آہ ہا۔۔۔!! جس پہ بیتتی ہے وہی جانتا ہے اور لوگ اسے دقیانوس کہتے رہتے ہیںوہ گاؤں کا اک غریب دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جو اس کے بچے شہر کو جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے!
احمد سلمان
بے شکآج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے
گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
معراج فیض آبادی
بہت حد تک درست ہے، گو کہ اب شہروں کی وبا گاؤں میں بھی پہنچنا شروع ہو گئی ہے مگر اب بھی وہی ماحول باقی ہے، کچھ حد تک روایات بھی زندہ ہیں۔ آج بھی گھر میں جو پکتا ہے وہ آس پاس کے گھروں میں ضرور بھجوایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی کو اپنا سمجھ کر بانٹا جاتا ہے۔بے شک
ہمارے دیہاتوں میں اچھی روایات قدریں ابھی باقی ہیں