گاہے گاہے کی رسائی دی تمھیں مژگاں تلک

نمرہ

محفلین
گاہے گاہے کی رسائی دی تمھیں مژگاں تلک
تم مگر آنے لگے ہو اب کے دشت جاں تلک


روز محشر بھی ادب آداب ہوں گے عشق کے
ہاتھ میرا کب پہنچ پائے گا اس داماں تلک


دل سے رخصت کے سمے چپ چاپ ہم دیکھا کیے
ایک قطرہ خوں نہ آیا دیدہء ویراں تلک

ایک مہجوری سی مہجوری کہ ربط باہمی
عشق کی کٹیا سے لے کر حسن کے ایواں تلک

کیا حقیقت کی تجلی ہو تو کیا سچ کا ظہور
تم جو آ کے رک گئی ہو پردہ امکاں تلک
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
اکا دکا الفاظ کا مطلب بھی نہیں پتا لیکن بہت ہی کلاسیکل سی شاعری ہے۔ بہت خوب:)

کیا حقیقت کی تجلی ہو تو کیا سچ کا ظہور
تم جو آ کے رک گئی ہو پردہ امکاں تلک

تین سے چار بار پڑھا تو ماسا کوئی سمجھ آ ہی گیا لیکن آخری شعر پر آکر پھر اٹک سا گیا ہوں۔

پہلے چار اشعار پڑھ کر یہ گمان نہیں ہوتا کہ مخاطب مذکر ہے یا مونث، یا پھر یہ اسی انداز میں لکھے گئے جیسے سن صفر کے اردو شعراء وغیرہ لکھا کرتے تھے۔ مثلاً

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

لیکن آخری شعر سے لگتا ہے یا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مخاطب مونث ہے۔ کیا یہ میری سمجھ کا فرق ہے اور اگر ایسا ہے بھی تو کیا اس سے شاعری کی صحت وغیرہ کو کوئی فرق پڑتا ہے ؟:)
 
Top