محمد شکیل خورشید
محفلین
وقت کی دھول میں اٹا ہوا تھا
کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا
گھر کے اندر نگاہ جاتی تھی
پردہ دروازے سے ہٹا ہوا تھا
وہ بھی یکسو نہ تھا محبت میں
دھیان میرا بھی کچھ بٹا ہوا تھا
دیکھتا تھا میں راستے گم ہیں
لوگ کہتے ہیں میں ڈٹا ہوا تھا
ظلمتِ شہر بڑھتی جاتی تھی
اور مرا حوصلہ گھٹا ہوا تھا
تیز تھی رخشِ عمر کی رفتار
ہاتھ بھی گام سے ہٹا ہوا تھا
زندگی اس سے مختلف تھی شکیل
ہم نے مکتب میں جو رٹا ہوا تھا
کینوس جا بجا پھٹا ہوا تھا
گھر کے اندر نگاہ جاتی تھی
پردہ دروازے سے ہٹا ہوا تھا
وہ بھی یکسو نہ تھا محبت میں
دھیان میرا بھی کچھ بٹا ہوا تھا
دیکھتا تھا میں راستے گم ہیں
لوگ کہتے ہیں میں ڈٹا ہوا تھا
ظلمتِ شہر بڑھتی جاتی تھی
اور مرا حوصلہ گھٹا ہوا تھا
تیز تھی رخشِ عمر کی رفتار
ہاتھ بھی گام سے ہٹا ہوا تھا
زندگی اس سے مختلف تھی شکیل
ہم نے مکتب میں جو رٹا ہوا تھا
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
اور دیگر اساتذہ و احباب کی توجہ کا طالب
آخری تدوین: