سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
وہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے
اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے
وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے
کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجب سی ایک خلش اب اس انتظار میں ہے
فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے
بدل گیا تو اسے حق ہے وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے
نئی کلی کوئی میرےچمن میں کیا کھلتی
گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے
شکریہ
وہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے
اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے
وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے
کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجب سی ایک خلش اب اس انتظار میں ہے
فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے
بدل گیا تو اسے حق ہے وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے
نئی کلی کوئی میرےچمن میں کیا کھلتی
گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے
شکریہ