محمداحمد
لائبریرین
پاکستان میں بجلی خریدنے والے صارفین ایک مدت سے ناجائز بلنگ کی زد میں ہیں۔ بالخصوص کراچی الیکٹرک نے ہر طرح کی ناجائز بلنگ کو رواج دیا ہوا ہے۔ ذیل میں کچھ تفصیل درج کی جا رہی ہے۔
نرخ سلیب کے اعتبار سے:
کے الیکٹرک نے نرخ سلیب کے حساب سے رکھے ہوئے ہیں۔ سو یونٹ والوں کے لئے کچھ ریٹ ہے، دو سو والوں کے لئے کچھ اور تین سو والو ں کے لئے کچھ۔پھر ان سلیب میں معمولی فرق نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ فرق ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے 200 یونٹ کابل آیا تو وہ 5 ہزار کا بنے گا اور اگر 201 کا آیا تو 9000 ہزار کا بنے گا۔ اور اسی طرح سے سلیب تبدیل ہونے پر آپ کا بل کم و بیش ڈبل ہو جاتا ہے۔
یعنی ایک سموسہ دس کا، دو 28کے، تین سموے 50روپے کے۔
پروٹیکٹڈ نرخ:
اگر آپ کا پچھلے ماہ کا بل 220 یونٹ کا تھا تو آپ کو 300 یونٹ والے چارجز لگے ہوں گے۔ لیکن اگر اس ماہ آپ کا بل 200 یونٹ کا بنے تو آپ کو بل دو سو یونٹ کا نہیں آئے گا بلکہ اسی ریٹ پر آپ کو بل ادا کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ جب تک آپ کا بل چھ ماہ تک 200 یونٹ یا اس سے کم نہ رہے تب تک آپ کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ کا بل چھ ماہ تک 200 یونٹ تک رہا تو پھر آپ کو پروٹیکٹڈ ریٹ لگے گا۔ لیکن ایک ماہ بھی آپ کا بل 200 سے اوپر ہو گیا تو اب آپ پھر چھ ماہ تک اسی سولی پر لٹکے رہیں گے۔
فیول ایڈجسٹمنٹ:
فیول ایڈجسٹمنٹ کا مطلب ہے کہ اگر کے الیکٹرک نے ہماری بجلی بنانے کے لئے تخمینے سے زیادہ ایندھن خرچ کر دیا تو وہ ہم سے لے لیں گے اور اگر تخمینے سے کم خرچ کیا تو ہمیں واپس دے دیں گے۔ لیکن واپسی کی نوبت بہت کم ہی آتی ہے۔ جیسے اگر آپ مٹھائی والے کی دوکان کے پاس سے گزریں تو وہ آپ کو کہے کہ کل جو آپ سموسے لے گئے تھے اُن پر ہماری کاسٹ تخمینے سے زیادہ آئی تھی اس لئے اب اتنے اتنے پیسے اور دے دیجے۔
ٹیکسز:
بجلی کے بل ٹیکس جمع کرنے کا بہترین ٹول ہیں۔ پاکستان میں نہ جانے کتنے قسم کے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور اُن میں سے کئی ایک بجلی کے بل میں وصول کر لیے جاتے ہیں۔ اتنے بہتات سے ٹیکس دینے کے باوجود ٹیکس دینے والوں کو حکومت کوئی سہولت نہیں دینا چاہتی۔
نرخ میں آئے روز کی بڑھوتری:
بجلی کے یہ نرخ جامد نہیں رہتے بلکہ کم و بیش ہر ماہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور نیپرا جو ان کمپنیز کو مانیٹر کرنے کے لئے بنائی گئی تھی وہ ان کمپنیز کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتی ہے۔
کسی زمانے میں اوگرا نیپر ا پیمرا وغیرہ خود کار ادارے تھے لیکن نواز شریف صاحب نے ان اداروں کو وزارتوں کے تحت کر دیا۔ یعنی یہ ادارے جتنے بھی ظالمانہ کام کرتے ہیں وہ حکومت کی مرضی بلکہ ہدایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
سیاسی نعرے بازی اپنی جگہ لیکن پاکستان کے تمام تر ایوانوں میں عوام کا حقیقی نمائندہ کوئی بھی نہیں ہے۔
محفل انتظامیہ سے درخواست: اگر اس پوسٹ کا زمرہ مناسب نہیں ہے تو براہِ کرم اسے حذف نہ کریں بلکہ متعلقہ زمرے میں منتقل کر دیں۔
نرخ سلیب کے اعتبار سے:
کے الیکٹرک نے نرخ سلیب کے حساب سے رکھے ہوئے ہیں۔ سو یونٹ والوں کے لئے کچھ ریٹ ہے، دو سو والوں کے لئے کچھ اور تین سو والو ں کے لئے کچھ۔پھر ان سلیب میں معمولی فرق نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ فرق ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے 200 یونٹ کابل آیا تو وہ 5 ہزار کا بنے گا اور اگر 201 کا آیا تو 9000 ہزار کا بنے گا۔ اور اسی طرح سے سلیب تبدیل ہونے پر آپ کا بل کم و بیش ڈبل ہو جاتا ہے۔
یعنی ایک سموسہ دس کا، دو 28کے، تین سموے 50روپے کے۔
پروٹیکٹڈ نرخ:
اگر آپ کا پچھلے ماہ کا بل 220 یونٹ کا تھا تو آپ کو 300 یونٹ والے چارجز لگے ہوں گے۔ لیکن اگر اس ماہ آپ کا بل 200 یونٹ کا بنے تو آپ کو بل دو سو یونٹ کا نہیں آئے گا بلکہ اسی ریٹ پر آپ کو بل ادا کرنا ہوگا۔ حتیٰ کہ جب تک آپ کا بل چھ ماہ تک 200 یونٹ یا اس سے کم نہ رہے تب تک آپ کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ کا بل چھ ماہ تک 200 یونٹ تک رہا تو پھر آپ کو پروٹیکٹڈ ریٹ لگے گا۔ لیکن ایک ماہ بھی آپ کا بل 200 سے اوپر ہو گیا تو اب آپ پھر چھ ماہ تک اسی سولی پر لٹکے رہیں گے۔
فیول ایڈجسٹمنٹ:
فیول ایڈجسٹمنٹ کا مطلب ہے کہ اگر کے الیکٹرک نے ہماری بجلی بنانے کے لئے تخمینے سے زیادہ ایندھن خرچ کر دیا تو وہ ہم سے لے لیں گے اور اگر تخمینے سے کم خرچ کیا تو ہمیں واپس دے دیں گے۔ لیکن واپسی کی نوبت بہت کم ہی آتی ہے۔ جیسے اگر آپ مٹھائی والے کی دوکان کے پاس سے گزریں تو وہ آپ کو کہے کہ کل جو آپ سموسے لے گئے تھے اُن پر ہماری کاسٹ تخمینے سے زیادہ آئی تھی اس لئے اب اتنے اتنے پیسے اور دے دیجے۔
ٹیکسز:
بجلی کے بل ٹیکس جمع کرنے کا بہترین ٹول ہیں۔ پاکستان میں نہ جانے کتنے قسم کے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور اُن میں سے کئی ایک بجلی کے بل میں وصول کر لیے جاتے ہیں۔ اتنے بہتات سے ٹیکس دینے کے باوجود ٹیکس دینے والوں کو حکومت کوئی سہولت نہیں دینا چاہتی۔
نرخ میں آئے روز کی بڑھوتری:
بجلی کے یہ نرخ جامد نہیں رہتے بلکہ کم و بیش ہر ماہ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور نیپرا جو ان کمپنیز کو مانیٹر کرنے کے لئے بنائی گئی تھی وہ ان کمپنیز کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتی ہے۔
کسی زمانے میں اوگرا نیپر ا پیمرا وغیرہ خود کار ادارے تھے لیکن نواز شریف صاحب نے ان اداروں کو وزارتوں کے تحت کر دیا۔ یعنی یہ ادارے جتنے بھی ظالمانہ کام کرتے ہیں وہ حکومت کی مرضی بلکہ ہدایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
سیاسی نعرے بازی اپنی جگہ لیکن پاکستان کے تمام تر ایوانوں میں عوام کا حقیقی نمائندہ کوئی بھی نہیں ہے۔
محفل انتظامیہ سے درخواست: اگر اس پوسٹ کا زمرہ مناسب نہیں ہے تو براہِ کرم اسے حذف نہ کریں بلکہ متعلقہ زمرے میں منتقل کر دیں۔
آخری تدوین: