”مشرف الائنس“ بحال ہوگیا؟
عبداللہ طارق سہیل
شاید مقتدر حلقے اپنے خیال میں آخری اور فیصلہ کن معرکہ لڑنے والے ہیں، یہ خیال ہے کہ وہ فول پروف فتح حاصل کریں گے لیکن میدان جنگ تو مرضی کا بن ہی نہیں رہا۔
اسٹیبلشمنٹ اور’ سٹیٹس کو‘ کی حامی جماعتوں یعنی متحدہ اور قاف لیگ نے مولانائے ناگہانی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور پیپلزپارٹی در پردہ یعنی دامے اور درمے ساتھ دے رہی ہے ، سخنے کا خطرہ مول لینے کو وہ تیار نہیں، لے بھی نہیں سکتی کہ بری طرح ما ری جائے گی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کو جن دو اور جماعتوں پر تکیہ تھا اور تیسری کے بارے میں بڑی آس تھی، وہ کنّی کترا رہی ہیں۔ عظیم المیہ۔
زیر تکیہ جماعتوں میں ایک اے این پی ہے۔ وہ انتخابات ملتوی کرنے کی حمایت کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ دوسری زیر تکیہ تحریک انصاف ہے۔ نواز شریف کے جانی دشمن عمران خان نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے شیطان کا بوسہ بھی لے سکتے ہیں،یہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے ۔ باقی سب ٹھیک لیکن عمران خان امریکہ کے بھی دوست نہیں ہیں اس لئے وہ ایسے ایجنڈے کی حمایت کیسے کریں گے جو امریکہ نے بنایا اور اسٹیبلشمنٹ نے منظور کیا۔ پھر ان کا خیال ہے کہ الیکشن میں ان کی جماعت بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ وہ جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کے ایجنڈے میں ہاتھ بٹائیں گے تو ان کی عظیم کامیابی کا سورج ابھرنے سے پہلے ہی ڈوب جائے گا۔ تیسری جماعت جس پر آس تھی جے یو آئی ہے، مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کیخلاف اس کھلے اعلان جنگ کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر کے انقلابیوں کا تو دل ہی توڑ دیا۔
اب صف پر پھر نظر ڈالیں۔ حضرت مولانائے ناگہانی مشرف کے انتہائی حد تک عقیدت مند تھے ۔ اب نہیں رہے؟ ایسا کوئی اعلان اب تک نہیں چھپا جیسا کہ عمران خان چھاپ چکے کہ وہ مشرف کے حامی تھے، اب نہیں رہے۔ وہ اپنی غلطی مان چکے۔ متحدہ مشرف کی سخت گیر حامی تھی اور مشرف کے لئے اس نے ’’12مئی‘‘ بھی کیا۔ خود مشرف متحدہ کے غیر اعلانیہ رکن رہے یہاں تک کہ مشرف کے دور حکومت میں یہ بات عام تھی کہ موصوف جی ایچ کیو میں متحدہ کے سیکٹر کمانڈر ہیں۔ متحدہ نے بھی ایسا کوئی اعلان نہیں کیا کہ وہ اپنے اس سابق سیکٹر کمانڈر کے خلاف ہو گئی ہے۔ تیسری مشرفی جماعت قاف لیگ ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر مشرف بہ زرداری ہوئی۔ یہ وہی جماعت ہے جو مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے پر ایمان مجمل اور ایمان مفصل رکھتی تھی ۔ چنانچہ اب دیکھئے کہ مولانائے ناگہانی کی زیر قیادت ’’مشرف الائنس ‘‘ پھر سے بحال ہو گیا۔ پیپلزپارٹی پہلے بھی درپردہ مشرف کے ساتھ تھی آج بھی در پردہ اس الائنس کے ساتھ ہے کہ نئے انقلابی بندوبست میں اسے مزید 5سال کی صدارت ملنی ہے۔بس اقرار زبانی نہیں کررہی!
دوسری طرف ’’اینٹی مشرف نان الائیڈ الائنأ‘‘ میں مسلم لیگ ن ہے، جماعت اسلامی ہے، جے یو آئی کے دو گروپ ہیں، تحریک انصاف ہے، اے این پی ہے، ایم کیو ایم حقیقی ہے، سندھ اور بلوچستان کی ساری قوم پرست جماعتیں ہیں۔ خود فیصلہ کر لیجئے کون سا الائنس بڑا ہے۔ ’’مشرف الائنس‘‘ کی واحد برتری یہ ہے کہ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے۔
تیسری طرف غیر سیاسی اتحاد دفاع پاکستان کونسل ہے جو عوام کے بڑے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ بھی ’’مشرف الائنس‘‘ کا ساتھ دینے سے انکاری ہے۔ اس نے اسلام آباد کی طرف امن مارچ بھی ملتوی کردیا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک بڑا بحران پیدا ہو سکتا تھا ۔ وہی بحران جو امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور مشرف اتحاد کیلئے آب حیات ہو گا۔
چوتھی طرف عدلیہ ہے جو آئین کی بالا دستی پر ڈٹی ہوئی ہے اور آئین وہ لفظ ہے جسے سن کر مقتدر حلقوں کا دل دہلتا ہے۔
________________________
مشرف الائنس نے ملک میں خانہ جنگی کے ذریعے انتخابات ملتوی کرنے کا جو خواب دیکھا ہے، اس کی تعبیر نکلتی نظر نہیں آتی۔ تباہ کن حالات پیدا کر کے ملک کا شیرازہ منتشر کرنے کا منصوبہ اس نے جتنی آسانی سے بنا لیا ہے ، اس کا کامیاب ہونا شاید اتنا ہی مشکل ہے۔
مشرف الائنس کے مقاصد میں ایک بڑا منصوبہ یہ بھی ہے کہ نئے سال میں امریکہ افغانستان میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے ، وہ بے روک ٹوک کر سکے۔ خبر میں ہے کہ وہ اس سال انخلا چاہتا ہے لیکن ایسا انخلا کہ اس کے کہ اس کے دو یا تین فوجی اڈے برقرار رہیں اور طالبان کو مجبور کردیا جائے کہ وہ ان اڈوں کو مان لیں اور امریکی فوج کو محفوظ راستہ دے دیں۔ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں اور طالبان کی حکمت عملی کیا ہو گی، وہ الگ بحث ہے لیکن مزے کی بات نیوز ویک نے لکھی ہے۔کبھی 32لاکھ کی تعداد میں چھپنے والا یہ رسالہ اب کروڑوں ڈالر سالانہ کے خسارے کے بعد بند ہو گیا ہے، محض آن لائن(انٹرنیٹ) ایڈیشن جاری ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ امریکہ نے اپنی فوج نکال لی تو افغانستان20سال پہلے والی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ یعنی پھر سے طالبان کی حکومت بن جائے گی۔سارے افغانستان پر تو نہیں لیکن اسکے بیشتر علاقے پر ضرور۔
اب پوچھنے والی بات یہ ہے کہ کیا امریکہ20سال افغانستان میں جھک مارتا رہا۔ سوائے لاکھوں افراد کو ہلا ک کر دینے کے ، وہ منظر میں کچھ بھی تبدیلی کیوں نہیں لا سکا۔ یہ اس کی کامیابی ہے یا ناکامی۔اگر خون مسلم کی ارزانی مطلوب تھی تو وہ کامیاب رہا لیکن اگر مقصد تسخیر افغانستان تھا اور طالبان سے افغانوں کو نجات دلانا تو نیوز ویک نے بات واضح کردی۔ افغانستان آج بھی وہیں ہے جہاں 20سال پہلے تھا۔
امریکی منصوبہ بہرحال اس سے آگے کا ہے۔ وہ افغانستان سے نکل جائے گا اور شاید اسی سال نکل جائے گا لیکن ایسا منظر نامہ مکمل کر کے جائے گا کہ اس کے جاتے ہی افغانستان دو ملکوں میں بٹ جائے گا۔ پشتون ایک طرف ، غیر پشتون دوسری طرف، اور ایران اور بھارت کو یہاں خطرناک کھیل کھیلنے کے لئے چھوڑ جائے گا۔ افغانستان سے امریکہ کا انخلا پاکستان کے ’’احباب امریکہ‘‘ کے لئے بھی ڈراؤنا خواب ہے۔ خیر ،یہ الگ کہانی ہے ۔ جنرل حمید گل نے بالکل صحیح کہا ہے کہ امریکہ اسی سال افغانستان سے نکل جائے گا۔ لیکن جس پروگرام میں انہوں نے یہ بات کی۔ اسی میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے دعا کے لئے جو اپیل کی ہے وہ بھی بالکل درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام دعا کریں کہ اس سال پاکستان قائم رہے۔‘‘ اگر مقتدر حلقوں کو پاکستان پر رحم آ جائے تو دعا قبول ہونے کی کافی توقع کی جا سکتی ہے۔
اگرچہ رحم کی توقع کم ہے کہ یہ وہ محترم لوگ ہیں جو اپنے فائدوں کے لئے(اور امریکی فائدے کے لئے بھی) کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے بیان کو ایک بار پھر دیکھ لیجئے کہ جان بوجھ کر ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ ’’مداخلت‘‘ کا جواز مل سکے۔ اور باہر سے لوگ درآمد کئے جارہے ہیں جو انتخابات ملتوی کرانے کی فضا بنا سکیں۔ ساتھ ہی اس پر بھی غور کیجئے کہ کس طرح’’معجزاتی‘‘ طور پر دہشت گردانہ واقعات اب بلاناغہ بلکہ ایک دن میں دو دو بار ہونے لگے ہیں۔
بم دھماکے، بمباریاں، ٹارگٹ کلنگ ہر قسم کے ’’حالات‘‘ کی رفتار تیزہو گئی ہے۔قوم کو پانچ برسوں سے جو مار ماری جارہی تھی ، وہ اسی دن کے لئے ہی تو تھی کہ جب الیکشن ملتوی کئے جائیں تو کوئی احتجاج کرنے کیلئے اٹھ ہی نہ سکے لیکن ایک آپشن تو اس قوم کے پاس ایسی ہے جسے وہ چھین نہیں سکتے اور ع
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے !
(روزنامہ نئی بات۔ 3 جنوری 2012ء)