طارق شاہ
محفلین
غزلِ
اسدالله خاں غالب
کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسَا کہتے ہیں؟
اور پھر کون سے نالے کو رسَا کہتے ہیں؟
ہے پرے سرحدِ ادراک سے، اپنا مسجود
قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں
قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گیا کہتے ہیں
خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گیا کہتے ہیں
اِک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائیگا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں
دیکھیے، لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں
مرزا غالب