شکریہ حمید کہ یہاں بھی پوسٹ کر دی۔
پہلی بات تو یہ کہ زمین میں ہی حروف کا اسقاط خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتا۔ ’جاتِاب‘ کی وجہ سے۔
اس کے علاوہ مطلع میں ہی
اپنا چہرہ چھپا لے نہیں جاتے اب
میں محض قافیئے کی وجہ سے ’چھپا لے‘ کہا جا رہا ہے، ایسا کوئی محاورہ نہیں۔
عقل کی تھیں عمارت میں ویرانیاں
عقل کی ویرانیاں؟
کچھ گھروں سے اُٹھالے نہیں جاتے اب
وہی بات جو مطلع میں ہے، محاورے کے خلاف
=
ہے سزاآدمی کو طرب دائمی
جنتوں سے نکالے نہیں جاتے اب
سچ ہے اب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے
کیوں زبانوں سے تالے نہیں جاتے اب
دونوں شعر دو لخت ہیں۔ مفہوم برامد نہیں ہوتا۔
لوگوں سے بچے پالے نہیں جاتے اب
تقطیع ہوتا ہے
لوگ سے بچچ پالے۔۔