بہت ہی افسوسناک سانحہ،
ہم جتنے دکھ کا اظہار کر لیں پر اس دکھ کی کسی بھی طرح ترجمانی نہیں کر سکتے جو دکھ ان بچوں کے گھر والوں پر گزر رہا ہوگا۔ ایک گھر کے چار بچے یا اللہ اس گھر پہ بیتی کیا ہو گی۔ اللہ ان کو صبر اور استقامت عطا فرمائے، ان کے غم کا مداوا کرے آمین۔
میں اس سارے معاملے میں صرف اور صرف ایک اینڈ کو قصور وار ٹھہراتا ہوں، نہ ڈرائیور، نہ ماں باپ، نہ اسکول والے بلکہ قصور وار صرف اور صرف حکمران ہیں اس سانحے کے جس اینگل سے بھی دیکھ لیں۔
سی این جی اور پیٹرول کا بحران، اچھی اچھی گاڑیوں والوں کو بیک رکھتے دیکھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ کوئی پتہ نہیں سی این جی کا بھی اور ایسا بھی نہیں کہ ہر جگہ سے پیٹرول بھی بہت آسانی سے مل جائے گا اس کے لیے بھی قطاریں دیکھی گئی ہیں۔ سی این جی کی بندش کی وجہ سے ڈرائیور لالچ کے مارے اپنے ساتھ پیٹرول رکھتے ہیں تاکہ آخری دم تک سی این جی چل سکے اور جب ختم ہو تو پیٹرول کا کین پائپ سے لگا دیں۔
پھر کوئی مؤثر نظام ہی نہیں ایسی خلاف ورزیوں کو کنٹرول کرنے کا اور چیک کرنے کا۔ سلنڈر ٹیسٹنگ اور سرٹیفیکیشن کا نظام بھی انتہائی بونگا ہے۔ آج تک نہیں دیکھا کہ یہ سلنڈر ریجیکٹ ہونے کے بعد سکریپ کر دیے گئے ہیں بلکہ یا تو ریجیکٹ ہی نہیں ہوتے یا پھر دوبارہ ٹیپ ٹاپ کے بعد وہی سلنڈر استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔
پھر نا تو سیٹ بیلٹس اور نہ ہی فائر اسٹنگویئشرز کی موجودگی ممکن بنانے کے لیے کوئی قانون سازی ہے یا کوئی چیک یا نگرانی ہے۔ سب بکواس ہے ان کے اپنے اداروں میں تین تین سال سے ایکسپائر فائر اسٹنگوئیشر رکھے ہوئے ہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ جب استعمال ہی نہیں ہونے تو رکھنے یا ری فِل کروانے کا کیا فائدہ لیکن میں سمجھتا ہوں ساری قوم بھی فائر اسٹنگوئیشر خرید کر اپنا نقصان کر رہی ہوتی اور اگر ان کی اس طرح موجودگی میں یہ بچے بچ جاتے یا کہیں اور کبھی بھی ایک بھی جان بچ جائے تو ساری قوم کے اس مالی خرچ سے جان کا بچنا لاکھ درجے افضل ہے۔