خرم شہزاد خرم
لائبریرین
کیسے کہوں کہ عشق کی شددت میں مر گیا
مجبور تھا میں اور مصیبت میں مر گیا
دنیا سمجھ رہی ہے عقیدت میں مر گیا
لیکن خبر کسے ہے جہالت میں مر گیا
دعوا کیا تھا جس نے محمد(صلی اللہ ہو علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کا
وہ شخص خود ہی اپنی غلاظت میں مر گیا
جھُوٹے جہادیوں کے جو ہاتھوں میں کھیل کر
سچ ہے وہ اپنے شوقِ شہادت میں مر گیا
فاقہ کشی مٹانے کو مرتا تھا روز روز
کل رات وہ غریب حقیقت میں مر گیا
نا آسکی ہیں کام بھی ایم اے کی ڈگریاں
بیٹا کسی غریب کا فرصت میں مر گیا
فرصت کسے ہے کس کی عیادت کرے کوئی
یہ سوچ کر طویل علالت میں مر گیا۔
دُکھ درد اور زمانے کی تلخی سے ماورا
"احمد رضا" بھی کتنی سہولت میں مر گیا
(اپنے بیٹے کی یادمیں لکھا گیا ایک شعر)
عادت مجھے تھی ایک ترے انتظار کی
اور میں بھی دیکھ ایک ہی عادت میں مر گیا
ہے سب فریب جان لیا تھا جو عشق ہے
پروانہ پھر بھی شمع کی چاہت میں مر گیا
فرصت نا مل سکی تھی جسے ایک بات کی
جب مل گئی تو پھر وہ فراغت میں مر گیا
سقراط نے تو جام پیا تھا یقین سے
اور میں تو اپنے نام کی شہرت میں مر گیا
ہے زندگی کہاں کی جو ظلمت میں چپ رہا
زندہ وہی رہا جو جسارت میں مر گیا
ہے کامیاب میرے نظر میں اے دوستوں
وہ شخص جو حیات کی صورت میں مر گیا
منزل کے پاس آکے بھی منزل سے دور تھا
وہ بھی تو کامیابی کی صورت میں مر گیا
روزی کے واسطے جو نجاتا تھا موت کو
اک روز وہ بھی اپنی مہارت میں مر گیا
میں مر گیا ہوں ایک فسانے میں دوستو
یہ نا سمجھنا کہ میں حقیقت میں مر گیا
اک حادثے سے بچ کے بہت خوش ہوا تھا وہ
اور پھر وہ زندگی کی مسرت میں مر گیا
فرصت کسے ہے آنکھ میں لائے گا جو نمی
خرم جو انتظار کی حالت میں مر گیا
تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں
مجبور تھا میں اور مصیبت میں مر گیا
دنیا سمجھ رہی ہے عقیدت میں مر گیا
لیکن خبر کسے ہے جہالت میں مر گیا
دعوا کیا تھا جس نے محمد(صلی اللہ ہو علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کا
وہ شخص خود ہی اپنی غلاظت میں مر گیا
جھُوٹے جہادیوں کے جو ہاتھوں میں کھیل کر
سچ ہے وہ اپنے شوقِ شہادت میں مر گیا
فاقہ کشی مٹانے کو مرتا تھا روز روز
کل رات وہ غریب حقیقت میں مر گیا
نا آسکی ہیں کام بھی ایم اے کی ڈگریاں
بیٹا کسی غریب کا فرصت میں مر گیا
فرصت کسے ہے کس کی عیادت کرے کوئی
یہ سوچ کر طویل علالت میں مر گیا۔
دُکھ درد اور زمانے کی تلخی سے ماورا
"احمد رضا" بھی کتنی سہولت میں مر گیا
(اپنے بیٹے کی یادمیں لکھا گیا ایک شعر)
عادت مجھے تھی ایک ترے انتظار کی
اور میں بھی دیکھ ایک ہی عادت میں مر گیا
ہے سب فریب جان لیا تھا جو عشق ہے
پروانہ پھر بھی شمع کی چاہت میں مر گیا
فرصت نا مل سکی تھی جسے ایک بات کی
جب مل گئی تو پھر وہ فراغت میں مر گیا
سقراط نے تو جام پیا تھا یقین سے
اور میں تو اپنے نام کی شہرت میں مر گیا
ہے زندگی کہاں کی جو ظلمت میں چپ رہا
زندہ وہی رہا جو جسارت میں مر گیا
ہے کامیاب میرے نظر میں اے دوستوں
وہ شخص جو حیات کی صورت میں مر گیا
منزل کے پاس آکے بھی منزل سے دور تھا
وہ بھی تو کامیابی کی صورت میں مر گیا
روزی کے واسطے جو نجاتا تھا موت کو
اک روز وہ بھی اپنی مہارت میں مر گیا
میں مر گیا ہوں ایک فسانے میں دوستو
یہ نا سمجھنا کہ میں حقیقت میں مر گیا
اک حادثے سے بچ کے بہت خوش ہوا تھا وہ
اور پھر وہ زندگی کی مسرت میں مر گیا
فرصت کسے ہے آنکھ میں لائے گا جو نمی
خرم جو انتظار کی حالت میں مر گیا
تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں