امین شارق
محفلین
خود ہے جلتی اور اوروں کو بھی جلاتی ہے آگ
گیت ہر ساعت یہ مٹ جانے کے ہی گاتی ہے آگ
دیکھ کر یہ معجزہ نمرود کو حیرت ہوئی
کیونکہ ابراہیم پر تو پھول برساتی ہے آگ
سختیوں سے کوئی بھی حق بات دب سکتی نہیں
آندھیوں میں کس قدر بے باک ہو جاتی ہے آگ
دوستو بچنا حسد سے نیکیاں یہ کھائے یوں
جیسے سوکھی لکڑیوں کو پل بھر میں کھاتی ہے آگ
شعلہءحیات میں ہیں سارے رنگ خوشیاں اور غم
رات بھر جلتی رہے تو سارے رنگ لاتی ہے آگ
مٹی سے انساں بنے ہیں نور سے ملائکہ
جنات آتش سے بنے ہیں ان کی تو ذاتی ہے آگ
نہ ٹھوس نہ مائع ہے نہ یہ گیس تو پھر کیا ہے یہ
کیا چیز ہے شارؔق ہمیں یہ کتنا الجھاتی ہے آگ
گیت ہر ساعت یہ مٹ جانے کے ہی گاتی ہے آگ
دیکھ کر یہ معجزہ نمرود کو حیرت ہوئی
کیونکہ ابراہیم پر تو پھول برساتی ہے آگ
سختیوں سے کوئی بھی حق بات دب سکتی نہیں
آندھیوں میں کس قدر بے باک ہو جاتی ہے آگ
دوستو بچنا حسد سے نیکیاں یہ کھائے یوں
جیسے سوکھی لکڑیوں کو پل بھر میں کھاتی ہے آگ
شعلہءحیات میں ہیں سارے رنگ خوشیاں اور غم
رات بھر جلتی رہے تو سارے رنگ لاتی ہے آگ
مٹی سے انساں بنے ہیں نور سے ملائکہ
جنات آتش سے بنے ہیں ان کی تو ذاتی ہے آگ
نہ ٹھوس نہ مائع ہے نہ یہ گیس تو پھر کیا ہے یہ
کیا چیز ہے شارؔق ہمیں یہ کتنا الجھاتی ہے آگ