نوید ناظم
محفلین
کیوں اُس کو سمجھ میں یہ اشارے نہیں آتے
گر خُشک ہوں تالاب، پرندے نہیں آتے
سج دھج کے مِرے دل میں اُترتے ہو سرِ شام
ویران گھروں میں کبھی ایسے نہیں آتے!
اک ساتھ سبھی کچھ تو نہیں ملتا یہاں پر
پھل آئیں جو حِصّے میں تو سائے نہیں آتے
تاریخ نے بھی زور محبت پہ دیا ہے
یہ بات الگ مجھ کو حوالے نہیں آتے
بس کِھینچ کے لاتے ہیں تِرے کوچے سے خود کو
ہم تیری گلی سے کبھی چل کے نہیں آتے
یہ عشق جوانی کو نِگل جاتا ہے ورنہ
اس عُمر کے گھر سے جنازے نہیں آتے
اک بار پکاروں گا ضرور اُن کو نوید اب
کیا اِس سے غرض مجھ کو وہ آتے نہیں آتے
(نوید ناظم وٹو)
گر خُشک ہوں تالاب، پرندے نہیں آتے
سج دھج کے مِرے دل میں اُترتے ہو سرِ شام
ویران گھروں میں کبھی ایسے نہیں آتے!
اک ساتھ سبھی کچھ تو نہیں ملتا یہاں پر
پھل آئیں جو حِصّے میں تو سائے نہیں آتے
تاریخ نے بھی زور محبت پہ دیا ہے
یہ بات الگ مجھ کو حوالے نہیں آتے
بس کِھینچ کے لاتے ہیں تِرے کوچے سے خود کو
ہم تیری گلی سے کبھی چل کے نہیں آتے
یہ عشق جوانی کو نِگل جاتا ہے ورنہ
اس عُمر کے گھر سے جنازے نہیں آتے
اک بار پکاروں گا ضرور اُن کو نوید اب
کیا اِس سے غرض مجھ کو وہ آتے نہیں آتے
(نوید ناظم وٹو)