گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے

سر الف عین سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


وہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے

اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے

وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے

کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجب سی ایک خلش اب اس انتظار میں ہے

فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے

بدل گیا تو اسے حق ہے وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے

نئی کلی کوئی میرےچمن میں کیا کھلتی
گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے

شکریہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں لیکن غزل کے لیے مطلع کمزور ہے دونوں مصرع ایک تخیل کو نہیں پہنچ رہے ۔یعنی دو لختگی کی سی کیفیت ہے۔
عجب سی ایک خلش اب اس انتظار میں ہے
عجب کے ساتھ سی نہیں لگتا عجیب کے ساتھ لگ سکتا ہے ۔ اسے صرف عجیب کردیں اور سی کی ضرورت نہیں رہے گی ۔
فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
سانس کو مونث باندھنا عام ہے مگر مجھے تو عجیب سا ہی لگتا ہے ۔ جیسے دہی :) بہرحال یہ آپ کا اختیار ہے ۔
بدل گیا تو اسے حق ہے وہ بدل جائے
یہ اسلوب کچھ مناسب نہیں ۔ جب ماضی میں "وہ بدل گیا" تو کہیں کہ "اسے حق تھا کہ وہ بدل جائے" ۔
گئی رتوں کا ہراک سوگ تو بہار میں ہے
اس مصرع کا بیان پہلے مصرع سے اچھی طرح پیوستہ نہیں ۔ تو کی وجہ سے لفظی بندش چست نہیں لگی ۔

اگر چہ یہ سب نکات زیادہ شدید بھی نہیں لیکن بہر حال غزل کی مجموعی بنَت اچھی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ آخری شعر میں 'تو' کی وجہ سے شعر کی روانی بھی متاثر ہے اور یہ شعر بھی واضح نہیں۔ کیا سوگ کو گنا بھی جا سکتا ہے جو ہر اک سوگ کہا جائے؟
 
مزید یہ کہ آخری شعر میں 'تو' کی وجہ سے شعر کی روانی بھی متاثر ہے اور یہ شعر بھی واضح نہیں۔ کیا سوگ کو گنا بھی جا سکتا ہے جو ہر اک سوگ کہا جائے؟

نہیں ہے غم کہ مرا جسم جو غبار میں ہے
میں خوش ہوں روح تو گرداں دیارِ یار میں ہے

ہیں بجھ گئے مری امید کے چراغ سبھی
کہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے

جچی نہ بات کسی کی سماعتوں کو مری
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے

متاعِ عشق ہے کیا ، سسکیاں یا کچھ آہیں
یہی تو سودوزیاں دل کے کاروبار میں ہے

اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے

وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے

کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجیب ایک خلش اب اس انتظار میں ہے

فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے

بدل گیا اسے حق تھا کہ وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے

نئی کلی کوئی دل کےچمن میں کیا کھلتی
خزاں کا رنگ جو شامل ابھی بہار میں ہے


سر دوبارہ نظر ثانی فرما دیجیئے چند اشعار مزید شامل بھی کئیے ہیں
 
نہیں ہے غم کہ مرا جسم جو غبار میں ہے
میں خوش ہوں روح تو گرداں دیارِ یار میں ہے

ہیں بجھ گئے مری امید کے چراغ سبھی
کہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے

جچی نہ بات کسی کی سماعتوں کو مری
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے

متاعِ عشق ہے کیا ، سسکیاں یا کچھ آہیں
یہی تو سودوزیاں دل کے کاروبار میں ہے

اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے

وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے

کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجیب ایک خلش اب اس انتظار میں ہے

فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے

بدل گیا اسے حق تھا کہ وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے

نئی کلی کوئی دل کےچمن میں کیا کھلتی
خزاں کا رنگ جو شامل ابھی بہار میں ہے


سر دوبارہ نظر ثانی فرما دیجیئے چند اشعار مزید شامل بھی کئیے ہیں

سر الف عین ، سید عاطف علی
 
اچھے اشعار ہیں لیکن غزل کے لیے مطلع کمزور ہے دونوں مصرع ایک تخیل کو نہیں پہنچ رہے ۔یعنی دو لختگی کی سی کیفیت ہے۔

عجب کے ساتھ سی نہیں لگتا عجیب کے ساتھ لگ سکتا ہے ۔ اسے صرف عجیب کردیں اور سی کی ضرورت نہیں رہے گی ۔

سانس کو مونث باندھنا عام ہے مگر مجھے تو عجیب سا ہی لگتا ہے ۔ جیسے دہی :) بہرحال یہ آپ کا اختیار ہے ۔

یہ اسلوب کچھ مناسب نہیں ۔ جب ماضی میں "وہ بدل گیا" تو کہیں کہ "اسے حق تھا کہ وہ بدل جائے" ۔

اس مصرع کا بیان پہلے مصرع سے اچھی طرح پیوستہ نہیں ۔ تو کی وجہ سے لفظی بندش چست نہیں لگی ۔

اگر چہ یہ سب نکات زیادہ شدید بھی نہیں لیکن بہر حال غزل کی مجموعی بنَت اچھی ہے ۔

نہیں ہے غم کہ مرا جسم جو غبار میں ہے
میں خوش ہوں روح تو گرداں دیارِ یار میں ہے

ہیں بجھ گئے مری امید کے چراغ سبھی
کہ بے رخی سی ہمیشہ ترے شعار میں ہے

جچی نہ بات کسی کی سماعتوں کو مری
کہ تیراحسنِ تکلم مری پکار میں ہے

متاعِ عشق ہے کیا ، سسکیاں یا کچھ آہیں
یہی تو سودوزیاں دل کے کاروبار میں ہے

اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
مرا وجود ترے وصل کے خمار میں ہے

وہ جس کے قرب میں جینا ہوا ہے ناممکن
اسی کی راہ میں مٹنا تو اختیار میں ہے

کرے نیا کوئی وعدہ وہ مجھ سے آنے کا
عجیب ایک خلش اب اس انتظار میں ہے

فراقِ یار سے جب بند ہو گئیں سانسیں
تو لوگ سمجھے کہ بیمار اب قرار میں ہے

بدل گیا اسے حق تھا کہ وہ بدل جائے
مگر تڑپ وہی میرے تنِ فگار میں ہے

نئی کلی کوئی دل کےچمن میں کیا کھلتی
خزاں کا رنگ جو شامل ابھی بہار میں ہے


سر دوبارہ نظر ثانی فرما دیجیئے چند اشعار مزید شامل بھی کئیے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہیں بجھ گئے مری امید کے چراغ سبھی
ہیں بجھ گئے ۔ کی بجائے ۔بجھے ہیں۔ استعمال کر لیں ۔ جیسے ۔بجھے ہیں میری امیدوں کے یہ چراغ سبھی۔وغیرہ۔
جچی نہ بات کسی کی سماعتوں کو مری
سماعتوں کو ۔ کی بجائے سماعتوں پہ یا سماعتوں میں ہو تو بہتر ہو۔
اگرچہ ہجرِ مسلسل ہے پھر بھی ایسا لگے
ایسا لگے کی جگہ لگتا ہے بہتر ہو گا (اگرچہ وہ بھی ٹھیک ہے ، لیکن غزل کے لہجے اور فضا کے لحاظ سے) ۔
 
ہیں بجھ گئے ۔ کی بجائے ۔بجھے ہیں۔ استعمال کر لیں ۔ جیسے ۔بجھے ہیں میری امیدوں کے یہ چراغ سبھی۔وغیرہ۔

سماعتوں کو ۔ کی بجائے سماعتوں پہ یا سماعتوں میں ہو تو بہتر ہو۔

ایسا لگے کی جگہ لگتا ہے بہتر ہو گا (اگرچہ وہ بھی ٹھیک ہے ، لیکن غزل کے لہجے اور فضا کے لحاظ سے) ۔
بہت شکریہ عاطف بھائی
 
Top