کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں ۔ رضی اختر شوق

ظفری

لائبریرین
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں

ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی
بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں

ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں
ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں

اُسکا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور ہے
بات بدل بدل گئی، نامہ بروں کے درمیاں


جامِ صفال و جامِ جم، کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے
اور بکھر بکھر گئے ، کُوزہ گروں کے درمیاں

جیسے لُٹا تھا شوق میں ، یُونہی متائےفن گئی
اہلِ نظر کے سامنے، دیدہ وروں کے درمیاں

(رضی اختر شوق)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
جامِ سفال و جامِ جم، کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے
اور بکھر بکھر گئے ، کُوزہ گروں کے درمیاں

جیسے لُٹا تھا شوق میں ، یُونہی متاعِ فن گئی
اہلِ نظر کے سامنے، دیدہ وروں کے درمیاں

واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ ظفری صاحب!
 
Top