عائشہ صدیقہ
محفلین
‘یرقان بھائی’’
‘‘ہاں فرقان بھائی’’
‘‘بھی بہت اداس اوررنجیدہ اورملول وغیرہ دکھائی دے رہے ہو۔ کیا ہوگیا؟’’
‘‘جو ہونا تھا ہوگیا۔ برا ہوا یا بھلا ہوا۔’’
‘‘یرقان بھائی تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی جواتنے پرانےفلمی گانے الاپ رہے ہو’’۔
‘‘یہ گانا نہیں میرے دل کی آواز ہے......اورآواز دے تُو کہاں ہے’’
‘‘لیکن ہوا کیا ہے......؟’’
‘‘ہم بڑھ گئے ہیں......’’
‘‘ہم کدھر بڑھ گئے ہیں؟’’
‘‘ہم تعداد میں بڑھ گئے ہیں’’۔
‘‘وہ تواللہ تعالیٰ کےنظام میں تمام چرند پرند اورانسان بڑھتے ہی رہتے ہیں۔اس میں فکرکی کون سی بات ہے؟’’
‘‘اس لیے کہ اورکچھ نہیں بڑھا، صرف ہم بڑھے گئے ہیں’’۔
‘‘یعنی؟’’
‘‘یعنی یہ کہ پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ہیں’’۔
‘‘اوہو ......یعنی گدھے ......یعنی ڈنکیز؟’’
‘‘گدھے کوڈنکی کہاجائے توبھی وہ گدھا ہی رہتا ہے......خبر یہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ پندرہ برسوں میں گدھوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔محکمہ شماریات کے مطابق 1971-72ء میں گدھوں کی تعداد دس لاکھ نوے ہزار تھی جو کہ اب بڑھ کر بیس لاکھ اٹھتر ہزار ہوگئی ہے۔’’
‘‘کمال ہے......اس خبر میں حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں ایک محکمہ شماریات کا بھی ہے...... یہ کیا شمارکرتے ہیں؟’’
‘‘ظاہر ہے یہ گدھے شمار کرتے ہیں’’
‘‘گدھوں کے شمار کرنے کا طریق کار کیا ہے؟’’
‘‘مجھے کیا معلوم کہ کیا طریقہ کار ہے......لیکن میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تمام گدھوں کے کام شمار کر لیے جاتے ہیں۔اور پھر ان کی چار ٹانگیں، اور اس کے بعد کل کو چھ پر تقسیم کرلیا جاتا ہوگا اور یوں گدھوں کی تعداد پتہ چل جاتی ہوگی’’
‘‘نہیں بھئی کوئی اورطریقہ ہوگا۔ یہ تو ذرا پیچیدہ ہے’’
‘‘تو پھرشاید وہ ہر پاکستانی سے پوچھتے ہوں گے کہ آپ کیا ہیں’’۔
‘‘نہیں، نہیں اس طرح تو تعداد کروڑوں میں ہوجائے گی......خیرکوئی بھی طریقہ ہو یہ ان کا ڈنکی سیکرٹ ہے۔ لیکن ایک اورسوال ذہن میں آتا ہے کہ محکمہ شماریات کو گدھوں سے اتنی رغبت کیوں ہے......؟’’
‘‘یعنی؟’’
‘‘یعنی یہ کہ انہوں نے پاکستان کے مگرمچھوں کوکیوں شمار نہیں کیا...... یہاں ایک سے ایک بڑا مگرمچھ پڑا ہے...... انہوں نے پاکستان میں پائے جانے والے لگڑ بگڑ،لُدھر،نیولے،گیدڑ،سوراوردیگرحیوان کیوں نہیں گنے...... صرف گدھے کیوں......’’
‘‘اس لیے کہ گدھے آپ کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں...... اف تک نہیں کرتے......روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں۔
‘‘یہ تو کوئی بات نہ ہوئی...... ویسے ایک اور سوال ہے!’’
‘‘میں محکمہ شماریات میں تو نہیں، فرقان بھائی! سوال ان سے پوچھو’’
‘‘ان سے جاکر پوچھوں کہ آپ نے پاکستان میں صرف گدھوں کو کیوں شمارکیا ہے، گدھیوں کوکیوں شمارنہیں کیا......’’۔
‘‘یارانہوں نے شمارکیا ہوگا’’
‘‘نہیں اخبارمیں صرف یہ چھپا ہے کہ پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ...... ہونا یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں گدھے اور گدھیاں بڑھ گئے......’’
‘‘بھئی وہ جوشمارکرنے والے ہوں گے، ان کو نہیں پتہ ہوگا گدھے اورگدھی میں کیا فرق ہوتا ہے......’’
‘‘ایک اورسوال ہے"
‘‘محکمہ شماریات سے دریافت کرو’’
‘‘نہیں یہ ہمارےبارےمیں ہے...... اگر پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ہیں توتم کیوں فکرمند ہو...... تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم بڑھ گئے ہیں؟’’
‘‘بھئی گدھےوہی ہوتے ہیں ناں جو بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جن کوکھانےکو کچھ نہیں ملتا۔ اورہمیں سب بے وقوف سمجھتے ہیں...... میں بذات خود ایک گدھا ہوں’’۔
‘‘خیریہ توتم گدھوں کےساتھ زیادتی کررہے ہو...... ویسے میں پھر یہی پوچھوں گا کہ محکمہ شماریات پاکستان میں صرف گدھوں کو کیوں شمار کرتا ہے...... اوراس کو کیسے معلوم ہے کہ پچھلے چند برسوں میں گدھے دو گنے ہوگئے ہیں......’’
‘‘بالکل درست......تم گدھےوغیرہ تونہیں ہو،کیونکہ اگرتم ہوتےتوہم بھی ہوتے۔اورہم نہیں ہیں...... بتاؤ کیوں فکرمند ہو......’’۔
‘‘کولمبیا کا آتش فشاں جو پھٹ پڑا ہے’’۔
‘‘کولمبیا کا آتش فشاں...... اس کا پاکستانی گدھوں سے کیا تعلق ہے؟’’
‘‘ہے تعلق...... بھائی فرقان! دیکھو، قافیا کیسا ملا ہے......’’
‘‘یار یرقان تم تو واقعی گدھے ہو...... یہ ایتھوپیا اورکولمبیا بیچ میں کہاں آگئے؟’’
‘‘دیکھو،فرقان...... ہم جوکائنات کے بھید جاننا چاہتے ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہم ملکوں اور صحراؤں کو جانتے ہیں۔ دنیا سکڑ گئی ہے۔ کمپیوٹر، سیارے، چاند پرقدم ...... لیکن تم ذرا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو کہ تم اس سے پیشتر کولمبیا کو جانتے تھے؟’’
‘‘ہوں ......ہاں......نہیں ......ہاں بس نام سن رکھا تھا۔ اور وہ بھی شاید......’’
‘‘تم جانتے تھے کہ یہ ملک کہاں واقع ہے؟’’
‘‘ہاں ......شاید امریکہ میں کہیں......’’
‘‘تمہیں پتہ ہے، اس کے دارالحکومت کا کیا نام ہے...... اس کے کسی شہر کا کیا نام ہے...... وہاں کے لوگ کیسے ہیں...... اس کے چہرے کیسے ہیں...... کیا وہ بھی اپنے بچے کو آئس کریم کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں...... کیا وہ بھی کھیت میں سے پھوٹنے والی گندم کو سونگھ کر خوشی سے دیوانے ہوتے ہیں ......کیا انہیں بھی سردی لگتی ہے...... گرمی لگتی ہے...... بلکہ بہت گرمی لگتی ہے اور وہ جب آتش فشاں کے لاوے میں ہزاروں کی تعداد میں دفن ہو رہے ہوں گے، بچے بھی فرقان ...... ویسے بچے جیسے میرے تمہارے ہیں ......تو ان کے دل میں کیا ہوگا بھائی فرقان......’’
‘‘دیکھو یرقان...... سچی بات ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کولمبیا کے بارے میں کوئی خبر پڑھی ہے۔ میں واقعی کولمبیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا...... اس پورے ملک کے چرند پرند اور انسانوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا...... سوائے اس کے کہ جنوبی امریکی مصنف گارسیا مارکنیر وہاں کا تھا...... اور ہم ساری دنیا کے بارے میں سب کچھ تو نہیں جان سکتے...... سب کچھ جاننے کے لیے وہ عمراور وہ وقت درکار ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے......’’۔
‘‘تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ دنیا سکڑ گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دنیا ایک ملک بن گئی ہے...... ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس شہر کا نام ہے جس پرلاوے کا دریا آیا اور ٹھہر گیا اور اس لاوے میں دب جانے والی بچوں کی چیخیں کون سی زبان میں تھیں...... وہ آہیں جو کئی روز تک ملبے میں سے بلند ہوتی رہیں اور ختم ہوگئیں۔ وہ کمیونسٹ تھیں عیسائی تھیں یا سرمایہ دار تھیں......؟ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ پوری بنی نوع انسانی ایک برادری ہے جب کہ ہم اس برادری کو جانتے تک نہیں...... ان کے چہرے تک نہیں پہچانتے......’’۔
‘‘دیکھو یرقان بھائی! مجھے زندگی میں اور بہت سارے کام کرنے ہیں اس لیے میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ سارا دن یہیں تمہارے پاس بیٹھا رہوں...... اس لیے خدا حافظ’’۔
‘‘تم جانتے ہو کہ کولمبیا میں آتش فشاں کیوں پھٹا تھا اور کیوں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے؟’’
‘‘کیوں؟’’
‘‘اس لیے کہ وہاں بھی گدھے زیادہ ہوگئے تھے......’’
‘‘خدا کے واسطے یرقان بھائی ہوش کی دوا کرو...... گدھوں کا اورآتش فشاں کا آپس میں کیا تعلق ہے......؟’’
‘‘وہاں بھی کولمبیا میں بھی کوئی محکمہ شماریات ہوگا جو انسانوں کی بجائے صرف گدھوں کو گنتا ہوگا...... اور لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس ملک میں انسان کم ہیں اور گدھے زیادہ ہیں۔ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے...... ہم انسانوں کا دھیان رکھیں تو شاید آتش فشاں ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہوجائیں......’’۔
‘‘خداحافظ یرقان بھائی’’
‘‘خداحافظ’’
‘‘ہاں فرقان بھائی’’
‘‘بھی بہت اداس اوررنجیدہ اورملول وغیرہ دکھائی دے رہے ہو۔ کیا ہوگیا؟’’
‘‘جو ہونا تھا ہوگیا۔ برا ہوا یا بھلا ہوا۔’’
‘‘یرقان بھائی تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی جواتنے پرانےفلمی گانے الاپ رہے ہو’’۔
‘‘یہ گانا نہیں میرے دل کی آواز ہے......اورآواز دے تُو کہاں ہے’’
‘‘لیکن ہوا کیا ہے......؟’’
‘‘ہم بڑھ گئے ہیں......’’
‘‘ہم کدھر بڑھ گئے ہیں؟’’
‘‘ہم تعداد میں بڑھ گئے ہیں’’۔
‘‘وہ تواللہ تعالیٰ کےنظام میں تمام چرند پرند اورانسان بڑھتے ہی رہتے ہیں۔اس میں فکرکی کون سی بات ہے؟’’
‘‘اس لیے کہ اورکچھ نہیں بڑھا، صرف ہم بڑھے گئے ہیں’’۔
‘‘یعنی؟’’
‘‘یعنی یہ کہ پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ہیں’’۔
‘‘اوہو ......یعنی گدھے ......یعنی ڈنکیز؟’’
‘‘گدھے کوڈنکی کہاجائے توبھی وہ گدھا ہی رہتا ہے......خبر یہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ پندرہ برسوں میں گدھوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔محکمہ شماریات کے مطابق 1971-72ء میں گدھوں کی تعداد دس لاکھ نوے ہزار تھی جو کہ اب بڑھ کر بیس لاکھ اٹھتر ہزار ہوگئی ہے۔’’
‘‘کمال ہے......اس خبر میں حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں ایک محکمہ شماریات کا بھی ہے...... یہ کیا شمارکرتے ہیں؟’’
‘‘ظاہر ہے یہ گدھے شمار کرتے ہیں’’
‘‘گدھوں کے شمار کرنے کا طریق کار کیا ہے؟’’
‘‘مجھے کیا معلوم کہ کیا طریقہ کار ہے......لیکن میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تمام گدھوں کے کام شمار کر لیے جاتے ہیں۔اور پھر ان کی چار ٹانگیں، اور اس کے بعد کل کو چھ پر تقسیم کرلیا جاتا ہوگا اور یوں گدھوں کی تعداد پتہ چل جاتی ہوگی’’
‘‘نہیں بھئی کوئی اورطریقہ ہوگا۔ یہ تو ذرا پیچیدہ ہے’’
‘‘تو پھرشاید وہ ہر پاکستانی سے پوچھتے ہوں گے کہ آپ کیا ہیں’’۔
‘‘نہیں، نہیں اس طرح تو تعداد کروڑوں میں ہوجائے گی......خیرکوئی بھی طریقہ ہو یہ ان کا ڈنکی سیکرٹ ہے۔ لیکن ایک اورسوال ذہن میں آتا ہے کہ محکمہ شماریات کو گدھوں سے اتنی رغبت کیوں ہے......؟’’
‘‘یعنی؟’’
‘‘یعنی یہ کہ انہوں نے پاکستان کے مگرمچھوں کوکیوں شمار نہیں کیا...... یہاں ایک سے ایک بڑا مگرمچھ پڑا ہے...... انہوں نے پاکستان میں پائے جانے والے لگڑ بگڑ،لُدھر،نیولے،گیدڑ،سوراوردیگرحیوان کیوں نہیں گنے...... صرف گدھے کیوں......’’
‘‘اس لیے کہ گدھے آپ کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں...... اف تک نہیں کرتے......روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں۔
‘‘یہ تو کوئی بات نہ ہوئی...... ویسے ایک اور سوال ہے!’’
‘‘میں محکمہ شماریات میں تو نہیں، فرقان بھائی! سوال ان سے پوچھو’’
‘‘ان سے جاکر پوچھوں کہ آپ نے پاکستان میں صرف گدھوں کو کیوں شمارکیا ہے، گدھیوں کوکیوں شمارنہیں کیا......’’۔
‘‘یارانہوں نے شمارکیا ہوگا’’
‘‘نہیں اخبارمیں صرف یہ چھپا ہے کہ پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ...... ہونا یہ چاہئے تھا کہ پاکستان میں گدھے اور گدھیاں بڑھ گئے......’’
‘‘بھئی وہ جوشمارکرنے والے ہوں گے، ان کو نہیں پتہ ہوگا گدھے اورگدھی میں کیا فرق ہوتا ہے......’’
‘‘ایک اورسوال ہے"
‘‘محکمہ شماریات سے دریافت کرو’’
‘‘نہیں یہ ہمارےبارےمیں ہے...... اگر پاکستان میں گدھے بڑھ گئے ہیں توتم کیوں فکرمند ہو...... تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ہم بڑھ گئے ہیں؟’’
‘‘بھئی گدھےوہی ہوتے ہیں ناں جو بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جن کوکھانےکو کچھ نہیں ملتا۔ اورہمیں سب بے وقوف سمجھتے ہیں...... میں بذات خود ایک گدھا ہوں’’۔
‘‘خیریہ توتم گدھوں کےساتھ زیادتی کررہے ہو...... ویسے میں پھر یہی پوچھوں گا کہ محکمہ شماریات پاکستان میں صرف گدھوں کو کیوں شمار کرتا ہے...... اوراس کو کیسے معلوم ہے کہ پچھلے چند برسوں میں گدھے دو گنے ہوگئے ہیں......’’
‘‘بالکل درست......تم گدھےوغیرہ تونہیں ہو،کیونکہ اگرتم ہوتےتوہم بھی ہوتے۔اورہم نہیں ہیں...... بتاؤ کیوں فکرمند ہو......’’۔
‘‘کولمبیا کا آتش فشاں جو پھٹ پڑا ہے’’۔
‘‘کولمبیا کا آتش فشاں...... اس کا پاکستانی گدھوں سے کیا تعلق ہے؟’’
‘‘ہے تعلق...... بھائی فرقان! دیکھو، قافیا کیسا ملا ہے......’’
‘‘یار یرقان تم تو واقعی گدھے ہو...... یہ ایتھوپیا اورکولمبیا بیچ میں کہاں آگئے؟’’
‘‘دیکھو،فرقان...... ہم جوکائنات کے بھید جاننا چاہتے ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ ہم ملکوں اور صحراؤں کو جانتے ہیں۔ دنیا سکڑ گئی ہے۔ کمپیوٹر، سیارے، چاند پرقدم ...... لیکن تم ذرا اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہو کہ تم اس سے پیشتر کولمبیا کو جانتے تھے؟’’
‘‘ہوں ......ہاں......نہیں ......ہاں بس نام سن رکھا تھا۔ اور وہ بھی شاید......’’
‘‘تم جانتے تھے کہ یہ ملک کہاں واقع ہے؟’’
‘‘ہاں ......شاید امریکہ میں کہیں......’’
‘‘تمہیں پتہ ہے، اس کے دارالحکومت کا کیا نام ہے...... اس کے کسی شہر کا کیا نام ہے...... وہاں کے لوگ کیسے ہیں...... اس کے چہرے کیسے ہیں...... کیا وہ بھی اپنے بچے کو آئس کریم کھاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں...... کیا وہ بھی کھیت میں سے پھوٹنے والی گندم کو سونگھ کر خوشی سے دیوانے ہوتے ہیں ......کیا انہیں بھی سردی لگتی ہے...... گرمی لگتی ہے...... بلکہ بہت گرمی لگتی ہے اور وہ جب آتش فشاں کے لاوے میں ہزاروں کی تعداد میں دفن ہو رہے ہوں گے، بچے بھی فرقان ...... ویسے بچے جیسے میرے تمہارے ہیں ......تو ان کے دل میں کیا ہوگا بھائی فرقان......’’
‘‘دیکھو یرقان...... سچی بات ہے کہ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کولمبیا کے بارے میں کوئی خبر پڑھی ہے۔ میں واقعی کولمبیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا...... اس پورے ملک کے چرند پرند اور انسانوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا...... سوائے اس کے کہ جنوبی امریکی مصنف گارسیا مارکنیر وہاں کا تھا...... اور ہم ساری دنیا کے بارے میں سب کچھ تو نہیں جان سکتے...... سب کچھ جاننے کے لیے وہ عمراور وہ وقت درکار ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے......’’۔
‘‘تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ دنیا سکڑ گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے دنیا ایک ملک بن گئی ہے...... ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس شہر کا نام ہے جس پرلاوے کا دریا آیا اور ٹھہر گیا اور اس لاوے میں دب جانے والی بچوں کی چیخیں کون سی زبان میں تھیں...... وہ آہیں جو کئی روز تک ملبے میں سے بلند ہوتی رہیں اور ختم ہوگئیں۔ وہ کمیونسٹ تھیں عیسائی تھیں یا سرمایہ دار تھیں......؟ ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ پوری بنی نوع انسانی ایک برادری ہے جب کہ ہم اس برادری کو جانتے تک نہیں...... ان کے چہرے تک نہیں پہچانتے......’’۔
‘‘دیکھو یرقان بھائی! مجھے زندگی میں اور بہت سارے کام کرنے ہیں اس لیے میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ سارا دن یہیں تمہارے پاس بیٹھا رہوں...... اس لیے خدا حافظ’’۔
‘‘تم جانتے ہو کہ کولمبیا میں آتش فشاں کیوں پھٹا تھا اور کیوں تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے؟’’
‘‘کیوں؟’’
‘‘اس لیے کہ وہاں بھی گدھے زیادہ ہوگئے تھے......’’
‘‘خدا کے واسطے یرقان بھائی ہوش کی دوا کرو...... گدھوں کا اورآتش فشاں کا آپس میں کیا تعلق ہے......؟’’
‘‘وہاں بھی کولمبیا میں بھی کوئی محکمہ شماریات ہوگا جو انسانوں کی بجائے صرف گدھوں کو گنتا ہوگا...... اور لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس ملک میں انسان کم ہیں اور گدھے زیادہ ہیں۔ حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے...... ہم انسانوں کا دھیان رکھیں تو شاید آتش فشاں ہمیشہ کے لیے ٹھنڈے ہوجائیں......’’۔
‘‘خداحافظ یرقان بھائی’’
‘‘خداحافظ’’