کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا

سر الف عین ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا
تیرا وہ ظرف تو نے پتھر اٹھالیا

تو مال وزر کے پیچھے بس بھاگتا رہا
میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا

آنسو رہے مقید مژگاں کے ضبط میں
اپنی وفا کا بدلہ یوں تجھ سے پا لیا

کشتی مرے جنوں کی گرداب میں رہی
دیکھا جونہی کنارہ طوفاں نے آ لیا


شب بھر میں خلوتوں میں یوں مضطرب رہا
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا
 
مکرمی سعید صاحب، آداب.
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ. چند تجاویز اور تاثرات ذہن میں آئے، غور کیجئے گا.

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا
تیرا وہ ظرف تو نے پتھر اٹھالیا
دوسرے مصرعے کو یوں کہا جائے تو؟
یہ تیرا ظرف، تو نے پتھر اٹھا لیا

آنسو رہے مقید مژگاں کے ضبط میں
اپنی وفا کا بدلہ یوں تجھ سے پا لیا
کچھ بات بن نہیں رہی،" یوں" کے سبب. یعنی آنسو ضبط ہونا وفا کا بدلہ ہے یا پھر وہ بات جس کہ وجہ سے آنسو ضبط کرنا پڑے؟

شب بھر میں خلوتوں میں یوں مضطرب رہا
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا
ایک ہی شب کا قصہ ہے تو خلوتوں کی بجائے صرف خلوت کہنا چاہیئے. علاوہ ازیں یہاں بھی مجھے "یوں" بھرتی کا محسوس ہوا، کیونکہ اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں شعر میں.
خلوت میں رات بھر اب، رہتا ہوں مضطرب
کیسا عجب... الخ

دعاگو،
راحل.
 
مکرمی سعید صاحب، آداب.
اچھی غزل ہے ماشاءاللہ. چند تجاویز اور تاثرات ذہن میں آئے، غور کیجئے گا.


دوسرے مصرعے کو یوں کہا جائے تو؟
یہ تیرا ظرف، تو نے پتھر اٹھا لیا


کچھ بات بن نہیں رہی،" یوں" کے سبب. یعنی آنسو ضبط ہونا وفا کا بدلہ ہے یا پھر وہ بات جس کہ وجہ سے آنسو ضبط کرنا پڑے؟


ایک ہی شب کا قصہ ہے تو خلوتوں کی بجائے صرف خلوت کہنا چاہیئے. علاوہ ازیں یہاں بھی مجھے "یوں" بھرتی کا محسوس ہوا، کیونکہ اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں شعر میں.
خلوت میں رات بھر اب، رہتا ہوں مضطرب
کیسا عجب... الخ

دعاگو،
راحل.

بہت شکریہ راحل بھائی
 

الف عین

لائبریرین
مجھے یہ بحر رواں نہیں لگتی۔ کیا حرج ہے اگر تجربہ نہ کرتے ہوئے مستعمل بحر یعنی مفعول فاعلاتن دو بار کے افاعیل کے ساتھ ہی اسے تبدیل کیا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ روانی میں اضافہ واضح نظر آئے
 
مجھے یہ بحر رواں نہیں لگتی۔ کیا حرج ہے اگر تجربہ نہ کرتے ہوئے مستعمل بحر یعنی مفعول فاعلاتن دو بار کے افاعیل کے ساتھ ہی اسے تبدیل کیا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ روانی میں اضافہ واضح نظر آئے
شکریہ سر بحر بدلنے کی کوشش کرتا ہوں
 

سیما علی

لائبریرین
سر الف عین ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا
تیرا وہ ظرف تو نے پتھر اٹھالیا

تو مال وزر کے پیچھے بس بھاگتا رہا
میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا

آنسو رہے مقید مژگاں کے ضبط میں
اپنی وفا کا بدلہ یوں تجھ سے پا لیا

کشتی مرے جنوں کی گرداب میں رہی
دیکھا جونہی کنارہ طوفاں نے آ لیا


شب بھر میں خلوتوں میں یوں مضطرب رہا
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا
بہت عمدہ سعید احمد سجاد صاحب

آیت وصل پڑھی اور پلایا پانی !!!!!!!
اب محبت میں خسارہ نہیں ہونے والا
تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے کافی ہے مجھے
وہ میرا سارے کا سارا نہیں ہونے والا
 
مجھے یہ بحر رواں نہیں لگتی۔ کیا حرج ہے اگر تجربہ نہ کرتے ہوئے مستعمل بحر یعنی مفعول فاعلاتن دو بار کے افاعیل کے ساتھ ہی اسے تبدیل کیا جائے۔ بہت ممکن ہے کہ روانی میں اضافہ واضح نظر آئے

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا ہے
یہ تیرا ظرف تُو نے پتھر اٹھا لیا ہے

تُو مال و زر کے پیچھے گرداں رہا ہمیشہ
میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا ہے

آنسو رہے مقید پلکوں کے طاقچوں میں
اس ضبط نے تو جیسے رگ رگ کو کھا لیا ہے

کشتی رہی جنوں کی بحرِ بیکراں میں
دیکھا جونہی کنارہ طوفاں نے آ لیا ہے

بےچین سی طبیعت سوچیں ہیں منتشر سی
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا ہے

سر دوبارہ بحر بدل کر کوشش کی ہے نظر پانی فرمائیے گا
 

الف عین

لائبریرین
ہان، یہ رواں لگ رہی ہے

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا ہے
یہ تیرا ظرف تُو نے پتھر اٹھا لیا ہے
... دوسرا مصرع یوں بہتر ہو شاید
ہے تیرا ظرف، تو نے.....

تُو مال و زر کے پیچھے گرداں رہا ہمیشہ
میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا ہے

آنسو رہے مقید پلکوں کے طاقچوں میں
اس ضبط نے تو جیسے رگ رگ کو کھا لیا ہے
.. بالا دونوں اشعار درست

کشتی رہی جنوں کی بحرِ بیکراں میں
دیکھا جونہی کنارہ طوفاں نے آ لیا ہے
.. کچھ چھوڑ دیا ہے ٹائپ کرنے میں 'اک بحر بے کراں' درست ہے

بےچین سی طبیعت سوچیں ہیں منتشر سی
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا ہے
.. پہلے ٹکڑے میں 'ہے' کی کمی دور کر لو
بے چین سی ہے حالت
یا
بے چین ہے طبیعت
 
ہان، یہ رواں لگ رہی ہے

میں نے انا بھلا کر خود کو جھکا لیا ہے
یہ تیرا ظرف تُو نے پتھر اٹھا لیا ہے
... دوسرا مصرع یوں بہتر ہو شاید
ہے تیرا ظرف، تو نے.....

تُو مال و زر کے پیچھے گرداں رہا ہمیشہ
میں ہوں کہ تیری رہ میں خود کو گنوا لیا ہے

آنسو رہے مقید پلکوں کے طاقچوں میں
اس ضبط نے تو جیسے رگ رگ کو کھا لیا ہے
.. بالا دونوں اشعار درست

کشتی رہی جنوں کی بحرِ بیکراں میں
دیکھا جونہی کنارہ طوفاں نے آ لیا ہے
.. کچھ چھوڑ دیا ہے ٹائپ کرنے میں 'اک بحر بے کراں' درست ہے

بےچین سی طبیعت سوچیں ہیں منتشر سی
کیسا عجب تعلق تجھ سے بنا لیا ہے
.. پہلے ٹکڑے میں 'ہے' کی کمی دور کر لو
بے چین سی ہے حالت
یا
بے چین ہے طبیعت
شکریہ سر ہمیشہ سلامت رہیں
 
Top