نورالحسن جوئیہ
محفلین
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہاہو پہلی بار سمندر
آج نہ جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کا صدقہ
مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر
جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں
میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر
جتنی آسانی سے میں نے تجھ کو پار کیا ہے
کیا تو کر سکتا ہے ایسے مجھ کو پار سمندر
اک بحرِمردار کی صرت اور اک بحر الکاہل
میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر
میں سیراب کروں صحراؤ! میری آنکھ میں آؤ
پیاس تمہاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر
رانا سعید دوشی
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہاہو پہلی بار سمندر
آج نہ جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کا صدقہ
مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر
جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں
میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر
جتنی آسانی سے میں نے تجھ کو پار کیا ہے
کیا تو کر سکتا ہے ایسے مجھ کو پار سمندر
اک بحرِمردار کی صرت اور اک بحر الکاہل
میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر
میں سیراب کروں صحراؤ! میری آنکھ میں آؤ
پیاس تمہاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر
رانا سعید دوشی