کیونکہ ابراہیم پر تو پھول برساتی ہے آگ غزل نمبر23 برائے تبصرہ و اصلاح شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب​
خود ہے جلتی اور اوروں کو بھی جلاتی ہے آگ
گیت ہر ساعت یہ مٹ جانے کے ہی گاتی ہے آگ

دیکھ کر یہ معجزہ نمرود کو حیرت ہوئی
کیونکہ ابراہیم پر تو پھول برساتی ہے آگ

سختیوں سے کوئی بھی حق بات دب سکتی نہیں
آندھیوں میں کس قدر بے باک ہو جاتی ہے آگ

دوستو بچنا حسد سے نیکیاں یہ کھائے یوں
جیسے سوکھی لکڑیوں کو پل بھر میں کھاتی ہے آگ

شعلہءحیات میں ہیں سارے رنگ خوشیاں اور غم
رات بھر جلتی رہے تو سارے رنگ لاتی ہے آگ

مٹی سے انساں بنے ہیں نور سے ملائکہ
جنات آتش سے بنے ہیں ان کی تو ذاتی ہے آگ

نہ ٹھوس نہ مائع ہے نہ یہ گیس تو پھر کیا ہے یہ
کیا چیز ہے شارؔق ہمیں یہ کتنا الجھاتی ہے آگ​
 

الف عین

لائبریرین
صرف تیسرا شعر بحر میں ہے، باقی دو چار مصرعے بھی درست ہیں یعنی اگر تیسرے شعر کی بحر قبول کی جائے جو فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہے
اب بس یہی اور کہنا باقی ہے ایک بار پھر کہ عروض کی شد بد حاصل کریں اور تقطیع سیکھ لیں
 
Top