فرخ منظور
لائبریرین
اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ مرے بالیں سے کہ دم رکتا ہے
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں؟
سخت مشکل ہے کہ ہر بات کنایہ سمجھو
ہے زباں میرے بھی، گفتار کروں یا نہ کروں؟
موسمِ گُل ہے ، میں صیّاد سے جا کر یارو
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں؟
حال باطن کا نمایاں ہے مرے ظاہر سے
میں زباں اپنی سے اظہار کروں یا نہ کروں؟
عہد تھا تجھ سے تو پھر عمر وفا کرنے کا
اِن سلوکوں پہ، جفا کار، کروں یا نہ کروں؟
کوچۂ یار کو میں، رشکِ چمن، اے سودا
جا کے بادیدۂ خوں بار کروں یا نہ کروں؟
(مرزا رفیع سودا)
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ مرے بالیں سے کہ دم رکتا ہے
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں؟
سخت مشکل ہے کہ ہر بات کنایہ سمجھو
ہے زباں میرے بھی، گفتار کروں یا نہ کروں؟
موسمِ گُل ہے ، میں صیّاد سے جا کر یارو
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں؟
حال باطن کا نمایاں ہے مرے ظاہر سے
میں زباں اپنی سے اظہار کروں یا نہ کروں؟
عہد تھا تجھ سے تو پھر عمر وفا کرنے کا
اِن سلوکوں پہ، جفا کار، کروں یا نہ کروں؟
کوچۂ یار کو میں، رشکِ چمن، اے سودا
جا کے بادیدۂ خوں بار کروں یا نہ کروں؟
(مرزا رفیع سودا)