کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل آپ احباب کی آراء اور توجہ کے حوالے کر رہا ہوں۔
*******............********............********
تیرِ نگاہِ ناز، نشانہ پہ دل لیے !!
کیسی ہدف شناس، وہ چشمِ غِزال ہے !
یہ کیسی تشنگی ہے مرے دل کو، تُو بتا ؟
پیدا ترے جواب سے، پھر اک سوال ہے !
رہنا ہے جس کو ہم سے، ہمیشہ ہی بد گماں
کیوں، اُس فریبِ رنگ و بُو کا پھر خیال ہے !
رو رو کے ہجرِ یار میں، مرنا نہیں کمال
ہنس ہنس کے اس فراق میں، جینا کمال ہے!
مِضراب اک خیال کی، جب روح پر پڑی
حسّاس دل میں ہجر کا، کچھ اِندمال ہے!
میری نَوِشتِ عشق ہے ، مانندِ آئینہ
اک ان کہے گِلے کا مگر ، اِس میں بال ہے
دریوزہ گر ہیں، ہاتھ میں کشکول سب لیے
دنیا میں دیکھو کیسا یہ، قحط الرجال ہے!
انسان کا ہے ذوقِ نُمُو ،سب سے مختلف
اس اک ہنر کی ،آپ یہ زندہ مثال ہے
ہر حادثہ پہ راستہ، ہم گھر کا، وَا رکھیں
کاشف، یہ ذوق، اہلِ وفا کو، حلال ہے
سید کاشف
*******............********............********
*******............********............********
تیرِ نگاہِ ناز، نشانہ پہ دل لیے !!
کیسی ہدف شناس، وہ چشمِ غِزال ہے !
یہ کیسی تشنگی ہے مرے دل کو، تُو بتا ؟
پیدا ترے جواب سے، پھر اک سوال ہے !
رہنا ہے جس کو ہم سے، ہمیشہ ہی بد گماں
کیوں، اُس فریبِ رنگ و بُو کا پھر خیال ہے !
رو رو کے ہجرِ یار میں، مرنا نہیں کمال
ہنس ہنس کے اس فراق میں، جینا کمال ہے!
مِضراب اک خیال کی، جب روح پر پڑی
حسّاس دل میں ہجر کا، کچھ اِندمال ہے!
میری نَوِشتِ عشق ہے ، مانندِ آئینہ
اک ان کہے گِلے کا مگر ، اِس میں بال ہے
دریوزہ گر ہیں، ہاتھ میں کشکول سب لیے
دنیا میں دیکھو کیسا یہ، قحط الرجال ہے!
انسان کا ہے ذوقِ نُمُو ،سب سے مختلف
اس اک ہنر کی ،آپ یہ زندہ مثال ہے
ہر حادثہ پہ راستہ، ہم گھر کا، وَا رکھیں
کاشف، یہ ذوق، اہلِ وفا کو، حلال ہے
سید کاشف
*******............********............********