طارق شاہ
محفلین
غزل
کیوں نہ سرسبز ہو ہماری غزل
خُونِ دِل سے لِکھی ہے ساری غزل
جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے!
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل
سالہا سال رنج کھینچے ہیں
مَیں نے شیشے میں جب اُتاری غزل
جب بھی غُربت میں دِل اُداس ہُوا
مَیں تِرے ساتھ ہُوں، پُکاری غزل
دَمِ تخلیق پچھلی راتوں کو
یُوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ طاری غزل
عہدِ رفتہ کے شاعرانِ کرام
سب سُناتے ہیں باری باری غزل
تہِ ہر لفظ شہر ہے آباد!
مرجعِ خلق ہے ہماری غزل
سفرِ خامہ طے ہُوا ناصؔر!
تھک گئے ہم، مگر نہ ہاری غزل
ناصؔر کاظمی