آجاتا ہے جہاں مختلف جانوروں کو قدرتی ماحول میں محفوظ رکھنے کے لئے پناہ گاہیں بنائی گئیں ہیں۔

کیر تھر قومی پارک میں موجود حیات سے چھیڑ خانیاں
قومی پارک اس مخصوس اور وسیع ایراضی کو کہا جاتا ہے جہاں جنگلی حیات اور نباتات ایک سے زیادہ قدرتی ماحول میں پرورش پاسکیں۔ اس مخصوص ایراضی میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کیلئے ان کے شکار پر پابندی عائد ہوتی ہے ۔ جن جانوروں کی نسل کسی طرح کم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو اس کے چند جوڑو ں کو ان پارکوں میں نسل بڑہانے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے۔ ایسے پارکوں میں انسانی مداخلت کو زیادہ تر ممنوع قرار دیا جاتا ہے تاکہ قدرتی اور فطرتی ماحول میں کوئی ایسی تبدیلی واقع نہ ہو جو چرند و پرند و نباتات کے لئے مضر رساں ہو اور کوشش کی جاتی ہے کہ حیاتیات ، نباتات اور ارضیاتی ماحول میں علمی اور سائنسی دلچسپی کا فطری سامان برقرار رہے ۔ ساتھ ہی سیاحو ں کو تفریحی، تحقیقی اور تعلیمی مقاصد کیلئے بھیجنے کی اجازت ہوتی ہے۔
پاکستان میں جنگلی حیات کو فطری ماحول میں محفوظ رکھنے ، انکی پرورش اور حفاضت کے لئے پاکستان میں قومی پارکوں کی شروعات اور قانون سازی ۱۹۷۲ع میں ہوئی تھی۔ اس وقت پاکستان میں دس قومی پارک ہیں۔ ۱۔ کیرتھر قومی پارک۔ ۲۔ چترال گومل قومی پارک۔ ۳۔ ھزارہ گنجی قومی پارک ۔ ۴۔ مرگلا قومی پارک۔ ۵۔ درون قومی پارک۔ ۶۔ ایوبیہ قومی پارک۔ ۷۔ ہنگول قومی پارک۔ ۸۔خنجراب قومی پارک۔ ۹ ۔ چن جی قومی پارک۔ ۱۰۔ لال سونھارا قومی پارک۔ یہ تمام پارک 954۰ ملین ہیکٹر ایراضی پرپھیلے ہوئے ہیں جبکہ کیرتھر نیشنل پارک کی مخصوص ایراضی1192 مربع میل ہے۔ یہ پاکستان کا واحد پارک ہے جو اقوام متحدہ کے 1975ع کی بین الاقوامی ورثوں کی فہرست میں شامل ہے۔ محکمہء جنگلی حیات نے1974ع میں اسے قومی پارک کا درجہ دیا۔ آئی یو سی این کے قومی پارکوں کے معیار پر جنگلی حیات کیلئے مخصوص علاقو ں کی کیٹیگری دو کی حیثیت پر پورا اترتا ہے۔
انسان ، درخت، پودے اور پرندے اس دھرتی کے قدیم ترین باشندے ہیں جو صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھی اور ہمنوا رہتے آرہے ہیں ۔ جنہیں قدرت نے زندگی کے سلسلے کو دوام بخشنے کے لئے الگ الگ فرائض سونپے ہوئے ہیں جو فطرت کے اصولوں کے تحت ہی احسن طریقے سے انجام پائے جا سکتے ہیں۔ ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے یہ جنگلی حیات ا ور بذاتِ خود جنگل آج تک انسانی خوشحالی، پرورش ، معاشی اور تہذیبی ترقی کیلئے بنیادی حیثیت بنتے چلے آرہے ہیں۔ اگر یہ درخت ، پودے ، گھاس ، سبزہ اور ان کے درمیاں پرورش پانے والی حیوانی زندگی نہ ہوتی تو انسانی بقا کا سلسلہ کب کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہو چکا ہوتا۔ اور اس زمیں پر سب سے بڑی مخلوق یہ درخت اگر فطری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری دھرتی کو آکسیجن، خوبصورتی ، خوشبو، سایہ اور مدھرتا عطا نہ کرتے تو آج حضرتِ انسان کا ٹھکانہ نہ جانے کہاں ہوتا۔
ان بے زبان چرند ، پرند و نباتاتی عناصر کے مومنانہ رویے کے الٹ انسان نے ان فطری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قدرت کی طرف سے دئے گئے خوبصورت ماحول کو گندہ کرنے کے علاوہ چرند و پرند کے ساتھ نباتاتی زندگی کا جینا بھی محال کر رکھا ہے۔ اس نے فطرت کے قوانین اور قدرت کے زرین اصولوں کو برباد کرنے والی گندی قوتوں، کثافتوں اور آلودہ رحجانوں کے ساتھ اپنی دنیائیں آباد کر رکھی ہیں۔ وہ فطرت کے ارتقائی نظاموں کا احترام اسطرح نہیں کرتا جس طرح حیوانات و نباتات کرتے چلے آرہے ہیں لہٰذا انسانوں کے پیدا کئے گئے قانون فطرت کے اصولوں کے خلاف زمین و کائنات میں ایسی تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں جو بقائے حیات کے ساتھ مادی اور غیر مادی اشیا، نامیاتی و غیر نامیاتی مرکبات کے لئے خطرہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے ارتقائی ادوار سے ان درختوں اور پودوں کو گھر بنانے ، آگ جلانے، کشتیاں بنانے کے لئے کاٹتا تھا اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے شکار کرتا تھا ۔
یہ فطرت کا اصول ہے کہ ضرورت شکار سے شکار گھٹتا ہے نہ ضرورتِ استعمال سے درختوں کاسایہ یا سبزے کی چادر کم پڑتی ہے۔ مگر انسانی آبادی کے ساتھ یہ سلسلہ اس کی خود .غرضی ، سفاکی اور جہالت کے سبب ضروریات اور مجبوری سے بڑھ کر تفریحی مقصد کی سرحدیں پھلانگتا ہوا جب کاروباری مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا تو شکار بھی کم ہوتا گیا چرند و پرند کی نسلیں ختم ہوتی رہیں، سبزہ سمٹتا رہا اور سایہ بھی گھٹتا چلا گیا۔ انیسویں صدی عیسوی تک دنیا کی پچیس فیصد ایراضی پر جنگلات تھے مگر آج وہ ایراضی گھٹ کر چار فیصد رہ گئی ہے یعنی 1.7 ملین ہیکٹر سے بھی کم۔
کیرتھر پارک کی جنگلی حیات اور نباتات کے ساتھ انسانی آبادی کی چھیڑخانی کا سلسلہ بہت قدیم ہے۔ فطری طور پر بھی جہاں انسانی، حیوانی اور نباتاتی آبادیاں ایک ہی علاقے میں رہتی بستی ہوں وہاں ان کے مفادات کے امکانات کا ٹکراؤ لازمی ہوتا ہے خاص طور پر کیرتھر ایسے غیر ترقی یافتہ علاقے میں جہاں کے زیادہ تر باشندے علاقے کی قدرتی و معدنی وسائل پر انحصار رکھتے ہوں۔ جنگلی اور انسانی زندگی کے ٹکراؤ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چھوٹے سے چھوٹے گیم ریزروائر کے نزدیک ہزاروں افراد کی آبادی ہوتی ہے۔
کیرتھر نیشنل پارک میں جنگلوں کی حالت بھی نہایت خراب ہے ایک تو علاقے میں گیس نہ ہونے کی وجہہ سے لوگ جنگلات کو انتہائی بے رحمی سے کاٹ رہے ہیں دوسرا جنگل میں صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لئے وسیع ایراضی پر درختوں کے گرے ہوئے پتے ماحول پر برے اثرات چھوڑتے ہوئے آلودگی کو بڑھاتے رہتے ہیں اور سورج کی روشنی پڑنے پر وہ کاربان ڈاءِ آکسائیڈ اور دوسری مضر رسان گیسیں خارج کرتے رہتے ہیں ۔ اس لئے بہتر ہے کہ درختوں اور پودوں کو کاٹے جانے سے روکنے کے علاوہ ان کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر اور موثر بنایا جائے کیونکہ کیرتھر ایسے پارک کے قدرتی ماحول کو فطری بنیادوں پر برقرار رکھنے میں یہ درخت اور پودے بڑے معاون ہوتے ہیں، ساتھ ہی یہ جانوروں کے لئے پناہ گاہ، رہائش ، چارہ، میوہ ، سائبان وغیرہ مہیا کرتے ہیں۔
ماہرینِ نباتات کا اندازہ ہے کہ یہاں ایک ہزار سے زیادہ اقسام کی نباتات پائی جاتی ہے سال ۲۰۰۰ کے دوراں کئے گئے ایک سروے کے دوراں پارک میں پودوں کی کچھ ایسی اقسام بھی سامنے آئیں جو نہ صرف اس خطے بلکہ علمِ نباتات کے لئے بھی نئی تھیں۔ ان میں سے چھوٹی پہاڑیوں پر اگنے والی ایک گھاسLepidagathis ایک ہے اس کے علاوہ pycnocycla اور compylanthus بھی سندھ اور پاکستان میں پودوں کی نئی نسلیں ہیں۔ پودوں کی بیشتر نسلیں ایسی بھی یہاں رکارڈ کی گئیں جو اس سے پہلے سندھ میں نہیں پائی جاتی تھیں مثال کے طور پر Celtis, Australis, Pistacia, Chinesis ، Canyons وغیرہ ۔ ماہرین تباتات کا خیال ہے کہ یہ خطہ قدرتی طور پرنباتاتی نسلوں کی افزائش کے لئے اہم نرسری کی حیثیت رکھتا ہے۔
پارک کی حدودکے اندر رہنے والی آبادی کے ایک بڑے حصے کا گزر بسر مویشی بانی پر ہے۔ یہاں پالتو جانوروں میں بھیڑو اور بکریوں کی تعداد بہت زیادہ پائی جاتی ہے جو موسم کے ساتھ انسانی آبادی کی طرح گھٹتی بڑہتی رہتی ہے۔ یہاں سب سے زیادہ آبادی بکریوں اور بھیڑوں کی ہے ۔ اس کے علاوہ پندرہ سو دوسرے پالتو جانور اور پانچ ہزار دوسری نسلیں ریکارڈ کی گئیں۔ گدھے اور اونٹ بھی یہاں کے اہم جانور ہیں۔
اس کے علاوہ پارک میں مقیم جنگلی جانوروں کی تین اہم نسلوں کی آبادی نومبر 2000 میں کچھ اسطرح تھیں۔ یہاں سب سے زیادہ آبادی پہاڑی بکرے Sindh Ibex کی ہے یعنی تقریباً 15000 ، جو زیادہ تر کھیمبر رینج میں رہتے ہیں ۔ انکی تھوڑی مقدار ڈمبر بلاک میں اور نہایت قلیل تعداد مختلف علاقوں میں بکھری ہوئی ہے ۔ اس جانور کے بارے میں کوہستان کے باشندوں کا یقیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے فرشتے ہیں کیونکہ انکے خیال میں کئی مہینوں تک بغیر کھائے پئے زندہ رہنا اور دیواروں کی طرح سپاٹ پہاڑوں ہر چڑھ جانا ایک معجزہ ہے جو صرف خدا کے پیغمبر یا فرشتے ہی کر سکتے ہیں۔
اس پارک میں دوسری سب سے بڑی آبادی سندھ کی جنگلی بھیڑ (Urial) کی ہے یعنی 12000 سے بھی زیادہ۔ یہ جانور زیادہ تر پہاڑوں کے اندر ، کھر رینج اور ڈمبر بلاک میں پایا جاتا ہے۔ تیسری بڑی آبادی ہے ایک خوبصورت ہرن چنکارہ کی تقریباً 10000ہے۔
ان تینوں جانوروں کے اپنے دوسرے ہم نوا پڑوسی نسلوں کے ساتھ مقامی یا غیر مقامی شکاریوں سے سرکاری یا خانگی طور پر کوئی تحفظ نہ ہونے کی وجہہ سے انکی مقدار سال بہ سال گھٹتی رہتی ہے۔ اگر یوں ہی انکی مسلسل نسل کشی ہوتی رہی تو یہ بھی سرھ، داڑھی والی گجھ (مردہ خور)، گدھ، کالاریچھ ، چکور اور چھوٹے چیتے کی طرح یہاں سے ناپید ہو جائیں گے جو کبھی یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔
کیرتھر نیشنل پارک کے مکیں پرندے زیادہ تر فصلوں والی زمینوں یا ریتیلے میدانوں میں رہتے ہیں جبکہ انکی ایک قلیل آبادی آبی علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔
پارک میں بڑہتی ہوئی انسانی آبادی زمین کے حد سے زیادہ زرعی استعمال، زمین کی صفائی یا جنگل کی کٹائی(زراعت و رہائش کے لئے) وغیرہ نے پارک میں بسنے والے پرندوں پر ناقابلِ یقین برے اثرات چھوڑے ہیں۔ IUCN کی پرندوں متعلق بین الاقوامی طور پر ختم ہوتی ہوئی نسلوں کے متعلق جاری کردہ ’’ریڈلسٹ‘‘پر اس پارک میں پائی جانے والی پرندوں کی پچیس نسلیں شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان سے کم ہوتی ہوئی نسلوں میں 277 ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی اقسام، 36دودھ دینے والے جانور، 34 گھسٹ کر چلنے والے ، 203پرندوں کی اقسام اور تین پانی میں پرورش پانے والی نسلیں بھی ریڈ لسٹ پر ہیں۔
حب ندی۔
یہ ندی کیر تھر پہاڑی سلسلے کے ایک بازو پب پہاڑ سے جھالاوان کے گاؤں زہری کے پاس سے ابھر کر سیدھی جنوب مشرق طرف پچیس میل بہتی ہوئی پھر پچاس میل جنوب طرف سفر کرتی ہے اور آخر میں جنوب مغر ب کی طرف ۶۵ میل کی مسافت کے بعد ۵۴۔ ۲۴ شمال لانگیٹیوڈ اور ۴۲ْ ۶۶ مشرق لیٹیٹیوڈ پر راس مونرے کے پاس اپنا آپ بحیرہ عرب کو سونپ دیتی ہے۔ سارونا، سرسوتی اور واراحب ندی کی اہم شاخیں ہیں۔ یہ ندی گہری وادیوں کے درمیاں سفر کرتی ہوئی جب درہ پھسی کے نزدیک پہنچتی ہے تو قدرے وسعت اختیار کرلیتی ہے ۔ اس میں ہمیشہ پانی پایا جاتا ہے مگر ستمبر میں بمشکل سات سے دس انچ اونچائی رہ جاتی اور کئی جگہوں پر گہرے تالاب بن جاتے ہیں۔ یونانی مورخوں نے اپنے سفرناموں میں اس کا نام’’ آرابیس‘‘ لکھا ہے۔

منگھوپیراور منگھوپیر کے چشمے۔
تونگ میں منگھو پیر کے ٹھنڈے و گرم پانی کے ایسے چشمے بھی ہیں جن میں نہانے سے جذام اور جلد کے مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں، ان چشموں پر میلے اور تہوار بھی منائے جاتے ہیں۔ منگھوپیرکا اصل نام کمال الدین تھا جبکہ کچھ کتابوں میں اسکا نام منگھ ولد محمد یوسف بھی لکھا گیا ہے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے ہم عصر اس صوفی بزرگ کا مزار کراچی سے دس کلومیٹر دور کیرتھر کی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے۔ مزار کے نزدیک واقع ایک تالاب میں موجود مگر مچھوں سے بہت سی حیرت انگیز روایات اور واقعات منسوب ہیں۔ تالاب میں موجود سب سے بڑے مگر مچھ کو وہاں کے عام لوگ’’ مور صاحب‘‘ جبکہ ہندو اسے ’’لالا جسراج‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں ۔ یہاں موجود گندھکی چشموں کو (ایک روایت کے مطابق) ایک ہندو رتن مل سنبھالتا تھا جو ان میں مختلف اقسام کی خاک پھینکتا رہتا تھا تب ہی ان چشموں سے گندھک کی بو اٹھتی رہتی ہے۔
یہاں سے پھوٹنے والے ایک چشمے کے متعلق روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام یہاں تشریف لائے اور رتن مل سے پانی مانگا مگراس نے جواب دیا تو حضرت صاحب نے اپنی برچھی زور سے زمیں پر دے ماری تو وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا جو ابھی تک جاری ہے۔
ایک دوسرا چشمہ غیبی پیر کے نزدیک ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے غیبی پیر نے جاری کیا تھا۔ اسی طرح یہاں کے سارے چشمے روایات کے مطابق کسی نہ کسی پیر فقیر نے جاری کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جھمپیر اور لکی کے چشمے بھی جلد کے مرضوں کے لئے شفا رکھتے ہیں۔ یہاں سالانہ میلے میں شیدیوں کا مخصوص رقص ’’مگرمان رقص ‘‘دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔

گورغ جہاں گرمیوں میں مری سے بھی زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے۔
اسی پہاڑی سلسلے میں گورغ نامی ایک پرفضا، خوبصورت مناظر اور روح افزا موسم رکھنے والی چوٹی ہے، جس کی اونچائی سطح سمندر سے 4500 فٹ بلنداور درجہء حرارت (گرمیوں میں) 7سے30 ڈگری سینٹی گریڈ اور (سردیوں میں) منفی 5 سے 20ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیاں رہتاہے۔ گورغ سے مشرق طرف کچھ فاصلے پر مم تھل کے نام سے ایک چوٹی ہے جہاں انتہائی ٹھنڈی ہوا ئیں چلتی رہتی ہیں جو گورغ کی چوٹی پر پہنچ کر اس کو بھی ٹھنڈا رکھتی ہیں ۔ گورغ اور مم تھل دونوں چوٹیوں پر پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ یہاں رہنے والے باشندے پینے اور استعمال کا پانی ہینگن ندی سے حاصل کرتے ہیں جو وہاں سے گیارہ کلومیٹر دور جنوب مشرق میں بہتی ہے۔ گوکہ اس ندی کا پانی قدرتی طور پر کالا اور عام طور پر پینے کے قابل نہیں ہوتا ہے مگر دوسرا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے سبب یہ لوگ اسی کا پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
برطانوی حکومت اپنے دور میں سندھ اور بنگال میں تفریحی مقامات بنانا چاہتی تھی ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے کلکتہ سے پانچ سو کلومیٹر دور ہمالیہ کے مشرقی پہاڑوں پر دارجلنگ کے مقام کو منتخب کیا تھا۔ جبکہ سندھ میں انہوں نے گورغ کی اس چوٹی پر مستقبل کا تفریحی مقام کے نام سے منصوبہ بنایا جو کچھ وجوہات کی بنا پر قابل عمل نہیں ہوسکا۔ یہی نتیجہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے حکمرانوں کی آمد اور اعلانات کے ساتھ ہوتا رہا۔ اگست ۱۹۵۵ع میں اسکندر مرزا نے جب گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو دوسرے سال جون ۱۹۵۶ع میں اس نے گورغ کے اس تفریحی مقام کا دورہ کیا اوریہاں پر بہت کچھ کرنے کے اعلانات کرکے بھول گیا۔ ۱۹۶۳ع میں فیلڈ مارشل ایوب خان یہاں آیا ، گورغ اور کتے کی قبر پر بڑے ترقیاتی منصوبے تعمیر کروانے کے دعوے کئے مگر وہ بھی ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ع کو اپنے استعفیٰ تک عملی طور پر کچھ نہیں کر سکا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیتِ وزیر اعظم پہلی مرتبہ اگست ۱۹۷۴ع میں کیرتھر کے اوپر والے حصوں کا دورہ کیا۔ دوسری مرتبہ جولائی ۱۹۷۶ع میں کتے کی قبر اور گورغ کے علاقے بھی اچھے طریقے سے گھوم کر دیکھے ، اپنی تقاریر و تقاریب میں انہوں نے بھی اس علاقے کی قدرتی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں مری کی طرح تفریحی مقام بنانے کا اعلان کیا مگر عملی طور پر وہ بھی کچھ کرنے سے قاصر رہے۔
۱۹۹۶ع میں محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں عبداللہ شاہ کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران گورغ پر خوبصورت اور جدید تفریح گاہ، ہوٹل ، ریس کورس وغیرہ بنانے کا منصوبہ جوڑا گیا تھا جو اپنے ابتدائی مراحل سے بھی گزر چکا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت چلی گئی اور اس منصوبے کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہماری تازہ حکومتیں روایتی طور پر اگلی حکومتوں کے اچھے منصوبوں کے ساتھ انتقاماً کیا کرتی ہیں۔
کیر تھر کے آثار قدیمہ۔
میں نے مئی 2005 ع میں یو ایس ایڈ کی ٹیم کے ساتھ اکتیس دن کی وزٹ کے دوران پورا کھیرتھر نیشنل پارک دیکھنے کے ساتھ اس علاقے میں موجود آثار قدیمہ کا جس حد تک ممکن ہو سکا سروے کیا تھا حالانکہ یہ سروے صرف کیرتھر میں موجود پودوں کی نسلوں کے لئے کروایا گیا تھاجس سے میں نے اپنی طبیعت کے حساب سے فائدہ اٹھایاتھا۔ میں نے دیکھا کہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلوں میں خاص طور پر نئن گاج (ندی) اور تونگ گاؤں کے چوء طرف سینکڑوں میل میں قدیم تہذیبوں اور باشندوں کے ہزاروں اجڑے ہوئے شہر، گاؤں، محل، بستیاں اور قلعے انمول موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔ مگر وہ سب ہماری سرکاری اور قومی بے حسی کی وجہہ سے سکرات کے عالم میں اپنا وجود گنواتے جا رہے ہیں۔
یہاں کئی ہزار سال قبل مسیح میں بنے ہوئے چھوٹے بڑے ڈیموں کے آثار بھی پائے جاتے ہیں جن میں برساتی نالوں اور چشموں سے پانی جمع کرکے یہاں کے باشندے زراعت اور گھریلو استعمال میں لاتے تھے۔ ایچ ٹی لمبرک نے اس علاقے کے سروے کے دوران ان ڈیموں کی تعریف میں لکھا ہے کہ ’’انجنیئرنگ کے ان کمالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ان ڈیموں کو اتنی کاریگری اور مہارت سے کس نے تعمیر کیا ہوگا‘‘۔ اس پارک کی حدود میں تقریباً دوسو کے قریب قدیم آثار پائے جاتے ہیں جو ایک سو سال سے لے کر پانچ تا آٹھ ہزار سالہ قدیم ہیں ۔
تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے تناظر میں این جی مجمدارکے سندھی قوم پر بہت سے احسانات ہیں کہ اس نے سندھ کے آثارِ قدیمہ پرسب سے زیادہ کام کیا۔ مگر بد قسمتی سے جب یہ صاحب نئن گاج اور روہیل کے کونے والے علاقے میں تحقیقی کھوجناؤں کے سلسلے میں کام کر رہا تھا تو ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارا گیا ۔

کوہتراش۔
یہ علاقہ کرچاٹ سے دس کلومیٹر شمال طرف اونٹوں والے اس راستے پر واقع ہے جو تھانہ عارب سے تونگ کی طرف جاتا ہے اور باران ندی کے شمال میں سطحِ زمین سے کچھ باہر نکلی ہوئی ایک ٹکری پر واقع ہے۔ آثارِ قدیمہ کے کھنڈروں سے بھری پڑی یہ ٹکری شمال طرف پچانوے فٹ اونچی ہے جبکہ اس کے جنوب میں اترائی ہے جو میدانی علاقے سے دس فٹ اوپر ختم ہو کر تونگ جانے والے راستے کے ساتھ مل جاتی ہے۔ اس کے جنوب میں چڑھائی پر ایک بڑی دیوار ہے جس کے بعد ایک شاہی کوٹ آجا تاہے جو تعمیراتی کاریگری کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ اس کوٹ کے جنوب مشرق میں ایک ڈیوڑھی اور چار تباہ شدہ برجوں کے نشانات موجود ہیں جن میں داخل ہونے والا اپنے آپ کو ایک بڑے کھنڈر میں پاتاہے۔ یہاں مختلف کمروں کے نشانات واضع نظر آتے ہیں جن کی تعمیر پتھروں کو کاٹ کاٹ کر کی گئی ہے۔ اس ٹکری کے مغر ب میں کیرتھر پہاڑوں کی قطار ہے۔ یہاں سے تونگ طرف جانے والے راستے میں بڑی بڑی دیواریں بنی ہوئی ہیں جن میں سے ایک دیوار چار سو فٹ لمبی اور تیس سے پینتیس فٹ چوڑی اور بیس فٹ اونچی ہے جو شاید بلوچستان سے آنے والے حملہ آوروں سے تحفظ کے لئے کھڑی کی گئی ہوگی۔

فنگ کی بستی کے آثار۔
یہ بھی کسی بستی کے ویران آثار ہیں جو کوھتراش سے تین سو میٹر دور شمال مغرب میں واقع ہیں۔ جہاں بکھرے پڑے رہائشی گھروں اور کمروں کے آثار آنے جانے والوں کو دعوتِ تحقیق دیتے ہیں۔ یہاں سے ملنے والے ٹھکر کے سامان کو بنانے کا طریقہ یا ہنر کوھتراش اور کوٹ ڈیجی کے برتنوں جیسا ہے۔ اسی علاقے میں ہی برسات کے پانی کو جمع کرنے کے لئے پتھروں کو کاٹ کاٹ کر قبل از تاریخ میں بنائے ہوئے ڈیم بھی موجود ہیں جو اپنے کاریگروں کی بے مثال ہنرمندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔

پب پہاڑ۔
پب پہاڑ کیرتھر سلسلے کا اہم حصہ ہے جو کوہیار(جھالاوان) سے شروع ہوکر راس مونزے تک ایک سو میل لمبا ہے، اسکی سب سے اونچی چوٹی کا نام فراس ہے۔ اس پہاڑ پر مویشیوں کے چرنے کے لئے بڑی مقدار میں گھاس اگتی ہے۔ بہکنی، مور، اندھر، مورپب، جیتل، کرو اور لکی بھی اس سلسلے کی پہاڑیاں ہیں۔ پب پہاڑ زیادہ تر کم ہی اونچے ہیں، انکی اونچائی سطحِ سمندر سے کہیں بھی دوسو فٹ سے زیادہ اونچی نہیں ہے۔
یہ پہاڑی سلسلہ کافی زرخیر اور سر سبز ہے ، اسی پہاڑ پر لس بیلہ والی سرحد پر شاہ بلال کی زیارت گاہ ہے، جس کے نزدیک ایک پہاڑ ی صفہ ہے جس کولاہوت لامکان کہا جاتا ہے جہاں تک رسائی بڑے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ یہاں ایک جگہ پر گائے کے پستان جیسے پتھر تراشے ہوئے ہیں جن میں سے کسی دور میں (کہتے ہیں ) دودھ بہتا رہتا تھا جبکہ اب پانی کے قطرے بن بن کے گرتے رہتے ہیں۔ اس کے اندر ایک وسیع و عریض غار ہے جو کہتے ہیں کہ اندر ہی اندر سے عربستان یا حجاز تک چلا جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں عقیدتمند اسی راستے سے کعبۃ اللہ شریف کی زیارت کے لئے جاتے رہتے تھے۔

تونگ کی بٹھی۔
یہ جگہ د نبر جبل کے شمال مشرقی کونے پر ، گاج پہاڑ کے دامن سے تونگ گاؤں کے نزدیک واقع ہے جو مخروطی شکل کی ٹکری کی صورت میں تقریباً پچیس میٹر اونچی ہے۔ جبکہ نچلا گاؤں ٹکری کے دامن میں جنوب سے جنوب مشرق اطراف میں پھیلا ہوا ہے ۔ بٹھی سے ایک سو میٹر مغرب طرف رتن شاہ کا چشمہ بہتا ہے۔ جب لمبرک نے یہاں کھدائی کروائی تھی تو اس کو یہاں سے جھانگاراور آمری کے شہروں جیسے برتن ہاتھ آئے تھے ۔ اس کے علاوہ اس کو ٹھکر کے کنگن اور پتھر کے اوزار وغیرہ بھی ملے تھے۔

جھم پیر اور جھرک۔
یہاں ایک پہاڑی ٹکری کے غار میں پیر امیرکا قبہ موجود ہے جہاں ہر سال میلا بھی لگتا ہے، یہیں سے سنہری جھیل بھی نظر آتی ہے۔ اسی علاقے میں موجود جھرک کی پسگردائی میں موجود ٹکری پر ایک تباہ شدہ قلعہ کے آثار موجود ہیں جسے کافر کوٹ یا راجا ماجی راءِ (باجی راءِ)کا کوٹ کہتے ہیں۔ اس کوٹ کے نزدیک بدھ دھرم کا ایک قدیم ستون بھی موجود ہے۔

لکھمیر کی ماڑی۔
یہ جگہ نئنگ ندی کے قریب ہے جس کی سطح پر بڑی بڑی تعمیرات کے ٹوٹے پھوٹے نشانات اب بھی موجود ہیں ۔ جبکہ چوطرف پتھروں کے ڈھیر پڑے ملتے ہیں۔ علاقائی باشندوں کا خیال ہے کہ قدیم زمانے میں یہ کھنڈرات یہاں کے سرداروں کے محلات ہوا کرتے تھے۔ ٹکری کے دامن میں ایک طرف پہریداروں اور نوکروں کے حجروں کے کھنڈر نما آثار بھی نظر آتے ہیں۔

لنڈی بٹھی۔
یہ جگہ بھی نئنگ ندی کے دائیں کنارے پر بڈو رینج کے نزدیک نئنگ گاؤں سے جنوب مشرق طرف دو کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ایک مخروطی ٹیلہ ہے جو ایک دوسرے کے اوپر تین دیواروں سے چورس جڑا ہوا ہے ۔ اس کی چوٹی پربھی ایک محل کے واضع آثار موجود ہیں، جہاں ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی معبد ہو کیونکہ اس کی تعمیر کچھ اس قسم کی عمارت کی گواہی دیتی ہے۔
علاوہ ازیں یہاں ڈ ھالانی کا کوٹ جھانگارا سے ساڑے چھ کلومیٹر مشرق میں باران ندی کے کنارے واقع ہے ۔ وہاں سے ملنے والے برتنوں کی مشابہت آمری کے شروعاتی دور کے برتنوں سے ملتی جلتی ہے۔ ایک اور بستی روھیل کا کندھ کے آثاروں والی جگہ گاج ندی کے اندر ساڑے آٹھ کلومیٹر پر واقع ہے یہاں سے ملنے والے برتن بھی آمری تہذیب سے ملتے جلتے ہیں۔
یہاں تونگ والے علاقے میں جوکھیوں، برفتوں اور کلمیتوں کے شاندار مقابر کا ایک وسیع و عریض قبرستان موجود ہے جہاں کئی منزلہ قبریں موجود ہیں جن کے پتھروں پر خوبصورت نقش و نگار اور سنگتراشی کے دل آویز نمونے کھدے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں آثارِ قدیمہ کے ماہروں اور مورخوں کا کہناہے کہ یہ لوگ اپنے مردے دفن نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں پتھروں کے چھوٹے قبر نما کمروں میں رکھ کر اوپر قبر بنا دیتے تھے۔ کیرتھر جابلو سلسلے کے شمال میں انیسویں صدی عیسوی میں دو تالپور بھائیوں کا تعمیر کروایا ہوا شاندار قلعہ رنی کوٹ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ تنا کھڑا ہے۔


سندھ کے اندر قدیم آثار۔ تنویر جونیجو۔
قدیم سندھ ۔ مرزا قلیچ بیگ۔
ربط
http://www.asifrazamorio.com/index.php/2013-01-31-07-20-51/urdu-articles/50-2013-09-08-04-40-54
 
Top