کیسی کیسی عشق کی رُوداد سنتے آئے ہیں غزل نمبر 105 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
کیسی کیسی عشق کی رُوداد سنتے آئے ہیں
ذکرِ مجنوں اور کبھی فرہاد سنتے آئے ہیں

باز کب آئیں گے اپنی لغزشوں سے پھر بھی یہ؟
تذکرہ آدم کا آدم زاد سنتے آئے ہیں

ظُلم کرتا ہے زمانہ سچے لوگوں پر ہی کیوں؟
عشق والوں پر سدا بیداد سنتے آئے ہیں

بادشاہِ وقت کے آگے سدا خاموش رہ
کاٹ دیتے ہیں وہ سر جلاد سنتے آئے ہیں

منسلک ہے رُوح جب تک جِسم سے آئیں گے غم
ایک دن ہوجائیں گے آزاد سنتے آئے ہیں

ایک بارش ایسی خود پر کر کہ یہ دُھل جائے داغ
اے فلک تُو ہے ستم ایجاد سنتے آئے ہیں

منتظر ہیں ہم کہ سارے غم غلط ہوجائیں گے
غیب سے جب آئے گی امداد سنتے آئے ہیں

جب زمیں تانبے کی ہوگی اور سورج سامنے
آئے گی اک روز وہ افتاد سنتے آئے ہیں

کاش شارؔق کوئی تو اِس دل کے دُکھڑے بھی سُنے
اپنی غزلوں پر مبارکباد سنتے آئے ہیں
 

صریر

محفلین

الف عین

لائبریرین
کیسی کیسی عشق کی رُوداد سنتے آئے ہیں
ذکرِ مجنوں اور کبھی فرہاد سنتے آئے ہیں
... مطلع صرف قافیہ بندی لگ رہا ہے، کیسی روداد؟ اس کی تفصیل کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ "رودادیں" ، جمع کے صیغے کی ضرورت تھی

باز کب آئیں گے اپنی لغزشوں سے پھر بھی یہ؟
تذکرہ آدم کا آدم زاد سنتے آئے ہیں
.. پہلے مصرع کی ترتیب بدلو
پھر بھی یہ باز آئیں گے کب
پھر بھی کب یہ...
وغیرہ کے ساتھ پھر کوشش کرو

ظُلم کرتا ہے زمانہ سچے لوگوں پر ہی کیوں؟
عشق والوں پر سدا بیداد سنتے آئے ہیں
.. عشق والے کیا جھوٹے نہیں ہو سکتے؟ "سچے" کی جگہ کچھ اور لاؤ

بادشاہِ وقت کے آگے سدا خاموش رہ
کاٹ دیتے ہیں وہ سر جلاد سنتے آئے ہیں
... بادشاہ تو واحد ہے، مگر دوسرے مصرعے میں جمع کا صیغہ ہے، مصرع بدلو

منسلک ہے رُوح جب تک جِسم سے آئیں گے غم
ایک دن ہوجائیں گے آزاد سنتے آئے ہیں
... غم آنا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، کچھ اور استعمال کرو
باقی اشعار درست لگتے ہیں
 

امین شارق

محفلین
کیسی کیسی عشق کی رُوداد سنتے آئے ہیں
ذکرِ مجنوں اور کبھی فرہاد سنتے آئے ہیں
... مطلع صرف قافیہ بندی لگ رہا ہے، کیسی روداد؟ اس کی تفصیل کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ "رودادیں" ، جمع کے صیغے کی ضرورت تھی

باز کب آئیں گے اپنی لغزشوں سے پھر بھی یہ؟
تذکرہ آدم کا آدم زاد سنتے آئے ہیں
.. پہلے مصرع کی ترتیب بدلو
پھر بھی یہ باز آئیں گے کب
پھر بھی کب یہ...
وغیرہ کے ساتھ پھر کوشش کرو

ظُلم کرتا ہے زمانہ سچے لوگوں پر ہی کیوں؟
عشق والوں پر سدا بیداد سنتے آئے ہیں
.. عشق والے کیا جھوٹے نہیں ہو سکتے؟ "سچے" کی جگہ کچھ اور لاؤ

بادشاہِ وقت کے آگے سدا خاموش رہ
کاٹ دیتے ہیں وہ سر جلاد سنتے آئے ہیں
... بادشاہ تو واحد ہے، مگر دوسرے مصرعے میں جمع کا صیغہ ہے، مصرع بدلو

منسلک ہے رُوح جب تک جِسم سے آئیں گے غم
ایک دن ہوجائیں گے آزاد سنتے آئے ہیں
... غم آنا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، کچھ اور استعمال کرو
باقی اشعار درست لگتے ہیں
سر اس پر ابھی سوچ رہا ہوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آرہا آپکے پاس کوئی موزوں مصرعہ ہو تو عنایت فرمائیں باقی غزل بھی دیکھیں دو نئے اشعار کے ساتھ۔۔۔

کیسی کیسی عشق کی رُوداد سنتے آئے ہیں
ذکرِ مجنوں اور کبھی فرہاد سنتے آئے ہیں

پھر بھی کب یہ لغزشوں سے باز آئیں گے کبھی؟
تذکرہ آدم کا آدم زاد سنتے آئے ہیں

ظُلم کرتا ہے زمانہ سادہ لوگوں پر ہی کیوں؟
عشق والوں پر سدا بیداد سنتے آئے ہیں

شاہ کا دربار ہے آواز کو اونچا نہ رکھ
کاٹ دیتے ہیں وہ سر جلاد سنتے آئے ہیں

منسلک ہے رُوح جب تک جِسم سے، تکلیف ہے
ایک دن ہوجائیں گے آزاد سنتے آئے ہیں

ایک بارش ایسی خود پر کر کہ یہ دُھل جائے داغ
اے فلک تُو ہے ستم ایجاد سنتے آئے ہیں

منتظر ہیں ہم کہ سارے غم غلط ہوجائیں گے
غیب سے جب آئے گی امداد سنتے آئے ہیں

جب زمیں تانبے کی ہوگی اور سورج سامنے
آئے گی اک روز وہ افتاد سنتے آئے ہیں

چار دن کی زندگی ہے کر عبادت میں بسر
واعظ و ناصح سے یہ ارشاد سنتے آئے ہیں

ان کے زخموں کا مداوا کوئی تو ہو جو بنے
ہم سدا مظلوم کی فریاد سنتے آئے ہیں


کاش شارؔق کوئی تو اِس دل کے دُکھڑے بھی سُنے
اپنی غزلوں پر مبارکباد سنتے آئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
نئے اشعار میں پہلا تو تک بندی لگ رہا ہے، دوسرا شعر، فریاد والا، پھر غنیمت ہے
مطلع تو دوسرا ہی کیا جائے، فرہاد بھی سنا نہیں جا سکتا، ذکر فرہاد ہی سنا جا سکتا ہے
ظُلم کرتا ہے زمانہ سادہ لوگوں پر ہی کیوں؟
عشق والوں پر سدا بیداد سنتے آئے ہیں
... سادہ لوگ ہی عشق والے ہوتے ہیں؟
یوں کہو تو کچھ بات بنے
پیار جوکرتے ہیں ان پر توڑے جاتے ہیں ستم
عشق والوں پر ہی کیوں بیداد...

شاہ کا دربار ہے آواز کو اونچا نہ رکھ
کاٹ دیتے ہیں وہ سر جلاد سنتے آئے ہیں
... دوسرے مصرعے میں 'وہ' اب بھی مسئلہ پیدا کر رہا ہے
سر قلم کر دیتے ہیں جلاد، سنتے آئے ہیں
کیا جا سکتا ہے

منسلک ہے رُوح جب تک جِسم سے، تکلیف ہے
ایک دن ہوجائیں گے آزاد سنتے آئے ہیں
.. درست تو ہو گیا مگر روانی کمزور ہے
ساری تکلیفیں ہیں جب تک روح/جان تن میں قید ہے
شابیتر مصرع ہو
 
Top