خرم زکی
محفلین
مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کل میرے ساتھ کیا ہوگا کیونکہ میں طالبان کے حراست میں ہوں اور صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں حکومت کے حمایتی امن لشکر کا رکن بنا تھا۔ اب میرے لیے صرف دُعا کریں۔‘
یہ الفاظ ہیں طالبان کے قبضے میں ایک امن لشکر کے رضاکار گل محمد بیٹنی کے جن کا رابط طالبان شدت پسندوں نے ٹیلفون پر بی بی سی کے ساتھ کرایا۔
بات چیت کے دوران ان کے آس پاس سے کچھ شور آرہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس دس مُسلح طالبان موجود ہیں۔گل محمد نے بتایا کہ آدھی رات کو وہ گہری نیند سو رہے تھے کہ اچانک مُسلح طالبان ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کو زبردستی پکڑ کر باہر موجود گاڑی کی طرف لے گئے ۔ ان کے بچے رونے کے سوا کُچھ نہ کرسکے۔
گل محمد ولد سورانی اور ان کے گاؤں کے امن لشکر کے تین اور رضاکار عبدالوہاب ولد سعید خان، مختیار ولد غلام علی اور رحمان ولد آستی خان کو تین ہفتے پہلے ضلع ٹانک کے نواحی گاؤں عمرآڈہ کے علاقے نعمت خیل سے مُسلح شدت پسندوں نے اپنے گھروں سے اغواء کیا تھا۔
گل محمد کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے حکومت نے طالبان کے خلاف ایک لشکر بنایا تھا۔ حکومت نے کہا تھا کہ جو لوگ طالبان کے خلاف لشکر میں شامل ہوں گے ان کو ہر قسم کی مراعات اور نوکریاں دی جائیں گی۔ چونکہ وہ ایک غریب شخص ہے اس لیے وہ نوکری کی تلاش میں طالبان کے خلاف لشکر کا حصہ بننے پرمجبور ہو گئے تھے۔
مغوی رضا کار نے کہا کہ وہ خود ایک قبائلی سردار نہیں ہیں البتہ ان کا چچا زاد بھائی پشم خان ان کے گاؤں کا ملِک ہے جو طالبان کے خلاف لشکر میں پیش پیش ہیں۔گل محمد کے مطابق پشم خان نے طالبان کے خوف سے اپنا گاؤں چھوڑ دیا ہے اور وہ اپنے خاندان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے ہیں۔
گل محمد نے اپنے اغواء کا منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کےگھر میں پندرہ مُسلح طالبان داخل ہوئے تھے جبکہ عین اس وقت گاؤں کے تین اور گھروں سے بھی ایک ایک رضاکار کو پکڑ کر لے آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کو اغواء کرتے ہوئے گاؤں والوں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی حکومت نے ان کے بچانے کے لیے کوئی کارروائی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بغیر کسی خوف کے ان کو گاڑی میں بٹھایا گیا اور آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد ایک نامعلوم مقام پر پہنچا دیا۔ ’اب چاروں کو ایک بند کمرے میں رکھا گیا ہے۔ کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔‘
مغوی گل محمد نے بتایا کہ اگرچہ طالبان ان کو صحیح خوراک فراہم کر رہے ہیں لیکن ان کی زندگی خطرے میں ہیں کیونکہ طالبان نے ان کی رہائی کے لیے حکومت کے سامنے کچھ مطالبات پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت ان کے مطالبات کو مان لے گی۔
مغوی گل محمد کے مطابق ان کا بیٹا اور ایک بیٹی ہے جو ان کو بُہت زیادہ یاد آتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان حلقہ بیٹنی کے کمانڈر شاہین بیٹنی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کے سامنے کچھ مطالبات پیش رکھے ہیں اور ان مطالبان کو پورا کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے بھی اسی گاؤں سے پندرہ امن لشکر کے رضاکاروں کو اغواء کیاگیا تھا اور بعد میں تمام کے تمام کو قتل کرکے ان کے لاشوں کو جنڈولہ کے قریب پھینک دی تھیں۔
ربط بی بی سی اردو
یہ الفاظ ہیں طالبان کے قبضے میں ایک امن لشکر کے رضاکار گل محمد بیٹنی کے جن کا رابط طالبان شدت پسندوں نے ٹیلفون پر بی بی سی کے ساتھ کرایا۔
بات چیت کے دوران ان کے آس پاس سے کچھ شور آرہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس دس مُسلح طالبان موجود ہیں۔گل محمد نے بتایا کہ آدھی رات کو وہ گہری نیند سو رہے تھے کہ اچانک مُسلح طالبان ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کو زبردستی پکڑ کر باہر موجود گاڑی کی طرف لے گئے ۔ ان کے بچے رونے کے سوا کُچھ نہ کرسکے۔
گل محمد ولد سورانی اور ان کے گاؤں کے امن لشکر کے تین اور رضاکار عبدالوہاب ولد سعید خان، مختیار ولد غلام علی اور رحمان ولد آستی خان کو تین ہفتے پہلے ضلع ٹانک کے نواحی گاؤں عمرآڈہ کے علاقے نعمت خیل سے مُسلح شدت پسندوں نے اپنے گھروں سے اغواء کیا تھا۔
گل محمد کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے حکومت نے طالبان کے خلاف ایک لشکر بنایا تھا۔ حکومت نے کہا تھا کہ جو لوگ طالبان کے خلاف لشکر میں شامل ہوں گے ان کو ہر قسم کی مراعات اور نوکریاں دی جائیں گی۔ چونکہ وہ ایک غریب شخص ہے اس لیے وہ نوکری کی تلاش میں طالبان کے خلاف لشکر کا حصہ بننے پرمجبور ہو گئے تھے۔
مغوی رضا کار نے کہا کہ وہ خود ایک قبائلی سردار نہیں ہیں البتہ ان کا چچا زاد بھائی پشم خان ان کے گاؤں کا ملِک ہے جو طالبان کے خلاف لشکر میں پیش پیش ہیں۔گل محمد کے مطابق پشم خان نے طالبان کے خوف سے اپنا گاؤں چھوڑ دیا ہے اور وہ اپنے خاندان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوگئے ہیں۔
گل محمد نے اپنے اغواء کا منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کےگھر میں پندرہ مُسلح طالبان داخل ہوئے تھے جبکہ عین اس وقت گاؤں کے تین اور گھروں سے بھی ایک ایک رضاکار کو پکڑ کر لے آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کو اغواء کرتے ہوئے گاؤں والوں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی حکومت نے ان کے بچانے کے لیے کوئی کارروائی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بغیر کسی خوف کے ان کو گاڑی میں بٹھایا گیا اور آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد ایک نامعلوم مقام پر پہنچا دیا۔ ’اب چاروں کو ایک بند کمرے میں رکھا گیا ہے۔ کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔‘
مغوی گل محمد نے بتایا کہ اگرچہ طالبان ان کو صحیح خوراک فراہم کر رہے ہیں لیکن ان کی زندگی خطرے میں ہیں کیونکہ طالبان نے ان کی رہائی کے لیے حکومت کے سامنے کچھ مطالبات پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ حکومت ان کے مطالبات کو مان لے گی۔
مغوی گل محمد کے مطابق ان کا بیٹا اور ایک بیٹی ہے جو ان کو بُہت زیادہ یاد آتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان حلقہ بیٹنی کے کمانڈر شاہین بیٹنی نے بتایا کہ انہوں نے حکومت کے سامنے کچھ مطالبات پیش رکھے ہیں اور ان مطالبان کو پورا کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ پہلے بھی اسی گاؤں سے پندرہ امن لشکر کے رضاکاروں کو اغواء کیاگیا تھا اور بعد میں تمام کے تمام کو قتل کرکے ان کے لاشوں کو جنڈولہ کے قریب پھینک دی تھیں۔
ربط بی بی سی اردو