ناعمہ عزیز
لائبریرین
میں پچھلے تین دن سے بخا ر میں مبتلا ہوں۔ ایسا بھی نہیں بخار مجھے مسلسل رہا ہے۔ کافی دنوں سے گلا خراب ہو رہا تھا اور تین دن پہلے رات کو ذرا کھانسی کا دورہ پڑا اور صبح بخار۔ دوپہر کو ٹھیک ہوگئی تھی رات کو پھر بخار ہوگیا، اگلے دن بالکل تھی یہ بھی نہیں تھا کہ بخار کے بعد کمزوری محسوس ہو رہی ہو۔ مگر اسی شام پھر بخار ہوگیا۔ اور کل پھر ٹھیک ہو گئی تھی بس یہ سوچا تھا کہ اب ذرا بیڈ ریسٹ کو لوں تاکہ مکمل طور پہ ٹھیک ہو جاؤں پھر بستر کی جان چھوڑ دو ں گی۔
آج رات پھر کھانسی کو دورہ پڑا تھا 2 بجے تھے تب اماں بھی اٹھی تھیں میں نے اماں کو کہا مجھے بھی پانی لا دیں ۔ انہوں نے پانی لا دیا اور میں کھانسی کا شربت پیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ کبھی نیند آجاتی کبھی آنکھ کھل جاتی۔ اسی اثناٰ میں وقت دیکھا تو 5:27 ہو گئے تھے۔ سوچا اماں کو جگا دوں ناشتہ بنا لیں یہی سوچتے پھر سے آنکھ لگ گئی۔ 6 بجے اماں نے لائٹ آن کی تو میں بھی جاگ گئی۔
یہ سب تو میں نے مختصراً حال بتا یا ہے آ پ کو۔ اب آگے چلیے مجھے جو یہ لگ رہا تھا میں ٹھیک ہو گئی ہوں، تو میں نے سوچا نیند تو آنہیں رہی کیوں نا ذرا اماں کے ساتھ جا کے ہا تھ بٹا لیا جائے ۔ ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہوگئی تھی آرام کرکر کے لچک ہی ختم ہو گئی تھی۔ میں اٹھنے لگی تو میری گردن میں بل پڑ گیا ۔ اور میں اٹھ کے بیٹھی تو مجھے لگا کہ میرے اندر بہت سی زہریلی گیسیں جمع ہو گئی ہیں سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ قے آجاتی میں آہستہ سے کھڑی ہوئی اور چپل پہنی۔ دروازہ کھولا اور میرے ذہن کی بتیاں بجھنے لگ گئیں۔ اس سے پہلے کی سب ہی بتیاں بجھ جاتیں میں 6 قدم کا فاصلہ طے کیا اور واقع اندھیرا چھا گیا اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہو ئے اور اپنے حواسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش میں ، میں گر پڑی اور گرتے ہوئے آخری لفظ جو میرے منہ سے نکلا"امی"
امی کچن میں تھیں کہنے لگی کیا ہوا ؟
میں نے جواب نہیں دیا تو خود اٹھ کے آئیں مجھے گرا ہو ا دیکھ کے اٹھا یا ، کہنے لگی ایسے کیوں چلی آئی۔ خیر کوئی 1 منٹ کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں پانی کے نل کے قریب گئی۔ امی نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نےاشارے سے کہا قے آرہی ہے۔ اگلے ایک منٹ میں اسی کیفیت میں رہی کہ جیسے ابھی قے آجائے گی مگر میرے معدے میں پانی کے ایک بوند میں بھی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس لئے کہ میں نے رات کو کچھ کھا یا ہی نہیں تھا۔
اگلے لمحے میرا سارا جسم پسینےسے ایسے شرابور تھا جیسے جون جولائی میں بجلی کے چلے جانے پہ ہوتا ہے اور اس سے اگلہ لمحہ اِس سے بھی حیران کن تھا میں کھڑ ی ہوئی تو ایسے ٹھنڈی پڑ گئی جیسے برف کی سِل میں لگا دیا ہو یہاں تک کے میرے کانوں سے سردی نکل رہی تھی۔ جو بھی تھا بہت عجیب تھا۔ میں نے کُلی کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی کمرے میں اور بستر پہ لیٹ گئی۔
اب اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوا جارہا۔ دھوپ میں بیٹھتی ہوں تو گرمی لگتی چھاؤں میں بیٹھتی ہوں تو سردی لگتی ہے۔ سر ابھی بھی بہت بھاری ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں ابھی میں نے اتوار والے دن ہی دوست کو کہا تھا یار بخار ہی نہیں ہوتا بندہ ذرا خدمت ہی کروا لیتا ہے۔ !!!!!!
آج رات پھر کھانسی کو دورہ پڑا تھا 2 بجے تھے تب اماں بھی اٹھی تھیں میں نے اماں کو کہا مجھے بھی پانی لا دیں ۔ انہوں نے پانی لا دیا اور میں کھانسی کا شربت پیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ کبھی نیند آجاتی کبھی آنکھ کھل جاتی۔ اسی اثناٰ میں وقت دیکھا تو 5:27 ہو گئے تھے۔ سوچا اماں کو جگا دوں ناشتہ بنا لیں یہی سوچتے پھر سے آنکھ لگ گئی۔ 6 بجے اماں نے لائٹ آن کی تو میں بھی جاگ گئی۔
یہ سب تو میں نے مختصراً حال بتا یا ہے آ پ کو۔ اب آگے چلیے مجھے جو یہ لگ رہا تھا میں ٹھیک ہو گئی ہوں، تو میں نے سوچا نیند تو آنہیں رہی کیوں نا ذرا اماں کے ساتھ جا کے ہا تھ بٹا لیا جائے ۔ ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہوگئی تھی آرام کرکر کے لچک ہی ختم ہو گئی تھی۔ میں اٹھنے لگی تو میری گردن میں بل پڑ گیا ۔ اور میں اٹھ کے بیٹھی تو مجھے لگا کہ میرے اندر بہت سی زہریلی گیسیں جمع ہو گئی ہیں سانس لینا مشکل ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ قے آجاتی میں آہستہ سے کھڑی ہوئی اور چپل پہنی۔ دروازہ کھولا اور میرے ذہن کی بتیاں بجھنے لگ گئیں۔ اس سے پہلے کی سب ہی بتیاں بجھ جاتیں میں 6 قدم کا فاصلہ طے کیا اور واقع اندھیرا چھا گیا اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہو ئے اور اپنے حواسوں کو بحال کرنے کی ناکام کوشش میں ، میں گر پڑی اور گرتے ہوئے آخری لفظ جو میرے منہ سے نکلا"امی"
امی کچن میں تھیں کہنے لگی کیا ہوا ؟
میں نے جواب نہیں دیا تو خود اٹھ کے آئیں مجھے گرا ہو ا دیکھ کے اٹھا یا ، کہنے لگی ایسے کیوں چلی آئی۔ خیر کوئی 1 منٹ کے بعد میرے حواس بحال ہوئے تو میں پانی کے نل کے قریب گئی۔ امی نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نےاشارے سے کہا قے آرہی ہے۔ اگلے ایک منٹ میں اسی کیفیت میں رہی کہ جیسے ابھی قے آجائے گی مگر میرے معدے میں پانی کے ایک بوند میں بھی ہلچل نہیں ہوئی۔
اس لئے کہ میں نے رات کو کچھ کھا یا ہی نہیں تھا۔
اگلے لمحے میرا سارا جسم پسینےسے ایسے شرابور تھا جیسے جون جولائی میں بجلی کے چلے جانے پہ ہوتا ہے اور اس سے اگلہ لمحہ اِس سے بھی حیران کن تھا میں کھڑ ی ہوئی تو ایسے ٹھنڈی پڑ گئی جیسے برف کی سِل میں لگا دیا ہو یہاں تک کے میرے کانوں سے سردی نکل رہی تھی۔ جو بھی تھا بہت عجیب تھا۔ میں نے کُلی کی اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی کمرے میں اور بستر پہ لیٹ گئی۔
اب اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوا جارہا۔ دھوپ میں بیٹھتی ہوں تو گرمی لگتی چھاؤں میں بیٹھتی ہوں تو سردی لگتی ہے۔ سر ابھی بھی بہت بھاری ہے۔ اور میں سوچ رہی ہوں ابھی میں نے اتوار والے دن ہی دوست کو کہا تھا یار بخار ہی نہیں ہوتا بندہ ذرا خدمت ہی کروا لیتا ہے۔ !!!!!!