محمد ریحان قریشی
محفلین
کیسی دوری ہے کہ بس جاں سے قریں رہتی ہے
تذکرہ میرا، مری بات کہیں رہتی ہے
کس کی خاموش نواؤں پہ فدا ہے عالم؟
آسماں رقص میں گردش میں زمیں رہتی ہے
رونقِ بزمِ خیال اپنی جگہ ہے لیکن
دل میں خلوت سی کوئی گوشہ نشیں رہتی ہے
کم نہیں فضل جو سجدے میں گراتا ہے اسے
سجدۂ شکر میں ساجد کی جبیں رہتی ہے
طاقِ نسیاں کا پتا بھول نہ جائے مجھ کو
یاد پڑتا ہے تری یاد وہیں رہتی ہے
موت کا خوف تو ہے موت کے آ جانے تک
موت بس تا نفسِ باز پسیں رہتی ہے
فکر کی لوح پہ لکھتا ہوں جو لکھنا چاہوں
کائنات ایک مرے زیرِ نگیں رہتی ہے
تذکرہ میرا، مری بات کہیں رہتی ہے
کس کی خاموش نواؤں پہ فدا ہے عالم؟
آسماں رقص میں گردش میں زمیں رہتی ہے
رونقِ بزمِ خیال اپنی جگہ ہے لیکن
دل میں خلوت سی کوئی گوشہ نشیں رہتی ہے
کم نہیں فضل جو سجدے میں گراتا ہے اسے
سجدۂ شکر میں ساجد کی جبیں رہتی ہے
طاقِ نسیاں کا پتا بھول نہ جائے مجھ کو
یاد پڑتا ہے تری یاد وہیں رہتی ہے
موت کا خوف تو ہے موت کے آ جانے تک
موت بس تا نفسِ باز پسیں رہتی ہے
فکر کی لوح پہ لکھتا ہوں جو لکھنا چاہوں
کائنات ایک مرے زیرِ نگیں رہتی ہے
آخری تدوین: