پروف ریڈ اول گذشتہ لکھنؤ

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ - 56

۱۰۱۹ محمدی( ۱۵۹۰)میں شہنشاہ اکبر نے جب سارے ہندوستان کو بارہ صوبوں میں تقسیم کیا تو صوبۂ اودھ کے صوبے دار یا والی کا مستقر،بادی النظر میں لکھنئو ہی قرار پایا تھا۔اُن دِنوں اتفاق سے شیخ عبد الرحیم نام ضلع بجنور کے ایک خستہ حال و پریشاں روزگار بزرگ بہ تلاشِ معاش دہلی پہنچے۔وہاں امرائے دربار میں رسوخ پیدا کر کے بارگاہِ شہنشاہی میں باریاب ہوئے۔آخر منصب داران شاہی میں شامل ہو کے،لکھنؤ میں جاگیر پائی اور چند روز بعد،بڑے تزک و احتشام اور کرو فر سے اپنی جاگیر میں آگے مقیم ہوئے۔یہاں خاص لچھمن ٹیلے یا شاہ پیر محمد کے ٹیلے پر مقیم ہوکے،انہوں نے اپنا پنچ محلّہ بنوایا،شیخن دروازہ تعمیر کرایا اور لکھنؤ میں پیوند زمین ہوئے۔اُن کا مقبرہ نادان محل کے نام سے آج تک مشہور ہے،جس کی عمارت کو ابھی چند روز ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا نے پسند کرکے،اپنی زیرِ حمایت لے لیا۔
اُسی زمانے میں یہاں شیخ عبد الرحیم نے لچھمن ٹیلے کے پاس ایک دوسری بلندی پر ایک چھوٹا قلعہ تعمیر کرایا جو قرب و جوار کی گھڑیوں سے زیادہ مضبوط تھا اور گرد و نواح کے لوگوں پر اُس کا بہت اثر پڑتا تھا یا تو اس لئے کہ شیخ عبد الرحیم کو دربار شاہی سے علم ماہی مراتب عطا ہوا تھا،یا اس لیے کہ اُس قلعے کے ایک مکان میں چھبیس محرابیں تھیں،اور ہے محراب پر معمار نے دو دو مچھلیاں بنا کے،باون مچھلیاں بنا دی تھیں،اُس قلعے کا نام "مچھی بھون" مشہور ہو گیا۔بھون کا لفظ،یا تو قلعے کے معنوں میں ہے،یا "باون" سے بگڑ کے بن گیا ہے۔جس معمار نے اُس قلعے کو تعمیر کیا،وہ لکھنا نام کا ایک اہیر تھا اور کہتے ہیں کہ اُسی کے نام سے شہر کا نام لکھنؤ ہو گیا۔اور بعض کا خیال ہے کہ لچھمن پور ہی بگڑ کے،لکھنؤ بن گیا ہے۔ان میں سے جو بات ہو،مگر اس آبادی نے یہ نام شیخ عبد الرحیم کے آنے کے بعد پایا۔
چند روز بعد شیخ عبد الرحیم کے خاندان والوں یعنی شیخ زادوں کے علاوہ،یہاں


ریختہ صفحہ - 57

پٹھانوں کا ایک گروہ آ گیا ،جو جنوب کی طرف بسے اور ' رام نگر ' کے پٹھان مشہور ہوئے۔
انہوں نے اپنی زمینداری کی حد اُس مقام تک قرار دی تھی جہاں اب گول دروازہ واقع ہے۔کیوں کہ وہاں سے دریا کی طرف بڑھیے تو شیخ زادوں کی زمین شروع ہوتی تھی،اُن پٹھانوں کے بعد شیوخ کا ایک نیا گروہ آ کے مشرق کی طرف بس گیا جو شیوخ نبہرہ کہلاتے ہیں۔اُن لوگوں کی زمین وہاں پر تھی جہاں اب ریزیڈنسی کے کھنڈر پڑے ہیں۔
یہ تینوں گروہ اپنے اپنے علاقوں پر متصرف اور اپنے حلقوں کے حاکم تھے لیکن شیخ زادوں کا اثر سب پر غالب تھا،اور قرب و جوار پر اُن کا دباؤ پڑتا تھا۔جس کا قوی سبب یہ تھا کہ یہ لوگ دربارِ دہلی میں رسوخ رکھتے تھے۔اُن میں سے کئی شخص پورے ملک اودھ کے صوبے دار مقرر ہو گئے تھے۔اور اُن کے قلعۂ مچھلی بھون کی مضبوطی کے اُس قدر شہرت تھی کہ عوام کی زبان پر تھا:"جس کا مچھی بھون' اُس کا لکھنؤ"۔
اکبر ہی کے زمانے میں لکھنؤ ترقّی کرنے لگا تھا۔اور اُس کی آبادی بڑھتی اور پھیلتی جاتی تھی۔یہ صحیح ہے کہ صوبہ دار اودھ،اُنہیں شیخ زادوں میں سے منتخب ہوئے،لیکن عام معمول یہ تھا کہ اس خدمت پر معززین دہلی مقرر ہوتے،جو سالوں سال اپنے گھر بیٹھے رہتے،فقط تحصیل و وصول کے زمانے میں ایک دورہ سا کرتے،اور اُن کے نائب یہاں رہا کرتے۔لہٰذا اُن سے شہر کی ترقّی کی کوئی امید نہ کی جا سکتی تھی۔ہاں یہاں کے دو ایک شیخ زادے جو صوبے دار مقرر ہو گئے،تو اُن کے تقرر سے البتہ لکھنؤ کو فائدہ پہنچا۔
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کو لکھنؤ کی طرف خاص توجہ تھی۔چنانچہ اُس نے یہاں کے برہمنوں کو،باجپئی چڑھاوے کے لیے ایک لاکھ روپے مرحمت فرمائے تھے،اور اُسی وقت سے لکھنؤ کے باجپئی برہمن مشہور ہوئے۔اسی سے پتہ چلتا ہے کہ لکھنؤ کے قدیم ترین ہندو محلے جو اکبر کے وقت میں موجود تھے: باجپئی ٹولہ،کٹاری ٹولہ،سوندھی ٹولہ،بنجاری ٹولہ


ریختہ صفحہ-58

اور اہیری ٹولہ ہیں۔اور یہ سب چوک ہی کے اطراف میں ہیں۔
مرزا سلیم نے جو تخت پر بیٹھ کے نور الدین جہانگیر کے لقب سے مشہور ہوئے،باپ کی زندگی اور اپنے ایّام ولی عہدی میں،مرزا منڈی کی بنیاد ڈالی جو مچھی بھون سے مغرب کی طرف واقع ہے۔اکبر کے آخر عہد میں یہاں کے صوبے دار،جواہر خاں تھے۔وہ تو دہلی میں رہتے مگر اُن کے نائب،قاضی محمود بلگرامی نے،چوک کے جنوب میں،اُس سے ملے ہوئے،داہنی طرف محمود نگر اور بائیں طرف شاہ گنج آباد کیے اور اُن کے اور چوک کے درمیان میں،بادشاہ کے نام سے،اکبری دروازہ تعمیر کرایا۔
عہد اکبری میں جب کہ یہ عمارتیں بن رہی تھیں اور یہ محلے آباد ہو رہے تھے،لکھنؤ ایک اچھی تجارت گاہ بن گیا تھا۔اور ترقی کے اُس درجے کو پہنچا ہوا تھا کہ ایک فرانسیسی تاجر نے،جو گھوڑوں کی تجارت کرتا تھا،یہاں قیام کرکے،نفع حاصل کرنے کی کوشش کی اور دربار شاہی سے،لکھنؤ کے قیام کے لیے،سند مستانی¹ حاصل کرکے،یہاں اپنا اصطبل قائم کیا۔اور پہلے ہی سال میں اُس قدر پھلا پھولا کہ چوک کے متصل،چار عالیشان مکان تعمیر کر لیے سال ختم ہونے پر جب اُس نے پروانہ مستانی کی تجدید چاہی،تو اُسے زیادہ قیام کی اجازت نہ ملی۔اور اس پر بھی اُس نے زبردستی ٹھہرنے کا ارادہ کیا تو حسب الحکم شہنشاہی،حکام شہر نے اُس کے مکانات ضبط کر کے،نزول سرکار کر لیے اور اُسے یہاں سے نکال دیا وہ چاروں مکان مدت تک سرکار کے قبضے میں رہے۔یہاں تک کہ شہنشاہ اورنگ زیبؒ عالم گیر کے عہد
__________________________________________
١. مستامن کے معنی طالب امن ہیں۔یورپ والوں کو چوں کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اپنے لیے خطرہ نظر آیا کرتا تھا، اس لئے جہاں قیام کرنا چاہتے،وہاں کے لیے دربار دہلی سے مستامنی کے سند حاصل کر لیا کرتے،تا کہ حکام و عمال اور نیز رعایا اُنہیں نہ ستائیں۔اُس سند سے چوں کہ سلطنت پر ذمے داریاں عائد ہو جاتی تھیں،اس لیے ایک سال سے زیادہ کی سند کم دی جاتی تھی۔
 
آخری تدوین:

محمل ابراہیم

لائبریرین
ریختہ صفحہ - 59

میں، جب ملا نظام الدین سہالوی نے اپنے قصبے کے فسادوں سے عاجز آ کے،لکھنؤ میں سکونت اختیار کرنے کا قصد کیا،تو عطیہ سرکار کے طور پر وہ چاروں مکان اُنہیں دے دیے گئے،اور اُنہوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ آ کے اُن مکانوں میں سکونت اختیار کی،جو اپنے گرد و پیش کے بہت سے مکانات کے ساتھ آج تک ' فرنگی محل ' کہلاتے ہیں۔ملّا صاحب کے قدوم کی برکت سے،لکھنؤ،علم و فضل کا مرکز اور طلبۂ علوم کا مرجع و ماوا بن گیا۔اور اُس علمی مرجعیت کو اُس قدر ترقی ہوئی کہ ملّا نظام الدین کا مرتب کیا ہوا نصاب تعلیم،جو سلسلۂ نظامیہ کہلاتا ہے،مدتِ دراز سے ہندوستان ہی کا نہیں،سارے ایشیا کا نصاب تعلیم ہے اور علمی کمالات کے ساتھ اُس میں ولیّانہ برکتیں بھی مضمر تصوّر کی جاتی ہیں۔اور اس سے بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس زمانے میں کہاں کہاں اور کتنی کتنی دور کے طلبہ علوم،لکھنؤ میں جمع رہتے ہوں گے۔
یورپین سیاح لیکٹ،جو ۱۰۶۰ محمدی (۱۶۳۱ عیسوی) یعنی شاہ جہاں بادشاہ کی سلطنت کے اوائل میں ہندوستان کی سیر کر رہا تھا،لکھنؤ کی نسبت لکھتا ہے کہ " یہ عظیم الشان منڈی ہے۔"عہدِ شاہ جہانی میں یہاں کے صوبے دار،سلطان علی شاہ قلی خاں تھے۔اُن کے دو بیٹے تھے: مِرزا فاضل اور مِرزا منصور۔انہی دونوں نام سے اُنہوں نے محمود نگر سے جنوب کی طرف آگے بڑھ کے،دو نئے محلّے فاضل نگر اور منصور نگر آباد کیے۔
اُس زمانے میں یہاں اشرف علی خاں نام ایک رسالدار تھے،انہوں نے اسی سلسلے میں اشرف آباد بسایا،اور اُن کے بھائی مشرف علی خاں نے،نالے کے دوسری طرف اپنا گھر بنا کے مشرف آباد نام کا ایک اور محلّہ قائم کیا،جس کا نام،مرور ایام سے اب نو بسته ہو گیا ہے۔انہی دنوں پیر خاں نام ایک اور فوجی افسر تھے،جنہوں نے ان سب محلوں سے مغرب کی طرف دور جا کے،اپنی گڑھی بنائی۔جو مقام ( کذا) آج تک پیر خاں کی گڑھی کہلاتا ہے۔
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے کسی ضرورت سے اجودھیا کا سفر کیا۔

ریختہ صفحہ - 60


واپسی کے وقت لکھنؤ میں ٹھہرتا ہوا دہلی گیا،اُس موقع پر اُس نے شاہ پیر محمد کے ٹیلے والی مسجد تعمیر کرائی۔جو خاص لچھمن ٹیلے پر ہونے کی وجہ سے،ایسی بلندی پر واقع ہے،جس سے زیادہ مناسب جگہ مسجد کے لیے لکھنؤ میں نہیں ہو سکتی۔اور غالباً اسی موقع پر اُس نے فرنگی محل کے مکانات،علامہ زماں ملّا نظام الدین کی نذر کیے ہوں گے۔
محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں لکھنؤ کا صوبے دار گردھانانگا نام ایک بہادر ہندو رسالدار تھا۔اُس کا چچا چھبیلے ‍رام کے مرنے پر گردھانانگا نے سرکشی اختیار کی اور اور ارادہ کیا کہ چچا کی جگہ زبردستی الہ آباد کا حاکم ہو جائے۔مگر پھر خود ہی کچھ سوچ کے اُس نے اظہار اطاعت و فرمانبرداری کیا،اور دربار سے اودھ کی صوبے داری کا خلعت عطا کیا گیا۔اُس نے یہاں کی سکونت اختیار کی۔اور اُس کی بی بی نے جو رانی کہلاتی تھی،رانی کٹرہ آباد کیا۔
مگر یہاں کا حاکم اور صوبے دار چاہے کوئی ہو،شیخ زادوں کا اس قدر زور تھا کہ کسی والی کو،چاہے کیسا ہی زبردست ہو اور کیسی ہی سند حکمرانی لے آیا ہو،یہ جرأت نہیں ہو سکتی تھی کہ اُن کے حلقے میں قدم رکھے۔مچھی بھون کو اگر چہ امارت کی حیثیت حاصل تھی،لیکن شیخ زادوں نے اُسے اپنی موروثی جائیداد بنا لیا تھا،اور دہلی سے جو والی آتا،اُس کے پاس پھٹکنے نہ پاتا۔انہوں نے مچھی بھون کے پاس دو اور عمارتیں تعمیر کر لی تھیں،جن میں سے ایک کہ نام مبارک محلا تھا۔اور دوسری کا نام پنچ محلا تھا۔پنچ محلے کی نسبت کوئی کہتا ہے کہ پنچ منزلی عمارت تھی اور کوئی کہتا ہے کہ ایک دوسرے کے پاس پانچ محل بنے ہوئے تھے۔اور اُن کے جنوب طرف ایک بڑا محراب دار پھاٹک تھا جو شیخن دروازہ کہلاتا۔شہر سے جو لوگ شیخ زادوں کی مذکورہ عمارتوں میں جانا چاہتے،اسی پھاٹک میں سے ہو کے گزرتے
اس پھاٹک کے محراب میں بانکے شیخ زادوں نے ایک ننگی تلوار لٹکا رکھی تھی اور
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 91

ولادت، چھٹی اور نہان کے سامان بالکل اصل کے مطابق کیے جاتے۔ یہ تقریبیں اس قدر زیادہ تھیں کہ سال بھر بادشاہ کو انہی سے فرصت نہ ملتی۔ سلطنت کی طرف کون توجہ کرتا۔
دربارِ اودھ اور سرکارِ انگریزی کے تعلقات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر گورنر جنرل اور ریزیڈنٹوں کی نظرِ عنایت نہ ہوتی اور انگلستان کا جو بورڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نگراں تھا، کمپنی کو روکے تھامے نہ رہتا، تو انتزاعِ سلطنت کی کاروائی اسی زمانے میں ہو گئی ہوتی ۔ مگر اس طفلانہ مزاجی کے دربار کی زندگی ابھی باقی تھی۔ انگریز ملک کے لینے کا ارادہ کر کے رہ گئے۔
نصیرالدین حیدر کی نسبت لکھنو کے معتبر پرانے لوگوں کا بیان ہے کہ اس زنانہ مزاجی اور ان طفلانہ حرکتوں کے ساتھ نہایت ظالم بھی تھے۔ لیکن چوں کہ ساری زندگی عورتوں میں بسر ہوتی تھی، اس لیے اُن کے مظالم کا شکار بھی زیادہ تر عورتیں ہی ہوتیں۔ بیسیوں عورتوں کو ادنا قصور اور معمولی بدگمانی پر دیواروں میں چُنوا دیا۔ کہتے ہیں کہ راہ چلتے کسی مرد کو کسی عورت کے سینے پر ہاتھ رکھے دیکھ لیا تھا، فوراً عورت کی چھاتیاں اور مرد کے ہاتھ کٹوا ڈالے۔
آخر دس برس کی بے اعتدالیوں کے بعد جب کہ اندر باہر کے تمام اہلِ دربار زندگی سے عاجز آ گئے تھے، بادشاہ خود اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ہاتھ کا شکار بنے اور کسی نے زہر دے کے، 1266ءمحمدی (1837ء) میں قصہ تمام کر دیا، نصیرالدین حیدر لا ولد مرے تھے۔ مناجان کو غازی الدین حیدر کی بیگم نے ہمیشہ اپنا پوتا اور سچا وارثِ سلطنت بنا کے پیش کیا۔ مگر غازی الدین حیدر اور نصیرالدین حیدر دونوں نے اُن کے نسلِ شاہی ہونے سے انکار کیا تھا۔ اِسی بنا پر گورنمنٹ انگریزی نے نواب سعادت علی خاں مرحوم کے بیٹے نصیرالدولہ محمد علی خاں کی تخت نشینی کا پہلے سے بندوبست کر لیا تھا۔ مگر بیگم صاحبہ نے نہ مانا۔ منا جان کو لے کے لال بارہ دری یعنی تخت گاہ میں آ گئیں۔ رزیڈنٹ نے ہزار

ریختہ صفحہ 92
روکا اور سمجھایا مگر ایک نہ سُنی اور زبردستی منا جان کو تخت پر بٹھا دیا۔ جنہوں نے تخت پر قدم رکھتے ہی نذریں لیں اور اپنے دشمنوں سے فوراً بدلا لینا بھی شروع کر دیا۔ بہتوں کے گھر لٹوائے، بعض کو گرفتار کر لیا، بعض قتل ہوئے، اور شہر میں ایک ہڑبونگ مچ گیا۔
صاحب رزیڈنٹ اور ان کے اسسٹنٹ فوراً دربار پہنچے۔ بادشاہ بیگم کو سمجھایا کہ منا جان وارثِ سلطنت نہیں ہو سکتے اور اس میں آپ کو ہرگز کامیابی نہ ہوگی۔ پھر لاٹ صاحب کا تحریری فرمان دکھایا اور کہا: بہتر یہی ہے کہ منا جان تخت کو خالی کر دیں اور نصیرالدولہ کی تخت نشینی عمل میں آ جائے۔ مگر کسی نے سماعت نہ کی۔
بلکہ کسی نے اسسٹنٹ رزیڈنٹ پر حملہ کیا، جس سے اُن کا چہرہ خون آلود ہو گیا۔ رزیڈنٹ نے منڈیاؤں سے انگریزی فوج پہلے ہی سے بلوا لی تھی اور اُس نے تخت گاہ کے سامنے توپیں لگا دی تھیں اور سپاہی صفیں باندھے کھڑے تھے۔ مجبوراً صاحبِ عالی شان نے گھڑی ہاتھ میں لی اور کہا: دس منٹ کی مہلت دی جاتی ہے، اس زمانے کے اندر اگر منا جان تخت سے نہ اتر گئے تو جبریہ کاروائی کی جائے گی۔ اس کا بھی کسی نے خیال نہ کیا۔ حالاں کہ رزیڈنٹ بار بار کہتے جاتے تھے کہ اب پانچ منٹ باقی ہیں، اب دو ہی منٹ رہ گئے، اور اب دیکھیے پورا ایک منٹ بھی نہیں۔
ان تنبیہوں کا کسی نے خیال نہ کیا اور یکایک توپوں نے گرابیں مارنا شروع کیں۔ آناً فاناً میں تیس چالیس آدمی گر گئے۔ درباری بدحواسی کے ساتھ گرتے پڑتے بھاگے۔ جو طائفہ مجرا کر رہا تھا، اس میں سے بھی کئی آدمی زخمی ہوئے۔ شیشہ آلات جھنا جھن ٹوٹ کر گرنے لگے۔ جب کئی وفادار بہادر جو سینہ سپر تھے، مارے جا چکے تو منا جان نے بھی تخت سے گر کے بھاگنے کا قصد کیا، مگر پکڑ لیے گئے۔ غرض بیگم صاحب اور انہیں دونوں کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا۔ ساتھ ہی نصیرالدولہ کی تخت نشینی عمل میں آئی۔ جو محمد علی شاہ کے لقب سے بادشاہ ِ اودھ قرار پائے۔ اور منا جان اور ان کی دادی

ریختہ صفحہ 93
سخت حراست میں لکھنو سے کان پور اور کان پور سے قلعہ چنار گڑھ میں بھیج دیے گئے۔ اور دوہزار چار سو روپے ماہوار اُن کی تنخواہ لکھنو کے خزانے سے مقرر کر دی گئی۔
محمد علی شاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت ترسٹھ برس کی تھی۔ بوڑھے تجربے کار تھے۔ زمانے کے سردوگرم اور دربار کی طفلانہ مزاجیاں دیکھتے رہے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ نواب سعادت علی خاں کے بیٹے تھے اور اُن کی آنکھیں دیکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بہت سنبھل کے کام کیا۔ کفایت شعاری کے اصول جاری کیے اور جہاں تک بنا، انتظام کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ مگر عمر زیادہ آ چکی تھی اور قوا جواب دیتے جا تے تھے۔ تخت پر بیٹھتے ہی اُنہوں نے حکیم مہدی کو فرخ آباد بلوا کے خلعتِ وزارت دیا۔ مگر چند ہی روز بعد وہ مر گئے۔ تب ظہیر الدولہ کو خلعت ِ وزارت ہوا۔ دو تین مہینے بعد وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے اور منورالدولہ وزیر قرار پائے جنہوں نے دو چار مہینے کے بعد ہی استعفا دے دیا اور کربلا ئے معلا چلے گئے۔ پھر اشرف الدولہ محمد ابراہیم خاں وزیر قرار پائے جو اوروں کے دیکھتے، ذی ہوش اور متین تھے۔
محمد علی شاہ کی تخت نشینی پر گورنمنٹ انگریزی اور سلطنتِ اودھ میں ایک نیا معاہدہ ہوا جس کی رو سے سرکار انگریزی نے جو فوج اودھ کی نگرانی کے لیے رکھی تھی اس میں معتد بہ اضافہ ہوا۔ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی گورنمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ ساری قلم رو اودھ یا اس کے جس علاقے میں بدنظمی دیکھے، اُسے جب تک چاہے، اپنے زیرِ انتظام رکھے، بادشاہ نے ناگواری کے ساتھ اس عہدنامے پر دستخط کیے اور جہاں تک بنا ملک کی اصلاح کرنے لگے۔
تخت نشینی کے دوسرے ہی برس انہوں نے اپنا مشہور امام باڑہ حسین آباد اور اُس کے قریب ایک عالی شان مسجد تعمیر کرانا شروع کی ۔ جس کی بابت اہتمام کیا گیا کہ دہلی کی جامع مسجد سے رونق اور وسعت میں بڑھ جائے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 94
اُن دنوں لکھنو کی آبادی و رونق اس قدر ترقی کر گئی تھی اور اس کثرت سے آدمی اُس کے سواد میں آباد تھے کہ اسے ہندوستان کا بابل کہنا بے جا نہ تھا۔ واقعی یہ شہر ہر حیثیت سے اُس عہد کا زندہ بابل تھا۔
اِس مشابہت کو شاید انگریزوں یا کسی اور درباری سے سن کے، محمد علی شاہ نے ارادہ کیا کہ لکھنو کو پورا پورا بابل بنا دیں اور اپنی ایک ایسی یادگار قائم کر دیں جو اُن کے نام کو تمام شاہانِ اودھ سے زیادہ بلندی پر دکھائے۔ انہوں نے بابل کے مینار یا وہاں کے ہوائی باغ کی طرح کی ایک عمارت حسین آباد سے قریب اور موجودہ گھنٹاگھر کے پاس تعمیر کرانا شروع کی، جس میں محرابوں کے مدور حلقے پر دوسرا حلقہ اور دوسرے حلقے پر تیسرا حلقہ غرض یوں ہی تلے اوپر قائم ہوتے چلے جاتے تھے۔ ارادہ تھا کہ یوں ہی سات منزلوں تک اُسے بلند کر کے ، ایک اتنا بڑا اور اُونچا بُرج بنا دیا جائے جو دنیا بھر میں لاجواب ہو اور اس کے اوپر سے سارے لکھنو اور اس کے گرد کی فضا نظر آئے۔ یہ عمارت اگر پوری بن جاتی تو یقیناً لاجواب اور عجیب و غریب ہوتی۔ اس کا نام "ست کھنڈا" قرار دیا گیا تھا اور بڑے اہتمام سے بن رہی تھی۔ مگر پانچ ہی منزلیں بننے پائی تھیں کہ محمد علی شاہ نے 1271ء محمدی (1842ء) میں سفرِ آخرت کیا۔

محمد علی شاہ نے اپنے مختصر زمانے میں بغیر اس کے کہ اندرونی جھگڑے پیدا ہوں یا ملک میں بدنظمی کی فریاد بلند ہو، لکھنو کو نہایت ہی خوب صورت شہر بنا دیا۔ حسین آباد کے پھاٹک سے رومی دروازے تک دریا (کے) کنارے کنارے ایک سڑک نکالی جو چوک کہلاتی تھی۔ اس سڑک پر باوجود دو طرفہ عالی شان مکانوں کے، ایک طرف رومی دروازہ، آصف الدولہ کا امام باڑہ اور اُس کی مسجد تھی۔ دوسری طرف ست کھنڈرا اور حسین آباد کا پھاٹک تھا۔ اس نئے امام باڑے کی مختلف سر بہ فلک عمارتیں تھیں اور ان کے پہلو میں جامع مسجد واقع تھی۔ اِن سب عمارتوں نے مل کے دونوں جانب ایک ایسا خوش نما اور نظر فریب منظر
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 95

پیدا کر دیا تھا جو دنیا کے تمام مشہور و خوش سواد مناظر پر چشمک زنی کرتا تھا۔ اور اب بھی گو کہ درمیان میں باشندگانِ شہر کے جتنے مکانات واقع تھے، سب کھد گئے، مگر دنیا کا ایک بہترین منظر تصوّر کیا جاتا ہے۔
محمد علی شاہ کے بعد امجد علی شاہ اریکہ آر اے سریرِ شہر یاری ہوئے۔ محمد علی شاہ نے کوشش کی تھی کہ ولی عہدِ سلطنت کی تعلیم اعلا درجے کی ہو۔ چنانچہ انہیں علما و فضلا کی صحبت میں رکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امجد علی شاہ بجائے اس کے کہ تعلیم میں کوئی نمایاں ترقّی کریں، اخلاق و عادات کے لحاظ سے ایک ثقہ مولوی بن گئے۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد اُن کا جو کچھ حوصلہ تھا، یہ تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ ساری رعایا جنابِ قبلہ و کعبہ کی حلقہ بہ گوشِ ارادت بن جائے لیکن ظاہر ہے کہ علمائے دین و مقتدایانِ ملّت کو پا لٹکس سے کسی قسم کا واسطہ نہیں ہو سکتا۔ وہ نہ مدبرِّ سلطنت ہو سکتے ہیں نہ اسٹیٹسمین۔ اُن سے جو کچھ ہدایت مل سکتی تھی، یہ تھی کہ سیّدوں کی خدمت گزاری کی جائے اور سطنت کا روپیا، مومنین کی اعانت و دست گیری میں صرف ہو۔ اور یہ کام بھی ارادت کیش اور محتاط پرہیزگار فرماں روائے اودھ امجد علی شاہ کی نظر میں اُسی وقت قابلِ اطمینان ہو سکتا تھا جب خود مجتہدالعصر کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائے۔ چنانچہ ملک کی آمدنی میں سے لاکھوں روپیا زکٰوۃ کے نام سے ان کی نذر کیا جاتا اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خیرات کی رقمیں انہیں کے ہاتھ میں جاتیں۔
امجد علی شاہ کے لیے تقوئے طہارت کا خیال مرض بن گیا تھا۔ انہیں اپنے خیال کی پابندیِ شرع سے اِتنی فرصت ہی نہ ملتی تھی کہ نظم و نسق مملکت کی طرف توجہ کریں۔ جس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ محمد علی شاہ نے اپنی تجربہ کاری و بیدار مغزی سے جو کچھ انتظامات کیے تھے۔ سب درہم و برہم ہو گئے، اور یہ حالت ہو گئی کہ (قاضی محمد صادق خاں اخترؔ کے

ریختہ صفحہ 96

بیان کے مطابق: " تمام عمالّ بدکار و بد باطن اور خود غرض تھے۔ رعایا تباہ تھی۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر تھا۔ ظالم و مجرم کو سزا نہ ملتی۔ خزانہ خالی تھا۔ رشوت ستانی کی گرم بازاری تھی اور جو فتنے پیدا ہوتے، کسی کے مٹائے نہ مٹ سکتے۔"
لیکن اس اتّقا کی خاموشی اور تمدّنی غفلت و بے پروائی پر بھی انہوں نے محلہ حضرت گنج آباد کیا جو آج لکھنؤ میں تمام محلّوں سے زیادہ صاف ستھرا، خوب آباد، نہایت خوب صورت، دولت مندتاجروں کا اعلا ترین بازار ہے اور سول لائن کا سب سے زیادہ بارونق حصہ ہے۔ انہوں نے لکھنؤ سے کان پور تک براہِ راست ایک پختہ سڑک بنوائی۔ اُن کے عہد میں سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ لوہے کے پل کی عمارت بن کے تیار ہو گئی۔ اس پُل کی تعمیر کا واقعہ یہ ہے کہ اس کے اجزا اور پُرزے غازی الدین حیدر نے انگلستان سے منگوائے تھے۔ مگر وہ پُرزے جب تک لکھنؤ میں پہنچیں، بادشاہ رہ گر اے عالمِ جاوداں ہو چکے تھے۔ نصیرالدین حیدر کے عہد میں جب وہ پُرزے ولایت سے آئے تو اُنہوں نے اپنے دربار کے انجنیئر مسڑ سنکلیر کو ان پرزوں کے جوڑنے اور پُل کو بنا کے کھڑا کر دینے کا ٹھیکا دیا۔ اور حکم دیا کہ وہ پرزے رزیڈنسی کے سامنے پار دریا کے کنارے ڈال دیے جائیں۔ جس مقام پر پُل کے یہ آہنی پرزے ڈالے گئے تھے، اس جگہ کا پتا دینے کے لیے آج وہیں ایک گھاٹ اور شوالا قائم ہے۔ مسڑ سنکلیر نے دریا کے اندر ستون قائم کرنے کے لیے گہرے کنویں کھدوائے اور ستونوں کی جڑائی بھی کر لائے مگر اس کے بعد اُن سے کچھ کرتے دھرتے نہ بنی اور پُل کی تکمیل میں ناکامی ہوئی۔ محمد علی شاہ کے زمانے میں یہ پُل ناتمام پڑا رہا۔ مگر امجد علی شاہ نے اپنے عہد میں اس کی جانب توجہ کی اور پُل بن کے تیّار ہو گیا۔ لیکن جو لوہے کا پُل آج کل قائم ہے وہ امجد علی شاہ کے زمانے کا پل نہیں ہے۔ وہ ایک ہینگنگ بریج یعنی لٹکنے والا پل تھا جس کا سارا بار چار بلند اور زبردست آہنی کھمبوں پر لٹک رہا تھا۔ انگریزی زمانے میں جب اس کے پرزے زنگ آلود ہو کے کم زور ہوئے اور اُس پر
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 97
عام آمدورفت میں خطرہ نظر آیا تو اُسے منہدوم کرا کے اس کی جگہ دوسرا آہنی پل قائم کیا گیا اور وہی پل اس وقت موجود ہے۔
امجد علی شاہ ہی کے زمانے میں اُن کے وزیر، امین الدّولہ نے امین آباد آباد کیا جس کی آبادی و رونق آج کل روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ امجد علی شاہ نے اپنے زمانے میں اگرچہ کچھ نہیں کیا او ر نہ اپنے شوق سے کوئی ایسی عمارت بنوائی جو آج کل اُن کی یادگار ہو، مگر شاید اپنے اتقاو پرہیزگاری کے صلے میں انہیں یہ قدرتی نام وری حاصل ہو گئی کہ لکھنؤ کے آج کل کے دو سب سے زیادہ مشہور سب سے زیادہ آباد، سب سے زیادہ بارونق اور سب سے زیادہ دولت مند محلے: امین آباد اور حضرت گنج، اُنہیں کے عہد کی یادگار ہیں۔
آخر زمانے نے اُن کے دور کا ورق بھی الٹا اور 1277ء محمدی (1848ء) میں جب کہ عمر اڑتالیس برس سے کچھ ہی دن زیادہ تھی، مرضِ سرطان میں مبتلا ہو کے دنیا سے رخصت ہو گئے اور اپنے آباد کیے ہوئے محلّے حضرت گنج میں مینڈو خاں رسال دار کی چھاؤنی کے اندر دفن ہوئے۔ ان کا امام باڑہ جس میں وہ مدفون ہیں حضرت گنج کے مغربی حصے میں لبِ سڑک موجود ہے، جس کی عمارت ان کی وفات کے بعد واجد علی شاہ نے دس لاکھ روپیا صرف کر کے بنوائی تھی۔ یہ امام باڑہ حسین آباد کی ایک ناقص نقل ہے۔ اور اگر حسین آباد کی طرح اس میں بھی روشنی ہوتی تو محرم میں لکھنؤ کا مشرقی حصّہ بھی عالمِ نور بن جایا کرتا۔ اگرچہ اس کے لیے کوئی وثیقہ نہیں معیّن ہے، لیکن اس کی آمدنی بھی کم نہیں۔ احاطے کی عمارت کے بیرونی رخ کی دُکانوں میں بہت سے اچھّے اچھّے تاجروں کی دُکانیں ہیں اور اندرونی عمارتوں میں بہت سے یوریشین وغیرہ رہتے ہیں۔ جن سے کرائے کی معتد بہ رقم وصول ہوتی ہے۔ مگر کرایہ وصول کرنے والوں کا یہ بھی احسان ہے جو محرم میں خاص قبر اور امام باڑے میں چند چراغ روشن کر دیا کرتے ہیں۔
اب امجد علی شاہ کے بڑے بیٹے، واجد علی شاہ تختِ سلطنت پر جلوہِ افروز
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 98
ہوئے۔ اُن کا زمانہ اِس مشرقی دربار کی تاریخ کا آخری ورق اور اسی مرثیہ پاستاں کا آخری بند ہے۔ چونکہ انتراعِ سلطنت انہی کے عہد میں ہوا، اس لیے تمام اہل الرّائےکے ہدفِ سہام اور نشانۂ ملامت وہی بن گئے۔ اور قریب قریب تسلیم کر لیا گیا کہ زوالِ سلطنت کا باعث وہ تھے۔ لیکن جس زمانے میں اُن کی سلطنت کا خاتمہ ہوا ہے، اُن دنوں ہندوستان کی تمام وطنی قوتیں ٹوٹ رہی تھیں اور بری بھلی سب طرح کی قدیم حکومتیں دنیا سے مٹتی جاتی تھیں۔ پنجاب میں سکھوں کا اور دکن میں مرہٹوں کا دفتر کیوں اُلٹا؟ جو بہادر اور زبردست اور ہوشیار مانے جاتے ہیں۔ دہلی میں مغل شہنشاہی کا اور بنگالہ میں نوّاب ناظمِ بنگالہ کا استیصال کیوں ہوا؟ حالانکہ ان میں اتنی طفلانہ مزاجی نہ تھی جتنی کہ لکھنؤ کے اریکہ آر اے سلطنت میں بتائی جاتی ہے۔ مذکورہ چاروں درباروں میں کوئی واجد علی شاہ نہ تھا۔ حالانکہ ان کی تباہی لکھنؤ کی تباہی سے کم نہ تھی۔
اصل یہ ہے کہ اُس عہد میں اِدھر اہلِ ہند کی غفلت اور جہالت کا پیمانہ چھلکنے کے قریب پہنچ گیا تھا اور اُدھر دولت برطانیہ کی قوت اور برٹش قوم کی عاقبت اندیشی، قابلیت، جفاکشی، اپنی کوششوں اور اپنی اعلا تہذیب و شائستگی کا ثمرہ پانے کی روز بہ روز مستحق ثابت ہوتی جاتی تھی۔ غیر ممکن تھا کہ دانایانِ فرنگ کی ذہانت و طباعی، خوش تدبیری و باضابطگی، ہندوستان کی جہالت و خود فراموشی پر فتح نہ پاتی ۔ زمانے نے ساری دنیا میں تمدّن کا نیا رنگ اختیار کیا تھا اور پکار پکار کے ہر ایک قوم سے کہہ رہا تھا کہ جو اس مذاق میں میرا ساتھ نہ دے گا، مٹ جائے گا۔ زمانے کے اس ڈھنڈورے کی آواز، ہندوستان میں کسی نے نہ سنی اور سب مٹ گئے۔ انہی مٹنے والوں میں اودھ کی سلطنت بھی تھی، جس کے زوال کا بار غریب واجد علی شاہ پر ڈال دینا، محقّقانہ مذاق کے خلاف ہے۔
پابندِ شرع باپ نے واجد علی شاہ کو بھی علما کی صحبت میں رکھ کے اپنا سا بنانا
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 99
چاہا تھا اور یہ رنگ ایک حد تک واجد علی شاہ پر چڑھا بھی جو انقضائے عمر کے ساتھ زیادہ کھلتا گیا۔ مگر امجد علی شاہ کا اس میں کچھ زور نہ چلا کہ وارثِ سلطنت فرزند کا فطری رحجان عیّاشی اور فنونِ طرب و نشاط کی طرف تھا۔ اگرچہ باپ کی تاکید سے پڑھنے لکھنے کی تعلیم بھی اچھی تھی، لیکن موسیقی کا شوق غالب تھا۔ ولی عہدی ہی میں اپنے ذاتی شوق سے انہوں نے باپ کے منشا کے خلاف، گویوّں اور ڈھاریوں کو اپنی صحبت میں رکھا۔ گانا بجانا سیکھا۔ آوارہ عورتوں اور ڈوم ڈھاریوں سے ربط و ضبط بڑھایا۔ اور انجام یہ ہوا کہ جو لطف انہیں حسین عورتوں اور گویّوں کی صحبت میں آتا، علمی مذاق کی مہذب صحبتوں میں نہ آتا۔ باپ کے خلاف، انہیں عمارت کا بڑا شوق تھا۔ اور ولی عہدی ہی میں انہوں نے خاس اپنی محفلِ طرب اور عیش کے لیے ایک پرفضا باغ اور اس میں دو ایک مختصر خوب صورت اور پر تکلف مکان بنوائے۔ علی نقی خاں جنہیں تخت پر بیٹھتے ہی خلعتِ وزارت عطا کیا، ان سے زمانہ ولی عہدی میں ایک رنڈی کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ اُن کی جو انا نہ شوخ مزاجی نے، مزاج میں درخور پیدا کیا اور جب مذکورہ بالا باغ اور عمارت اُن کے اہتمام میں تعمیر ہو کے پسند آئے تو سمجھ لیا گیا کہ وزارت اور انتطام مملکت کے لیے اُن سے زیادہ موزوں کوئی شخص نہیں ہے۔
واجد علی شاہ کی سلطنت کا آغاز تو اس عنوان سے ہوا کہ نوجوان بانکے بادشاہ کو عدالت گستری اور اصلاحِ فوج کی طرف غیر معمولی توجہ تھی۔ سواری میں آگے آگے دو نقرئی صندوق چلتے، جس کسی کو کچھ شکایت ہوتی، عرضی لکھ کے ان میں ڈال دیتا، کنجی خود بادشاہ کے پاس رہتی۔ محل میں پہنچ کے حضور اُن عرضیوں کو نکالتے اور اپنے ہاتھ سے احکام تحریر فرماتے۔ اس طرح کئی نئے رسالے اور کئی پلٹنیں بھرتی ہوئیں۔ رسالوں کے نام بادشاہ نے اپنی منشیانہ طبّاعی سے بانکا، ترچھا، گھنگھور، رکھے۔ اور پلٹنوں کے نام اختری، بادری رکھے گئے۔ خود بہ دولت بہ نفس نفیس گھوڑے پر سوار ہو کے جاتے اور
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 100
گھنٹوں دھوپ میں کھڑ ے ہو کے، اُن کی قواعد اور فنونِ جنگ میں ان کی مشّاقی دیکھتے اور خوش ہو ہو کے باکمال سپاہیوں کو انعام و اکرام سے سرفراز فرماتے۔ فوجی قواعد کے لیے خود ہی فارسی اصطلاحات اور کلمات مقرّر کیے ّراست رو، پس بیا، دستِ چپ بگرد"۔ چند بانکی جوان حسین عورتوں کی ایک چھوٹی زنانی فوج مرتّب کی گئی اور اُن کو بھی انہی اصطلاحوں میں قواعد سکھائی گئی۔
مگر جدید عہد کا یہ نقش، اوّلین چند روزہ تھا۔ پورا ایک سال بھی نہ گزرا ہو گا کہ طبیعت اِن چیزوں سے اکتا گئی۔ زمانۂ ولی عہدی کا وہی پرانا مذاق پھر عود کر آیا۔ حسین اور آوارہ عورتوں سے صحبت بڑھی، اربابِ نشاط کا بازار گرم ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں ڈوم ڈھاری ہی ارکانِ دولت اور معززینِ سلطنت تھے۔ بادشاہ کے دل میں اب اگر کوئی علمی اور شریفانہ مذاق باقی تھا تو وہ شاعری تھی۔ کیوں کہ خود شعر کہتے اور شعرا کی قدر کرتے تھے۔
لکھنؤ میں اُن دنوں شاعری کا چرچا حد سے زیادہ بڑھا ہوا تھا۔ اکیلے لکھنؤ میں اتنے شاعر موجود تھے کہ اگر سارے ہندوستان کے شعرا جمع کیے جاتے تو ان کی تعداد لکھنؤ کے شاعروں سے نہ بڑھ سکتی۔ میرؔ اور سوداؔ کی پرانی شاعری، تقویمِ پارینہ ہو چکی تھی۔ اب ناسخؔ کی زبان اور آتشؔ کے خیالات دماغوں میں بسے ہوئے تھے، جن میں رندؔ و صباؔ کے رندانہ کلام اور نواب مرزا شوقؔ کی مثنویوں نے شہوت پرستیوں کی روح پھونک دی تھی۔ اور اسی مذاق کو بادشاہ کی طبیعت کا اصلی رنگ چاہتا اور پسند کرتا تھا۔
اسلامی شاعری کا رنگ خلافتِ اسلامیہ کی پہلی صدی تک تو یہ تھا کہ شاعر ایک خاص عورت پر عاشق ہوتے۔ اس کا نام لے لے کے اُس کے حسن کی خوبیوں اور اس کی اداؤں کی دل فریبیوں کو بیان کرتے، اور اس کی طرف خطاب کر کر کے، اپنی بے تابیوں اور بے قراریوں کو ظاہر کرتے۔ اکثر چُھپ چُھپ کے اس
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 106

فتنۂ عظیم پیدا ہوا کہ ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ کی بنیاد ہی متزلزل نظر آتی تھی۔ جس طرح میرٹھ وغیرہ کے باغی ہر طرف سے سمٹ کے دہلی میں جمع ہوئے تھے اور ظفر شاہ کو ہندوستان کا شہنشاہ بنایا تھا، ویسے ہی الہٰ آباد و فیض آباد کے باغی، مئی 1857ء میں جوش و خروش کے ساتھ لکھنؤ پہنچے۔ ان کے آتے ہی یہاں کے بھی بہت سے بےفکرے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور شاہی خاندانِ اودھ کا اور کوئی رکن نہ ملا تو واجد علی شاہ کے ایک دس برس کے نابالغ بچے، مرزا برجیس قدر کو تخت پر بٹھا دیا اور ان کی ماں نواب حضرت محل سلطنت کی مختارِ کُل بنیں۔ تھوڑی سی انگریزی فوج جو یہاں موجود تھی اور اس کے ساتھ یہاں کے تمام یورپین عہدہ دارانِ مملکت، جو باغیوں کے ہاتھ سے جاں بر ہو سکے، بیلی گارد میں قلعہ بند وہ گئے۔ جس کے گرد، باغیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی، دُھس بنا لیے گئے تھے اور حفاظت و بسر کا کافی بندوبست کر لیا گیا تھا۔ غنیمت ہوا یا یہ کہیے کہ قسمت اچھی تھی کہ واجد علی شاہ لکھنؤ سے جا چکے تھے۔ ورنہ وہی خواہ مخواہ بادشاہ بنائے جاتے۔ اُن کا حشر ظفر شاہ سے بھی بدتر ہوتا۔ اور اودھ کے پریشاں بختوں کو ذرا پنپنے کے لیے مٹیا برج کے دربار کا جو ایک عاریتی سہارا مل گیا تھا، یہ بھی نہ نصیب ہوتا۔
اب لکھنؤ میں انگریزوں کی باغی فوج کے علاوہ، اودھ کے اکثر زمیندارو تعلقدار اور عہدِ شاہی کے برطرف شدہ سپاہی کثرت سے جمع تھے۔ اور ان میں شہر کے بہت سے اوباشوں اور ہر طبقے کے لوگوں کا طوفانِ بے تمیزی بھی شریک ہو گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ تھوڑے سے انگریزوں پر ایک خدائی کا نرغہ ہے۔ مگر فرق یہ تھا کہ محاصرہ کرنے والوں میں، سوا اوباش اہلِ شہر اور بے اصول و خود سر مدّعیانِ شجاعت کے، ایک بھی ایسا شخص نہ تھا جو اصولِ جنگ سے واقف ہو اور تمام منتشر قوتوں کو یک جا کر کے ایک باضابطہ فوج بنا سکے۔ بہ خلاف اس کے، انگریز اپنی جان پر کھیل کے اپنی حفاظت کرتے۔ سر ہتھیلی پر لے کے حملہ آوروں کو روکتے تھے اور جدید اصولِ جنگ سے بہ خوبی واقف تھے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 107
اب لکھنؤ میں برجیس قدر کا زمانہ اور حضرت محل کی حکومت تھی۔ برجیس قدر کے نام کا سکّہ جاری ہوا عہدہ دارانِ سلطنت مقرّر ہوئے۔ ملک سے تحصیل وصول ہونے لگی۔ اور صرف تفنّنِ طبع کے طور پر محاصرے کی کاروائی بھی جاری تھی۔ لوگ حضرت محل کی مستعدی و نیک نفسی کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ سپاہیوں کی نہایت قدر کرتی اور ان کے کام اور حوصلے سے زیادہ انعام دیتی تھیں۔ مگر اس کا کیا علاج کہ یہ مککن نہ تھا کہ وہ خود پردے سے نکل کر فوج کی سپہ سالاری کرتیں۔ مشیر اچھے نہ تھے، اور سپاہی کام کے نہ تھے۔ ہر شخص غرض کا بندہ تھا اور کوئی کسی کا کہنا نہ مانتا تھا۔ انگریزی فوج کے باغی اس غرور میں تھے کہ یہ فقط ہمارے دم کا ظہورا ہے۔ اصلی حاکم ہم ہی ہیں۔ اور جس کے سر پر جوتا رکھ دیں وہی بادشاہ ہو جائے۔ احمد اللہ نام ایک شاہ صاحب، جو فیض آباد کے باغیوں کے ساتھ آئے تھے اور کئی معرکوں میں لڑ چکے تھے ، وہ الگ اپنا رعب جما رہے تھے بلکہ خود اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ برجیس قدر کے مقابل لکھنؤ ہی میں ان کا دربار الگ قائم تھا۔ اور دونوں درباروں میں پولیٹکل اختلاف کے ساتھ، شیعہ سنّی کا جھگڑا اور تعصّب بھی نمایاں ہونے لگا۔ غرض بادشاہ اور شاہ صاحب میں رقابت بڑھتی جاتی تھی۔ آخر اسی سال نومبر کے مہینے میں برجیس قدر کی تخت نشینی کو چھے ہی سات مہینے ہوئے تھے کہ انگریزی فوج لکھنؤ پر تسلط حاصل کرنے کے لیے آ گئی۔ جس کے ساتھ پنجاب کے سکھ اور بھوٹان کے پہاڑی بھی تھے اور کہا جاتا ہے کہ انہی لوگوں نے زیادہ مطالم کیے۔ دو ہی تین دن کی گولہ باری میں نئی سلطنت کا جو نقش قائم ہوا تھا، مکڑی کے جالے کی طرح ٹوٹ کے رہ گیا۔ ہزارہا مفرورین کے ساتھ حضرت محل اور برجیس قدر نیپال کی طرف بھاگے۔ شاہ صاحب نے دو تین دن لڑ لڑ کے اگرچہ برجیس قدر کے لیے آزادی سے بھاگنے کا موقع پیدا کر دیا، مگر خود اپنی جان نہ بچا سکے شکست کھا کے بھاگے۔ باڑی اور محمدی ہوتے ہوئے پوائیں میں پہنچے۔ وہاں کسی نے گولی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 108
ماردی۔ پوائیں کے راجا نے سر کاٹ کے انگریزوں کے پاس بھیجا اور صلے میں انعام و جاگیر پائی۔ آبادی کو باغیوں سے صاف کرنے کے لیے انگریزوں نے شہر میں سخت گولہ باری کی۔ ساری رعایا گھبرا اٹھی۔ زن و مرد گھر چھوڑ کے بھاگے۔ اور ایک ایسی قیامت بپا ہو گئی کہ جن لوگوں نے دیکھا ہے، آج تک یاد کر کے کانپ جاتے ہیں۔ محلوں کی بیٹھنے والیاں، جن کی صورت کبھی آفتاب تک نہ دیکھی تھی، برہنہ پا جنگلوں کی خاک چھانتی پھرتی تھیں۔ بے کسی میں ایک ایک کا دامن پکڑتی تھیں۔ اور جو ملتا تھا، دشمن ہی ملتا تھا۔ اور سعدی کا یہ مصرع پوری طرح صادق آ رہا تھا کہ "یاران فراموش کر دند عشق" اسی حالت میں فتح یاب فوج نے شہر کو لوٹا۔ اور بعد خرابی بصرہ (بسیار؟) خدا خدا کر کے لوگوں کو پھر اپنے گھروں میں آنے کی اجازت ملی۔ اب ایک تہلکے کے بعد جو امن قائم ہوا تھا۔ وہ بفضلہ تعالا آج تک قائم اور روز بہ روز ترقی کرتا جاتا ہے۔ لیکن پُرانی دولت کے وابستگانِ دامن اور اعزّاے شاہی جو انقلاب سلطنت کے بعد بالکل بے کا ر ہو گئے، اور نئی سلطنت سے فائدہ اُٹھانے کی لیاقت نہ رکھتے تھے، مٹتے ہی چلے گئے۔ چنانچہ بڑے بڑے دولت مند اور معزّز گھرانوں کے پامال و تباہ ہونے کا سلسلہ مدّت تک برابر جاری رہا۔ محلے کے محلے اُجڑتے چلے جاتے تھے اور خاندان کے بعد خاندان مٹ رہا تھا۔ اور اکثر لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ چند روز کے بعد لکھنؤ کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ لیکن انجام میں سرکا ر انگریزی کی وہ تدبیریں جنہوں نے ساری دنیا میں انگریزوں کی نو آبادیاں قائم کرا دی ہیں، غالب آئیں۔ اور لکھنؤ، حوادثاتِ زمانہ کی دست برد سے بچ کے پنپا۔ جن کو مٹنا تھا، مٹ گئے اور جو باقی رہے، سنبھلنے کے قابل ہو گئے۔ اور اگر مسٹر بٹلر کے ایسے چند اور حاکم لکھنؤ کو مل گئے تو امید ہے کہ آیندہ بہت ترقی کرے گا۔
ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اسی سلسلۂ واقعات میں ہم واجد علی شاہ کی باقی ماندہ زندگی اور اُن کے قیامِ کلکتہّ کے حالات بھی اپنے ناظرین کے سامنے پیش کر دیں۔ کیوں کہ بغیر اس کے اس تاریخ کا تکملہ نہیں ہو سکتا۔ کلکتےّ میں خود ہمارا بچپن بادشاہ کے ظلِّ حمایت میں بسر
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 109

ہوا ہے۔ اور گذشتہ واقعات کے حالات اگر ہم نے لوگوں سے سن کے اور اوراقِ تاریخ میں پڑھ کے بیان کیے ہیں، تو آیندہ اکثر چشم دید حالات بیان کریں گے۔
کلکتے سے تین چار میل کی مسافت پر جنوب کی طرف دریائے بھاگارتی (ہو گلی) کے کنارے "گارڈن یچ" نام ایک خاموش محلّہ ہے۔ اور چوں کہ وہاں ایک مٹّی کا تودہ سا تھا اس لیے عام لوگ اُسے مٹیابرج کہتے تھے۔ یہاں کئی عالی شان کوٹھیاں تھیں، جن کی زمین دریا کے کنارے کنارے تقریباً دو ڈھائی میل تک چلی گئی ہے۔ جب واجد علی شاہ کلکتے پہنچے تو گورنمنٹ آف انڈیا نے یہ کوٹھیاں انہیں دے دیں۔ دو خاص بادشاہ کے لیے، ایک نوّاب خاص محل کے واسطے۔ اور ایک علی نقی خاں کی سکونت کے لیے، جو بادشاہ کے ساتھ تھے۔ اور ان کے گرد زمین کا ایک بڑا قطعہ جو عرض میں دریا کنارے سے تقریباً میل ڈیڑھ میل تک چلا گیا تھا اور اُس کا حلقہ چھے سات مییل سے کم نہ ہو گا، بادشاہ کو اپنے اور اپنے ملازمین کے قیام کے لیے دیا گیا۔ میونسپلٹی کی سڑک اِس رقبے کو طولاً قطع کرتی تھی۔ وہ دو کوٹھیاں جو بادشاہ کو دی گئی تھیں، اُن کے نام بادشاہ نے سلطان خانہ اور اسد منزل قرار دیے اور نواب خاص محل کی کوٹھی پر بھی جب بادشاہ نے قبضہ کر لیا تو اُس کا نام مُرصّع منزل رکھا۔ اور علی نقی خاں کی کو ٹھی آخر تک انہی کے قبضے میں رہی۔ اور اُن کے بعد اُن کی اولاد خصوصاً نوّاب اختر محل کے قبضے میں رہی۔ جو علی نقی خاں کی بیٹی اور بادشاہ کی ممتاز بی بی بلکہ اُن کے دوسرے ولی عہد مرزا خوش بخت بہادر کی ماں تھیں۔
غدر کے زمانے میں انگریزی فوج کے باغی افسروں نے ارادہ کیا کہ اگر بادشاہ اُن کے حکم راں بنیں تو وہ کلکتے میں بھی غدر کر دیں۔ مگر بادشاہ نے گورنمنٹ آف انڈیا کے معاملے میں یہ روش نہ تخت و تاج سے جدا ہوتے وقت اختیار کی تھی اور نہ اب پسند کی۔ بلکہ لاٹ صاحب کو ان لوگوں کے ارادے کی اطلاع کر دی، جس پر اُن کا شکریہ اد ا کیا گیا۔ مگر دو ہی چار روز بعد مناسب سمجھا گیا کہ بادشاہ کو قلعۂ فورٹ ولیم میں رکھا جائے تاکہ پھر کبھی باغیوں کی اُن تک رسائی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 110
نہ ہو سکے۔ لندن میں ان کی جانب سے جو مقدمہ پیش تھا وہ اس بنا پر ملتوی کر دیا گیا کہ جس ملک کے لیے یہ دعوا ہے وہ اب ہمارے قبضے ہی میں نہیں۔ جب اس پر پھر دولتِ برطانیہ کا قبضہ ہو لے گا تب دیکھا جائے گا۔
بادشاہ اس حراست ہی میں تھے کہ لکھنؤ کا غدر فرو ہو گیا اور مسیح الدین خاں نے جو لندن میں بادشاہ کے مختارِ عام تھے پھر اپنا دعوا پیش کیا۔ اُنہیں بادی النظر میں کامیابی اور استردادِ سلطنت کی پوری امید تھی۔ مگر بدقسمتی سے اُن لوگوں میں جو قلعے میں بادشاہ کے مشیر اور مصاحب تھے خواہ کسی بیرونی تحریک سے یا خود اپنے نفع کے خیال سے ایک سازش ہوئی۔ اِن لوگوں نے خیال کیا کہ اگر مسیح الدین خاں مقدمہ جیت گئے تو ہمارا بازار سرد پڑ جائے گا اور وہی وہ رہ جائیں گے۔ لٰہذا سب نے بادشاہ کو سمجھانا شروع کیا کہ "جہاں پناہ: بھلا کسی نے ملک لے کے دیا ہے؟ مسیح الدین خاں نے حضور کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ہونا ہوانا کچھ نہیں ہے اور جہاں پناہ مفت میں تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال سے تنخواہ نہیں لی ہے۔ ہر بات کی تنگی ہے اور ہم ملازمانِ دولت بھی پیسے پیسے کو محتاج ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ حضور گورنمنٹ انگریزی کی تجویزوں کو قبول کر لیں اور تنخواہ وصول کر کے اطمینان و فارغ البالی سے اپنے محلّات عالیات اور آستاں بوسانِ دولت کے ساتھ بسر فرمائیں۔"
بادشاہ کو خرچ کی تنگی تھی اور بادشاہ سے زیادہ اُن کے رفقا پریشان تھے ۔ مصاحبوں نے جب بار بار یہ تجویز پیش کی تو بلا تکلف حضور وائسرائے کی خدمت میں لکھ بھیجا: "مجھے سرکا ر انگریزی کی مجوّزہ ماہوار لینا منظور ہے۔ لہٰذا میری اس وقت تک کی تنخواہ دی جائے اور مقدمہ جو لندن میں دائر ہے خارج کیا جائے"۔ جواب ملا: اب آپ کو اوّل تو گذشتہ ایام کی ماہ وار نہ دی جائے گی۔ صرف اسی وقت سے ماہ وار جاری ہوگی ۔ دوسرے فقط بارہ لاکھ روپے سالانہ دیے جائیں گے۔ اور جو تین لاکھ روپے سالانہ آپ کے ملازمین کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔ اب اُن کے دینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔"
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 111
بہ ظن غالب، بادشاہ اس نقصان کو گوارہ نہ کرتے۔ مگر مصاحبوں نے اِس پر بھی راضی کر دیا۔ اور گورنمنٹ آف انڈیا نے انگلستان میں اطلاع دی کہ واجد علی شاہ نے گورنمنٹ کی تجویز کو منظور کر لیا، لہٰذا ان کا مقدمہ خارج کیا جائے۔ یہ واقعات میں نے خود اپنے نانا منشی قمرالدین صاحب کی زبان سے سُنے ہیں جو جنابِ عالیہ کے ہم راہی دفتر کے میر منشی اور مولوی مسیح الدین خاں کے نائب خاص تھے۔ اور کُل کاروائیاں انہی کے ہاتھ سے عمل میں آئیں تھیں۔ بادشاہ کے ماہ وار پر راضی ہو جانے کی خبر جیسے ہی لندن میں پہنچی مسیح الدین خاں کے حواس جاتے رہے۔ بادشاہ کی ماں اُن کے بھائی اور ولی عہد نے سر پیٹ لیا اور حیران تھے کہ یہ کیا غضب ہو گیا۔ افسوس، اس وقت تک کا سب کیا دھرا خاک میں ملا جاتا ہے۔ آخر مسیح الدین خاں نے سوچتے سوچتے ایک بات پیدا کی اور پارلی منٹ میں یہ قانونی عذر پیش کیا کہ " بادشاہ فی الحال گورنمنٹ آف انڈیا کی حراست میں ہیں اور ایسی حالت میں اُن کی کوئی تحریر پایۂ اعتبار کو نہیں پہنچ سکتی۔"
عذر معقو ل تھا، تسلیم کیا گیا۔ اور گورنمنٹ آف انڈیا کو بادشاہ کے مختار کی عذرداری سے مطلع کیا گیا۔ ساتھ میں مسیح الدین خاں اور تمام ارکانِ خاندانِ شاہی نے بادشاہ کو لکھا کہ " یہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں، ہمیں ملکِ اودھ کے واپس ملنے کی پوری امید ہے۔" اب عذر فرو ہو چکا تھا، گورنمنٹ نے بادشاہ کو چھوڑ دیا اور وہ خوشی خوشی قلعے سے نکل کر مٹیا برج میں آئے۔ اور آزادی حاصل ہوئی ہی تھی کہ مصاحبوں نے عرض کیا: " حضور! مسیح الدین خاں لندن میں یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاں پناہ نے تنخواہ لینے کو صرف قید ہونے کی وجہ سے منظور کر لیا ہے۔ " یہ سنتے ہی بادشاہ نے برافروختہ ہو کے اُسی وقت لکھ بھیجا کہ : " ہم نے آزادی سے بہ رضا و رغبت گورنمنٹ کی تجویز کو منظور کیا ہے اور مسیح الدین خاں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم نے قید میں ہونے یا کسی جبر و اکراہ کی وجہ سے منظوری دی ہے۔ لہٰذا ہم آیندہ کے لیے اس مختار نامے ہی کو منسوخ کیے
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 61

حکم تھا کہ جو کوئی یہاں آنا چاہے، کوئی ہو اور کتنا ہی بڑا شخص ہو، پہلے اس تلوار کو جُھک کر کے سلام کر لے، پھر آگے قدم بڑھائے۔ کس کی مجال تھی کہ اس حکم کی تعمیل میں عذر کرے؟ یہاں تک کہ دہلی سے جو والی اور حاکم مقرر ہو کے آتے تھے اور شیخوں سے ملنے جاتے، تو انہیں بھی جبراً و قہراً اس تلوار کے آگے ضرور سر جھکا دینا پڑتا۔

لکھنؤ کی یہ حالت تھی کہ 1161 محمدی (1732ء) میں نواب سعادت خاں برہان الملک، دربار دہلی سے اودھ کے صوبے دار مقرر ہو کے آئے، جن سے ہندوستان کے اس آخری مشرقی دربار کی بنیاد پڑی، جس کے عروج کو، ہم مشرقی تمدن کا آخری نمونہ قرار دے کے، بیان کرنا چاہتے ہیں، پہلے نمبر میں ہم نے فیض آباد کی حالت دکھائی جو اسی تمدن کا نقشِ اولین اور اسی مشرقی دربارِ لکھنؤ کا ایک ضمیمہ تھا۔ اس نمبر میں اس دربار کے قائم ہونے سے پیشتر کے لکھنؤ کی تصویر دکھا دی۔ اور اس بساط کو اپنے ناظرین کے پیش نظر کر دیا جس پر اس دربار نے اپنی شطرنج بچھائی۔ آیندہ چند نمبروں میں اس نیشاپوری خاندان کی تاریخِ حکومت بیان کریں گے۔ اور اس کے بعد دکھائیں گے یہ تمدن کیا اور کیسا تھا۔

(3)

نواب سعادت خاں بُرہان الملک کے خاندان کے متعلق اسی قدر بتا دینا کافی ہے کہ میر محمد نصیر نام، نیشا پور کے ایک سید زادے، جن کا سلسلہ نسب امام موسیٰ کاظم ؓ سے ملتا ہے، 1135 محمدی (1706ء) عہدِ بہادر شاہ میں واردِ ہندوستان ہوئے۔ ان کے بڑے بیٹے میر محمد باقر ساتھ ساتھ آئے تھے۔ جنہوں نے یہاں شادی کر لی اور باپ بیٹوں نے ناظم بنگالہ کی زیر حمایت عظیم آباد پٹنہ میں سکونت اختیار کی۔ محمد باقر کو ہندوستان کی بی بی سے خدا نے ایک بیٹا دیا جو بعد کو شیر جنگ کے معزز لقب سے مشہور ہوا۔

میر محمد نصیر کے آنے کے دو سال بعد، ان کے چھوٹے بیٹھے میر محمد امین بھی نیشا پور سے ہندوستان میں آ گئے۔ عظیم آباد پہنچے تو سُنا کہ والد نے سفرِ آخرت کیا۔ اور اب دونوں بھائی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 62

میر محمد باقر اور محمد امین دہلی کو روانہ ہوئے۔ جہاں پہنچ کے میر محمد امین کو شاہزادوں کی جاگیر کا ٹھیکہ مل گیا۔ اس میں انہوں نے ایسی لیاقت، مستعدی اور کارگزاری دکھائی کہ تمام لوگوں میں شہرت ہو گئی۔ اقبال برسریاری تھا۔ چند ہی روز بعد دربار شاہی کے معزز امیروں اور منصب داروں میں شامل ہوئے۔ پھر صوبے دار اکبر آباد کی بیٹی سے نکاح ہو گیا اور اس اعلا طبقۂ امرا میں شمار کیے جانے لگے، جس پر سلطنت کی ذمہ داری کی خدمتوں کے لیے انتخاب کی نظریں پڑتی تھیں۔

ان دنوں دہلی میں ساداتِ بارہہ کا زور تھا، جن سے رعیت تو رعیت، خود بادشاہ سلامت ڈرتے تھے۔ محمد امین نے ان کو قتل کرا کے سیدوں کا زور ہمیشہ کے لیے توڑ دیا اور لڑائی میں ایسی شجاعت دکھائی کہ دربار شاہی سے منصب ہفت ہزاری اور سات ہزار سواروں کی سرداری کے ساتھ "برہان الملک، بہادر جنگ" کا خطاب عطا ہوا۔ اور اسی وقت اکبر آباد کے صوبے دار مقرر ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہی خواصوں کی داروغگی عطا ہوئی جو بڑا معزز عہدہ تھا۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد وہ سوبہ اودھ کے صوبے دار اور اس کے ساتھ ہی بادشاہی توپ خانے کے داروغہ مقرر ہوئے۔ آدمی ہوشیار اور نہایت ہی بیدار مغز اور اس کے ساتھ بڑے بہادر اور شجاع تھے۔ شاہی توپ خانے کو اپنے ہاتھ میں لے کے انہوں نےا یسی زبردست قوت پیدا کر لی جیسی ان دنوں سارے ہندوستان میں کسی کو نصیب نہ تھی۔ اس زمانے میں کوڑا کے زمیندار بھگونت سنگھ نے سلطنت سے سرتابی کر کے بڑا زور باندھ رکھا تھا۔ اور کئی افسر جو اس کی سرکوبی کو گئے، اس کے ہاتھ سے مارے جا چکے تھے۔ آخر برہان الملک اس مہم پر مامور ہوئے اور یلغار کرتے ہوئے پہنچے۔ بلونت سنگھ نے چالاکی سے ان کو گھیر لیا اور لڑائی کا رنگ ایسا بگڑا نظر آیا کہ بڑے بڑے بہادروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مگر برہان الملک نے ایسی جواں مردی سے مقابلہ کیا کہ دیر تک دشمنوں کے نرغے میں ان کی لمبی سفید نورانی ڈاڑھی چمکتی اور رُعب ڈالتی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 63

رہی۔ تھوڑی دیر میں بھگونت سنگھ ان کے تیر کا نشانہ ہوا اور دشمن بھاگ کھڑا ہوا۔

برہان الملک کی دوسری مہم اس سے بھی زبردست تھی۔ ان دونوں مرہٹوں کا ہندوستان میں بڑا زور تھا۔ انہوں نے تاجدار دہلی سے چوتھ مقرر کرا لی تھی اور بڑے بڑے سورما ان کے نام سے کانپتے تھے۔ برہان الملک نے مرہٹوں کو زبردست فوج کے ساتھ جا کے ایسی سخت شکست دی کہ ان کے حواس جاتے رہے، نوک دم بھاگے اور برہان الملک نے تعاقب شروع کیا۔ واقعات تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس موقع پر برہان الملک زبردستی نہ روک دیے جاتے تو وہ بڑھ کے مرہٹوں کا استیصال کر دیتے اور سلطنت مغلیہ اپنے اگلے عہد شباب کی طرح سارے ہندوستان کی سیاہ و سفید کی مالک ہو جاتی۔ مگر اس بدنصیب زوال پذیر سلطنت کو مٹنا ہی تھا۔ درباریوں کی سازش اور مقربین دربار کے حسد نے برہان الملک کی رفتار کو رکوا دیا۔

اس بات نے برہان الملک کو یقین دلایا کہ بادشاہ میں اپنے نیک و بد کے سوچنے کی صلاحت نہیں اور اہل دربار بد دیانت و خود غرض ہیں، فوراً مرہٹوں سے صلح کر لی۔ پھر ارادہ کیا کہ اپنے صوبے میں جا کے قیام کریں اور سب سے الگ ہو کے اپنے علاقے کو مضبوط اور منتظم بنا دیں۔ غرض برہان الملک نے دل میں سمجھ لیا کہ اب سلطنت مغلیہ پنپنے والی نہیں ہے، اپنا صوبہ لے کے الگ ہو جانا ہی مناسب ہے اور دربار دہلی کو اس کی قسمت پر چھوڑ دینا چاہیے۔

لکھنؤ میں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، شیخ زادوں کا زور تھا۔ انہوں نے اپنی عادت کے موافق انہیں بھی روکا۔ مگر برہان الملک حکمت عملی سے داخل ہو گئے اور نکسیر بھی نہ پھوٹنے پائی، برہان الملک کے لکھنؤ میں داخل ہونے کے متعلق دو روائتیں مشہور ہیں، ایک یہ کہ وہ برابر بڑھتے چلے آئے، یہاں تک کہ اکبری دروازے پر روکے گئے۔ چونکہ وہ سابق کے تمام صوبے داروں کے خلاف تجربے کار، متین اور سنجیدہ شخص تھے، ٹھہر گئے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 64

اور محمود نگر میں پڑاو ڈال دیا۔ وہ ایک دن کے بعد شیخ زادوں کی دعوت کی۔ ان سے بڑی خاطر تواضع سے پیش آئے، لیکن جس وقت غافل شیخ زادے، الوانِ نعمت کا مزہ لوٹنے میں مصروف تھے، شاہی فوج خاموشی کے ساتھ چوک میں داخل ہو رہی تھی، جو برابر بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک کہ مچھی بھون کے پاس جا پہنچی۔

دوسری روایت یہ ہے کہ محمد خاں بنگش نے برہان الملک کو بتا دیا تھا کہ لکھنؤ کے شیخ زادے بڑے شورہ پشت ہیں، ان سے پیش پانا آسان نہیں۔ مگر قرب و جوار کے دوسرے شیوخ ان کے خلاف ہیں۔ آپ ان لوگوں سے مدد لیجیے اور انہی کی مدد سے لکھنؤ والوں کو زیر کیجیے۔ چنانچہ برہان الملک نے کاکوری میں قیام کر کے شیوخ کاکوری کو اپنے موافق بنا لیا۔ انہی کی مدد اور رہبری سے آگے بڑھے اور یہ سُن کے کہ محمود نگر اور اکبری دروازے میں مقابلے کا سامان کیا گیا ہے، اصلی راستے سے کترا کے مغرب کی طرف کٹ گئے۔ گئو گھاٹ کے پاس دریا کے پار اُترے اور پار کی طرف سے آہستہ آہستہ آ کے، اچانک مچھی بھون پر آ پڑے۔ غرض جو صورت ہو، انہوں نے بغیر اس کے کہ کوئی مزاحم ہو، قلعے پر قبضہ کر لیا۔

جب مچھی بھون پر قبضہ ہو گیا تو پھر کون دم مار سکتا تھا؟ شیخ زادوں کے تمام معزز لوگوں نے حاضر ہو کے، عاجزی سے سر جھکا دیا۔ برہان الملک ہاتھی پر سوار ہو کے شیخن دروازے میں داخل ہوئے اور اس تلوار کو جو بڑے بڑے بہادروں سے سلام لے چکی تھی، اپنی تلوار سے کاٹ کے گرا دیا۔ پھر شیخ زادوں سےکہا، "ہمارے قیام کے لیے مچھی بھون خالی کر دو۔" اس میں انہوں نے لیت و لعل کرنا چاہی مگر نہ چلی۔ آخر ایک ہفتے کی مہلت دی گئی اور اس مدت کے اندر شیوخ جو کچھ اسباب لے جا سکے، اُٹھا لے گئے اور جو رہ گیا، اس پر برہان الملک کے سپاہیوں نے قبضہ کیا۔ قلعے میں جا کے رہنے سے پہلے، اس کے پاس، جہاں خیمے ڈال کے وہ رہے تھے، وہاں ایک نوبت خانہ تعمیر کرا دیا جس میں دربار اودھ کے آخر عہد تک روزانہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 65

چھے وقت نوبت بجتی تھی۔

اُ س کے بعد برہان الملک، اجُدھیا میں گئے۔ اور دریا کنارے وہ بنگلا بنوایا جس کا حال ہم بیان کر چکے ہیں۔ لیکن وقتاً فوقتاً لکھنؤ میں آتے اور قیام کرتے تھے، کیونکہ صوبے کا مستقر یہی شہر تھا۔ اُن کے زمانے میں یہاں کئی نئے محلے آباد ہوئے۔ مگر یہ سب محلے اُن کے مغل سرداران فوج کے پڑاو کے مقامات تھے، جہاں مستقل سکونت کے لیے لوگوں نے مکان بنانا شروع کر دیئے۔ سید حسین خاں کا کٹرہ، ابو تراب خاں کا کٹرہ، خدا یار خاں کا کٹرہ، بزن بیگ خاں کا کٹرہ، وفا بیگ خاں کا کٹرہ، محمد علی خاں کا کٹرہ، باغ مہانرائن، سراے معالی خاں اور اسماعیل گنج، (جو مچھی بھون کے مشرق طرف تھا، اب کھد گیا) سب اُسی زمانے کے محلے یا بُرہان الملک کے سردارانِ فوج کی لشکر گاہیں ہیں۔

نواب برہان الملک چھے ہی برس اودھ اور لکھنؤ میں رہنے پائے تھے کہ 1167 محمدی (1738ء) میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا اور وہ نہایت ہی تاکید کے ساتھ دہلی میں بلائے گئے۔ اُس پُرفتن زمانے میں جو کچھ واقعات گزرے، اُن کو لکھنؤ سے تعلق نہیں۔ لکھنؤ میں اپنا نائب اور قائم مقام بنا کے وہ اپنے بھانجے اور داماد صفدر جنگ کو چھوڑ گئے تھے۔ نادر دہلی کو لوٹ چکا تھا اور قتلِ عام کرا چکا تھا، مگر ابھی وہی تھا کہ نواب بُرہان الملک نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کے بھتیجے شیر جنگ نے نادر شاہ سے سفارش اٹھوائی کہ نواب مرحوم کے بعد اودھ کے صوبے داری انہیں دی جائے۔ لیکن راجہ لچھمی نرائن نے جو بُرہان الملک کے معتمد عہدے داروں میں تھا، نادر شاہ کی خدمت میں اس مضمون کی ایک عرضداشت پیش کر دی کہ "نواب برہان الملک، شیر جنگ سے خوش نہ تھے۔ اور اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی اُن کو چھوڑ کے صفدر جنگ کو دی جو ان کی نیابت کرتے تھے اور اس وقت بھی اُن کی طرف سے وہاں موجود ہیں۔ بُرہان الملک کے مال و اسباب کی مالک سرکار ہے، جسے چاہے عطا کرے، اس لیے کہ کوئی ورثہ نہیں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 66

ہے، یہ بھی عرض ہے کہ صفدر جنگ بُردبار، خدا ترس، لائق اور وعدے کے سچے ہیں، اور سپاہ ان سے خوش ہے۔ قطعِ نظر اس کے حضور کےلیے بُرہان الملک نے دو کروڑ روپے کی رقم کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے ادا کرنے کا انتظام نواب صفدر جنگ نے کر لیا ہے۔ جس وقت حکم ہو، حاضر کئے جائیں۔ ان وجوہ سے امید ہے کہ حضور انہیں کی سفارش فرمائیں گے۔" یہ عرضداشت دیکھتے ہی نادر شاہ نے صفدر جنگ کے لیے محمد شاہ سے خود ہی خلعت صوبہ داری لے لیا۔ اور اپنے ایک مصاحب اور دو سو سواروں کے ساتھ اودھ میں صفدر جنگ کے پاس بھیجا۔ یوں خلعت صوبہ داری پہن کے صفدر جنگ نے وہ دو کروڑ کا نذرانہ نادار کے پاس بھجوا دیا اور اپنے علاقے پر حکومت کرنے لگے۔

صفدر جنگ کا پورا نام، مرزا مقین ابو المنصور خاں صفدر جنگ تھا۔ گو اُن میں بُرہان الملک کی سی سچی بہادری، سادگی، راست بازی اور جفا کشی نہ تھی، مگر نہایت فیاض، بلند حوصلہ، رحم دل، رعایا پرور اور منتظم تھے۔ شہر سے تین میل کی مسافت پر انہوں نے قلعۂ جلال آباد تعمیر کرایا۔ اور مچھی بھون کے اندر پنچ محلے کی جو قدیم عمارت تھی، اسے بھی شیخ زادوں سے لے لیا۔ اور اس کے عوض میں، دو گانواں میں 700 ایکڑ زمین شیخ زادوں کو رہنے اور بسنے کے لیے عطا کی۔ جس سے اگرچہ شیخ زادوں پر ظلم ہوا، مگر لکھنؤ کی آبادی کو وُسعت اور ترقی حاصل ہوئی۔ مچھی بھون کو صفدر جنگ نے از سرِ نو تعمیر کرایا اور اسے بہت درست کیا۔

لیکن صفدر جنگ پانچ ہی برس اپنے صوبے میں رہنے پائے تھے کہ دہلی میں ان کی طلبی ہوئی اور راجہ نول راے کو اپنی نیابت پر لکھنؤ میں چھوڑ کے، وہ دہلی چلے گئے۔ نول راے علم دوست، وقت کا پابند، جفاکش، بہادر اور بہت بڑا منتظم تھا، اور اس کے ساتھ اُسے خدا نے اپنے آقا کی کی سی الوالعزمی اور فیاضی بھی دی تھی۔ اس نے ارادہ کیا کہ مچھی بھون کے سامنے دریا پر ایک پُل تعمیر کرے۔ پایوں کی بنیاد ڈالنے کے گہرے کنویں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 67

کھدوائے۔ لیکن پایے بننا شروع نہیں ہوئے تھے کہ اپنے آقا کی طلب پر اسے احمد خاں بنگش کے مقابلے کے لیے جانا پڑا۔ اس مہم میں وہ بڑی زبردست فوج لے کے گیا، مگر مارا گیا اور پل کا کام جو چھڑا تھا، ناتمام پڑا رہ گیا۔

احمد خاں بنگش اس زمانے کا بہادر ترین شخص تھا۔ اس کے مقابلے کے لیے برہان الملک کی ضرورت تھی۔ صفدر جنگ اس کے حریف مقابل نہ ہو سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمد خاں کی اور ان کے ساتھ افاغنہ کی قوت ترقی کرتی گئی۔ صفدر جنگ نے لاکھ ہاتھ پاؤں مارے، خود شہنشاہ دہلی تک کو اس کے مقابلے پر لا کے کھڑا کر دیا، مگر اور قصبوں میں لوٹ مار شروع کر دی۔ خیر آباد پر قبضہ کر لیا۔ اور خود احمد خاں بنگش کا بیٹا محمود خان، فوج لے کے چلا کہ لکھنؤ پر قبضہ کر لے۔

1179 محمدی (1750ء) میں پٹھانوں نے ملیح آباد میں اپنا تھانہ قائم کیا۔ اور 1180 محمدی (1751ء)( میں محمود خاں کا کوئی عزیز، بیس ہزار فوج لے کے لکھنؤ کی طرف چلا۔ شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا۔ اور اپنا ایک کوتوال مقرر کر کے شہر میں بھیجا۔ صفدر جنگ کے آدمیوں سے شہر خالی تھا۔ جو چند تھے بھی، پٹھانوں کے آنے کی خبر سن کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور پٹھانوں کے کوتوال نے شہر میں آ کے بے اعتدالیاں شروع کر دیں۔

ان دنوں شیخ زادگانِ لکھنؤ میں سب سے زیادہ سربرآوردہ شیخ معز الدین تھے۔ وہ افاغنہ کے سردار سے شہر کے باہر جا کر ملے۔ اسی وقت کسی نے اس سے جا کے شکایت کی کہ شہر والے آپ کے کوتوال کی تحقیر و توہین کرتے ہیں اور کوئی اس کا حکم نہیں مانتا۔ شیخ معز الدین بولے، "کیا مجال ہے کہ کوئی ایسی گستاخی کرے۔ میں جاتا ہوں، مفسدوں کو سزا دوں گا۔" یہ کہہ کے واپس آئے اور تمام بھائی بندوں کو بلا کے کہا، "پٹھانوں کے قول و فعل کا اعتبار نہیں، بہتر یہ ہے کہ ہم نواب صفدر جنگ کا ساتھ دیں اور مقابلہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 68

کر کے پٹھانوں کو یہاں سے نکال دیں۔ اس کے بعد شیخ معز الدین نے گھر کا زیور بیچ کے فوج جمع کی اور سارے شیخ زادوں کو لے کوتوال پر حملہ کیا۔ وہ اپنی جان لے کے بھاگا اور شیخ صاحب نے کسی مغل کو درباری لباس پہنا کے اپنے مکان میں بٹھا دیا اور منادی کرا دی کہ صفدر جنگ نے اپنی طرف سے اس مغل کو کوتوال بنا کے بھیجا ہے۔ اس کے ساتھ ہی علیؓ کے نام کا ایک سبز جھنڈا کھڑا کیا۔ اور لوگ اس کے نیچے آ آ کے جمع ہونے لگے۔

یہ حالات سن کے پٹھانوں نے حملہ کر دیا۔ شیخ زادوں نے جان توڑ کے مقابلہ کیا۔ اور اپنی پرانی شجاعت دکھا دی۔ پٹھان مقابلے کی تاب نہ لا سکے، پندرہ ہزار فوج کے ساتھ بھاگے۔ اور موقع پا کے شیخ زادوں نے پٹھانوں کو سارے ملک اودھ سے نکال باہر کیا۔

دو سال بعد جب احمد خاں بنگش سے صلح ہو گئی، تو 1182 محمدی (1753ء) میں نواب صفدر جنگ پھر لکھنؤ میں آئے اور مہدی گھاٹ پر آ کے ٹھہرے۔ ایک خاص مکان اپنے رہنے کے لیے بنوایا اور سجایا اور سپاہ کی درستی میں مصروف ہوئے لیکن اس کی مہلت نہ ملی۔ اسی سال سلطان پور کے قریب پاپڑ گھاٹ میں پڑاو تھا کہ انتقال کیا۔ لاش پہلے فیض آباد کی گلاب باڑی میں لے جا کے زمین کے سپرد کی گئی۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہڈیاں دہلی میں لے جا کے دفن کی گئیں۔ جن پر نہایت ہی عالی شان مقبرہ موجود ہے۔ اور سیاحانِ ارض اسے آج تک عبر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

(4)

صفدر جنگ منصور علی خاں کے انتقال کے بعد 1182 محمدی (1753ء) میں ان کے بیٹے نواب شجاع الدولہ مسند نشین ہوئے، جن کے کچھ حالات اس مضمون کے پہلے حصے میں بیان ہو چکے ہیں۔ وہ ایک مضطرب اور بے قرار طبیعت کے الوالعزم فرماں روا تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کا عہد بڑے بڑے فتنوں اور یادگار زمانہ انقلابوں سے بھرا ہوا تھا۔ دنیا کی دو زبردست تاریخی قوموں اور قوتوں کی قسمت کا فیصلہ انہی کی آنکھوں کے سامنے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 69

ہوا۔ پہلے پانی پت کی محشر انگیز لڑائی ہوئی، جس میں احمد شاہ درانی، شجاع الدولہ اور نجیب الدولہ کے ساتھ خوانین روہیل کھنڈ کی تمام زبردست فوجیں ایک طرف تھیں اور مرہٹوں کا ٹیری دل دوسری طرف۔ اس لڑائی نے 1190 محمدی (1761ء) میں ایک ہی دن کے اندر فیصلہ کر دیا کہ ہندوستان چاہے مسلمانوں کا رہے یا نہ رہے۔ مگر مرہٹوں کا نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد بکسر کا قیامت خیز میدان گرم ہوا جس میں انگریزوں کی باقاعدہ فوج ایک طرف تھی اور شجاع الدولہ کا لشکر کثیر ایک طرف۔ اس لڑائی نے، جنگ پانی پت کے چار سال بعد، 1193 محمدی (1763ء) میں چوبیس گھنٹے کے اندر اس بات کا تصفیہ کر دیا کہ ہندوستان اب مسلمانوں کا نہیں انگریزوں کا ہے۔

ان لڑائیوں سے پہلے، شجاع الدولہ اگرچہ لکھنؤ ہی میں رہے، مگر بڑی بڑی مہموں، پولیٹکل مشغولیتوں اور فوجی اصلاحوں سے انہیں اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ شہر کی ترقی و آرایش کی طرف توجہ کریں۔ انہوں نے قلعے بنوائے۔ گڑھیاں قائم کیں۔ فوجی سامان اور آلات جنگ کو فراہم کیا۔ اس کی فرصت نہ ملی کہ اپنے گھر کو درست اوراپنے شہر کو آراستہ کریں۔ بکسر کی لڑائی کے بعد، جیسا کہ ہم بیاں کر چکے ہیں، وہ فیض آباد میں جا کے اقامت گزیں ہو گئے۔ اس لیے لکھنؤ ان کی برکتوں سے محروم رہ گیا۔ 1204 محمدی (1775ء) میں انہوں نے سفر آخرت کیا۔ اور نواب آصف الدولہ ان کے جانشین ہوئے۔

آصف الدولہ نے مسند حکومت پر قدم رکھتے ہی ماں سے ناراض ہو کے لکھنؤ کی راہ لی۔ اور یہی وہ زمانہ ہے جب سے دربار اودھ کی قوتِ فرماں روائی گھٹنے اور لکھنؤ کی ظاہری رونق بڑھنے لگی۔ بکر کا میدان جیتنے کے بعد انگریزوں نے دربارِ اودھ میں دخل دہی کے بہت سے حقوق حاصل کر لیے تھے۔ جن کی بنا پر یہاں فوجی ترقیوں کی روک ٹوک کی جاتی اور ہمیشہ غائر نظر سے اس بات کی نگرانی کی جاتی کہ حکومتِ اودھ کو پھر ایسی قوت نہ حاصل ہونے پائے کہ اس کی فوجیں دوبارہ انگریزی لشکر کے سامنے صف آرا ہو سکیں۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 70

تاہم شجاع الدولہ جب تک فیض آباد میں زندہ رہے، فوجی اصلاح ہی میں مصروف رہے۔ اور رات دن اسی بات کی دُھن تھی کہ جس طرح بنے، اپنی قوت کو بڑھائیں۔ چنانچہ منشی فیض بخش اپنی تاریخ فرح بخش میں اسی زمانے کا چشم دید حال بیان کرتے ہیں کہ، "جلدی بھرنے اور فیر کرنے کے اعتبار سے شجاع الدولہ کی فوج کی بندوقوں کے مقابلے میں انگیریزی فوج کی بندوقیں کوئی وقعت نہ رکھتی تھیں۔"

لیکن آصف الدولہ کا عہد شروع ہوتےہی یہ سب باتیں تشریف لے گئیں۔ انگریزوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے دخل دہی کے حقوق کر بڑھانا شروع کیا اور نہایت ہی دانائی سے آصف الدولہ کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ فوجی اصلاح کی طرف سے بے پروا ہو کے، دوسرے مشاغل میں جی بہلا لیں۔ آصف الدولہ کو خود بھی فوج کا زیادہ شوق نہ تھا۔ انہیں لٹانے اور مزے اڑانے کے لیے روپے کی ضرورت تھی، جو بغیر فوج کے موقوف کیے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ اس لیے انہوں نے تھوڑی سی فوج رکھ لی، باقی سب کو معزول کر دیا اور عیش و عشرت میں مصروف ہو گئے۔ وہ اپنے مغربی دوستوں کے اطاعت کیش دوست تھے۔ جو ان کے اشاروں پر چلتے اور ان کے مشووروں کے آگے کسی کی نہ سنتے۔

اس خلوص عقیدت کے صلے میں انگریزوں نے روہیل کھنڈ پر ان کا قبضہ کرا دیا۔ اپنی ماں، بہو بیگم صاحبہ کے ستانے اور لوٹنے کے لیے جب انہوں نے انگریزوں سے مدد مانگی، تو نہایت فیاضی کے ساتھانہیں اخلاقی مدد دی گئی۔ اوران کی طرف داری کی گئی۔ اس پر بھی ان کے زمانے تک انہیں یا لکھنؤ کی رعایا کو بہت ہی کم محسوس ہو سکا کہ ہمارے نظم و نسق میں کسی بیرونی قوت کو دخل ہے۔ جس کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ آصف الدولہ کی عام فیاضی اور عیش پرستی نے ساری رعایا کو بھی عیش پرست و عشرت طلب بنا دیا تھا۔ اور کسی کو موجودہ راحت و آرام کے آگے، انجام پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوتی تھی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 71

اس عیش پرستی کا نتیجہ تھا کہ ظاہری صورت میں ان دنوں لکھنؤ کے دربار میں ایسی شان و شوکت پیدا ہو گئی جو کہیں اور کسی دربار میں نہ تھی۔ اور ایسا سامان عیش جمع ہو گیا تھا جو کسی جگہ نہ نظر آتا۔ ان دنوں شہر لکھنؤ ایسی رونق پر تھا کہ ہندوستان ہی ن ہیں، شاید دنیا کا کوئی شہر لکھنؤ کے اوج و عروج کا مقابلہ نہ کر سکتا ہو گا شجاع الدولہ جو روپیہ فوج اور جنگی تیاریوں میں صرف کرتے تھے، اسے آصف الدولہ نے اپنی عیش طلبی کے ذوق اور شہر کی آرایش و خوش حالی میں صرف کرنا شروع کر دیا اور چند ہی روز کے اندر ساری دنیا کی دھوم دھام اپنے یہاں جمع کر لی۔ ان کا حوصلہ بس یہی تھا کہ نظام حیدر آباد ہوں یا ٹیپو سلطان، کسی دربار کا کروفر اور کسی کی شوکت و حشمت، میرے دربار سے زیادہ نہ ہو سکے۔

اپنے بیٹے وزیر علی خاں کی شادی میں انہوں نے ایسا حوصلہ دکھایا کہ برات کا تزک و احتشام تاریخ ارض کے تمام تکلفات سے بڑھ گیا۔ برات کے جلوس میں بارہ سو ہاتھی تھے۔ دولہا جو شاہی خلعت پہنے تھا، اس میں بیس لاکھ کے جواہرات ٹنکے ہوئے تھے۔ محفل طرب کے لیے دو عظیم الشان اور پرتکلف خیمے بنوائے گئے۔ جنمیں ہر ایک 60 فٹ چوڑا، 1200 فٹ لمبا اور 60 فٹ بلند تھا۔ اور ایسا عمدہ نقیس اور قیمتی کپڑا لگایا گیا تھا کہ ان دونوں کی تیاری میں سلطنت کے دس لاکھ روپے صرف ہو گئے۔

انہوں نے دریا کنارے مچھی بھون کے مغرب طرف دولت خانہ، رومی دروازہ اور اپنا یکتائے روزگار امام باڑا تعمیر کرایا۔ 1213 محمدی (1784ء) میں اودھ میں قحط پڑ گیا تھا اور شرفاے شہر تک فاقہ کشی میں مبتلا تھے۔ اس نازک موقع پر رعایا کی دست گیری کے لیے امام باڑے کی عمارت چھڑ دی گئی۔ چونکہ شریف لوگ دن کو مزدوری کرنے میں اپنی بے عزتی خیال کرتے تھے، اس لیے تعمیر کا کام دن کی طرح رات کو بھی جاری رہتا۔ اور غریب و فاقہ کش شرفاے شہر رات کے اندھیرے میں آ کے مزدوروں میں شریک

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 72

ہو جاتے اور مشعلوں کی روشنی میں کام کرتے۔ اس عمارت کو نواب نے جیسے خلوص عقیدت اور جوشِ دین داری سے بنوایا تھا، ویسے ہی خالص اور سچے دلی جوش سے لوگوں نے تعمیر بھی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی نفیس اور شان دار عمارت بن کر تیار ہو گئی، جو اپنی نوعیت میں بے مثل اور نادرِ روزگار ہے۔ اس کا نقشہ بنانے کے لیے بڑے بڑے مشہور مہندس اور معمار بلائے گئے اور سب نے کوشش کی کہ ہمارا نقشہ دوسروں کے مجوزہ نقشے سے بڑھ جائے۔ مگر کفایت اللہ نام ایک بے مثل زمانہ معمار کا نقشہ پسند کیا گیا اور اسی کے مطابق عمارت بننا شروع ہو گئی۔ جو 167 فٹ لمبی، 52 فٹ چوڑی ہے۔ اینٹ اور نہایت اعلا درجے کے چونے سے یہ عمارت بنائی گئی۔ جس میں فرش سے چھت تک لکڑی کا نام نہیں ہے۔ اس عمارت کو شاہانِ مغلیہ کی سنگین عمارتوں سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ لکھنؤ میں اس کثرت سے سنگ مرمر دستیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن امام باڑے اور آصف الدولہ کہ دوسری عمارتوں کو دیکھیے تو ایک نئی خوش نمائی اور نرالی عظمت و شان رکھتی ہیں۔ امام باڑے کی لداد کی چھت، جو کڑا دے کے بنائی گئی ہے، اتنی بڑی ہے کہ اتنی بڑی لداد کی چھت، ساری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ بھی دنیا کی عجوبۂ روز گار کاری گریوں میں شمار کی جاتی ہے۔

آصف الدولہ کی عمارتوں پر، یورپ کی عمارتوں کا ذرا بھی اثر نہ تھا۔ وہ اپنی نوعیت میں خالص ایشیائی ہیں جن میں نمایشی نہیں، اصلی و حقیقی شان و شوکت پائی جاتی ہے۔ نواب آصف الدولہ کے بعد یہ عمارتیں کسمپرسی میں پڑی رہیں۔ غدر کے بعد انگریزوں نے ان پر قبضہ کر کے، گرد و پیش کے مکانوں کو منہدم کر دیا۔ اور سوا اس جانب کے جدھر دریا ہے، باقی تینوں طرف میدان کر کے، امام باڑے کو قلعہ اور رومی دروازے کو اس کا پھاٹک بنا لیا۔ اس زمانے میں اس امام باڑے میں گورے رہتے تھے۔ اس کے بڑے ہال میں مسلح خانہ تھا اور اس کے فرش پر بڑی بڑی توپیں دوڑتی پھرتی تھیں۔ مگر نہ کبھی زمین کُھدی نہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 73

دو و دیوار کی کوئی چیپ اُکھڑی۔ اب سرکار انگریزی نے امام باڑے کو چھوڑ کے پھر مسلمانوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی مسجد میں ایک مجتہد صاحب نماز پڑھاتے ہیں اور امام باڑے میں تعزیہ داری ہوتی ہے۔

نواب آصف الدولہ کی عمارتوں کی مضبوطی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انہیں تعمیر ہوئے اگرچہ سوا سو برس سے زیادہ کی مدت گزر گئی، مگر آج تک اسی عظمت و شکوہ اور اسی مضبوطی و پائیداری سے اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ نہ کوئی اینٹ اپنے مقام سے ہٹتی ہے اور نہ کسی جگہ چونے نے اینٹوں کو چھوڑا ہے۔ بہ خلاف ان کے، دیگر شاہان اودھ نے کروڑوں روپے صرف کر کے جو عمارتیں بعد کو بنوائیں، وہ قومی و ملکی وضع داری کے مفقود ہو جانے کے علاوہ نہایت کمزور ہیں۔ اور اگر وقتاً فوقتاً مرمت نہ ہوتی رہتی تو آج تک کب کی منہدم ہو چکی ہوتیں۔

آصف الدولہ، امام باڑے اور مچھی بھون کے متصل اپنے محل "دولت خانے" میں رہتے تھے۔ شہر کے باہر اور دریا پار، ہجومِ خلائق سے دور اور دُنیوی جھگڑوں سے الگ رہ کے مصروف عیش ہونے کے لیے ببیاپور کا محل بنوایا۔ اکثر جب وہ سیر و شکار کے لیے جاتے تو اسی مکان میں قیام کرتے۔ اسی طرح چنہٹ میں ایک پُر فضا و تُرہت بخش مکان، اور چار باغ اور عیش باغ میں کوشکیں بنوائیں۔ اور اسی زمانے میں یحیٰ گنج میں اور اس کے متصل اصطبل بنے۔ پھر محلہ وزیر گنج قائم ہوا جو آصف الدولہ کے بیٹے وزیر علی خاں کی قیام گاہ ہونے کے باعث انہیں کی طرف منسوب اور انہیں کی یادگار ہے۔

اب لکھنؤ میں حاکم اور فرماں روا کے مستقل طور پر سکونت پذیر ہو جانے کی وجہ سے عام خلقت کا رخ لکھنؤ کی طرف پھر گیا۔ جو لوگ شجاع الدولہ کے زمانے میں فیض آبد میں بس گئے تھے، انہوں نے فیض آباد کو چھوڑ چھوڑ کے لکھنؤ میں آ آ کے بسنا شروع کیا۔ دوسری طرف دہلی کے لوگ اپنے وطن کو خیرباد کہہ کہہ کے سیدھے لکھنؤ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 74

میں آتے تھے اور پھر جانا نہ نصیب ہوتا تھا۔ خلقت کے اس ہجوم نے نئے محلے آباد کرنا شروع کر دیے، اس لیے کہ باہر کے آنے والوں میں سے جسے جہاں جگہ مل جاتی، آباد ہو جاتا اور سیکڑوں نئے محلے آباد ہوتے چلے جاتے۔

چنانچہ امانی گنج، فتح گنج، رکاب گنج، نخاس، دولت گنج، بیگم گنج، نواب گنج، خانساماں کا احاطہ، (جسے نواب آصف الدولہ کے ایک خانگی داروغہ نے آباد کیا۔ اور افتتاح کی تقریب میں خود انہیں بلایا)،، ٹکیٹ گنج، ٹکیٹ راے کا بازار (جو وزیر اعظم سہا راجا ٹکیٹ راے کی جانب منسوب ہیں) ترمنی گنج، ٹکڑی یا ٹکلی، حسین الدین خاں کی چھاؤنی، حسن گنج، باولی، بھوانی گنج، بالک گنج، کشمیری محلہ، صورت سنگھ کا احاطہ، نواز گنج، تحسین گنج، خدا گنج، نگریا (جس کی نواب آصف الدولہ کی ماں بہو بیگم صاحبہ نے اسی دن بنیاد ڈالی، جس دن دریا پار خود انہوں نے علی گنج کی بنیاد رکھی تھی) عنبر گنج، محبوب گنج، توپ دروازہ، خیالی گنج، جھاو لال کا پُل (ان دونوں محلوں کے بانی راجہ جھاو لال، سلطنت اودھ کے وزیر خزانہ تھے) یہ سب وہ محلے ہیں جو عہد آصفی میں بسے اور تعمیر ہوئے۔ اور انہیں دنوں دریا کے پار حسن رضا خاں نے حسن گنج بسایا۔

نواب آصف الدولہ کی فیاضیوں کی خاص و عام میں شہرت تھی اور دُور دُور کے شہروں میں ان کی داد و دہش کا تذکرہ ہو رہا تھا، لوگ اٹھتے بیٹھتے عزت و محبت کے ساتھ ان کا نام لیتے۔ اور ان کے تمام ذاتی عیوب، فیاضی کے دامن میں چھپ کے نظروں سے غائب ہو گئے تھے۔ اور عوام کو، نواب کی صورت میں ایک عیش پرست فرماں روا نہیں بلکہ ایک بے نفس اور درویش صفت ولی نظر آتا۔ ہندہ دکان دار آج تک صبح کو آنکھ کھلتے ہی جوشِ عقیدت سے کہتے ہیں "یا آصف الدولہ ولی۔"

اُسی زمانے میں جنرل کلاڈ مارٹن نام ایک بہت بڑا دولت مند فرانسیسی تاجر لکھنؤ میں آ کے رہ پڑا تھا۔ اس نے ایک نہایت ہی عالی شان کوٹھی کا نقشہ بنا کے، نواب

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 75

آصف الدولہ کے ملاحظے میں پیش کیا۔ نواب نے اسے اس قدر پسند کیا کہ اس کی قیمت میں دس لاکھ اشرفیاں دینے کو تیار ہو گئے۔ بیع کا معائدہ تکمیل کو نہیں پہنچنے پایا تھا کہ نواب آصف الدولہ نے سفر آخرت کیا۔ اور عمارت ہنوز تکمیل کو نہیں پہنچی تھی کہ خود موسیو مارٹن دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے چوں کہ دولتِ بے پایاں چھوڑی تھی اور وارث کوئی نہ تھا، اس لیے مرتے وقت وصیت کر دی کہ میری لاش اسی کوٹھی کے اندر دفن کی جائے تاکہ میرے بعد اسے حکمرانانِ اودھ ضبط نہ کر سکیں۔ اس عمارت کا نام انہوں نے کانسٹین شیا (قسطنطنیہ) قرار دیا تھا مگر عوام میں وہ آج کل "مارکین (مارٹین؟) صاحب کی کوٹھی" مشہور ہے اور دیکھنے کے قابل ہے۔ مرنے کے بعد وہ اسی کوٹھی میں دفن ہوئے۔ وہ مدرسہ آج تک جاری ہے۔ جس سے بہت سے طلبہ کو کھانا اور کپڑا ملتا ہے۔ مگر سنتے ہیں کہ مارٹن صاحب نے اس اسکول اور اس کے وظائف کو کسی مذہب اور قوم کے ساتھ مخصوص نہیں کیا تھا، بلکہ وصیت کی تھی کہ عیسائی،ہندو، مسلمان سب ہی یکساں طور پر اس سے فیضیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اب یہ مدرسہ صرف یورپین بچوں کے لیے مخصوص ہے۔ کسی ہندوستانی کو وظیفہ ملنا درکنار، اس کی تعلیم میں بھی بھی شریک نہیں کیا جاتا۔ شاید یہ اس وجہ سے ہو کہ غدر کے زمانے میں جاہل و پُرجوش بلوائیوں نے قبر کھود کے مسٹر مارٹن کی ہڈیاں نکال لیں اور انہیں ادھر اُدھر پھینک دیا۔ انگریزوں کو بعدِ تسلط اتفاقاً ایک ہڈی مل گئی، جو پھر اسی خاک میں دبا دی گئی۔ لیکن اُن بلوائیوں کے فعل کے ذمے دار، عام ہندوستانی نہیں ہو سکتے۔

1227محمدی (1798ء) میں نواب آصف الدولہ نے سفرِ آخرت کیا اور انکی جگہ نواب وزیر علی خاں مسند نشین ہوئے، جن کی شادی کی دھوم دھام کا حال ہم بتا چکے ہیں۔ مگر چار ہی مہینے میں ان سے ایسے بے ہودہ اور قابل نفرت حرکات ظاہر ہوئے کہ اکثر لوگ ان سے ناراض تھے۔ خود بہو بیگم صاحب ان کے مقابل اپنے سوتیلے بیٹھے، یمین الدولہ نواب سعادت علی خاں کو زیادہ پسند کرتی تھیں۔ ادھر اس خبر کی شہرت ہوئی کہ وزیر علی خاں،
 

شمشاد

لائبریرین
گذشتہ لکھنؤ صفحہ 76

آصف الدولہ کے بیٹے ہی نہیں ہیں، کیونکہ آصف الدولہ کی نسبت بہتوں کا خیال تھا کہ پیدایشی عنین تھے۔

نواب سعادت علی خاں، آصف الدولہ کی مخالفت کے باعث، ان کے زمانے میں مدتوں قلمرو سے باہر اور دور رہتے تھے۔ مدتوں کلکتے میں رہے اور ایک زمانہ دراز تک بنارس میں قیام رہا۔ وزیر علی خاں کی نسبت یہ خیال قائم ہونے کے بعد، قرعۂ انتخاب سعادت علی خاں پر پڑا، وہ بنارس سے لائے گئے اور ببیاپور کی کوٹھی میں خود گورنر جنرل بہادر نے دربار فرما کے، وزیر علی خاں کی معزولی اور نواب سعادت علی خاں کی مسند نشینی کا فیصلہ کیا۔ وزیر علی خاں فوراً گرفتار کر کے بنارس بھیج دیے گئے۔ جہاں انہوں نے طیش میں آ کے، مسٹر چری کو مار ڈالا اور اس کی سزا میں گرفتار کر کے چنار گڑھ بھیجے گئے۔ اور وہیں مرے۔ ان کی مصیبتوں اور سرگردانیوں کا ایک بڑا بھاری قصہ مشہور ہے، جس کا یہ مختصر مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔

(5)

نواب سعادت علی خاں نے 1227 محمدی (1798ء) میں تخت پر بیٹھتے ہی آدھا ملک انگریزوں کی نذر کر دیا۔ مشہور ہے کہ وہ سلطنت سے مایوس و ناامید بنارس میں پڑے ہوئے تھے کہ خبر پہنچی، نواب آصف الدولہ نے سفرِ آخرت کیا اور مسند حکومت پر وزیر علی خاں بیٹھ گئے۔ یہ سنتے ہی سلطنت کی رہی سہی امیدیں بھی خاک میں مل گئیں۔ اس قطعی یاس کے عالم میں تھے کہ بنارس کے کسی یورپین حاکم نے آ کے پوچھا :

"نواب صاحب! اگر آپ کو اودھ کی حکومت مل جائے تو انگریزی حکومت کو کیا دیجیے گا؟" جو چیز ہاتھ سے جا چکی ہو، انسان کے دل میں اس کی قدر ہی کیا ہوسکتی ہے؟ بے اختیار زبان سے نکلا، "آدھا ملک انگریزوں کی نذر کر دوں گا۔" یہ وعدہ سن کے اس انگریز حاکم نے کہا، "تو آپ خوش ہوں اور میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ آپ ہی فرماں روائے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 77

لکھنؤ منتخب ہوئے ہیں۔" سعادت علی خاں یہ مژدۂ غیر مترقبہ سن کے خوش تو ضرور ہوئے مگر اپنے وعدے کا خیال آیا تو ایک سناٹے میں آ گئے۔ اور آخر تخت نشینی کے بعد اس وعدے کے ایفا میں انہیں اپنی آدھی قلرو بانٹ دینا پڑی، جس کا کانٹا زندگی بھر ان کے دل میں کھٹکتا رہا۔

انگریزی تاریخوں میں ان سے وعدہ لیے جانے کا تو ذکر نہیں ہے، مگر اس کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ نواب سعادت علی خاں کو چوں کہ انگریزوں نے تخت پر بٹھایا تھا، اس لیے انہوں نے اپنا آدھا ملک شکریے کے طور پر انگریزوں کی نذر کر دیا۔ بہر تقدیر، جو کچھ ہوا، سعادت علیخاں کی تخت نشینی کے وقت اودھ کی حکومت آدھی رہ گئی۔ لکھنؤ کے پرانے لوگوں میں مشہور ہے کہ اسی کوفت میں سعادت علی خاں نے نہایت ہی کفایت شعاری سے کام لے کے، اور تحصیل وصول میں بے انتہا مستعدی و بیدار مغزی ظاہر کر کے بائیس تیئیس کروڑ روپیہ جمع کیا۔ اور انگلستان میں برٹش گورنمنٹ سے مراست کر کے یہ طے کر لیا تھا کہ ہندوستان کی حکومت کا ٹھیکہ بہ عوض ایسٹ انڈیا کمپنی کے ان کو دے دیا جائے۔ اور معاہدے کی تکمیل ہونے ہی کو تھی کہ اُن کے سالے نے کسی سازش میں شریک ہو کے زہر دے دیا۔ اور وہی مثل پوری ہوئی کہ ع آن قدح بشکست و آن ساقی نہ ماند۔

یہ اور اسی قسم کے بیسیوں واقعات مشہور ہیں۔ جن کا ثبوت سواے افواہی روایتوں کے اور کچھ نہیں مل سکتا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ سعادت علی خاں اس قدر جُزرس اور منتظم واقع ہوئے تھے کہ اں کے سے حاکم نے قلمرو کا کوئی جُز آسانی سے نہ دیا ہو گا۔ دوسرے ان کے طرزِ عمل اور ان کی پالیسی میں ایک ایسی مضطربانہ ہوشیاری اور پُراسرار بے قراری نظر آتی ہے کہ چاہے پتا نہ چلے، مگر صاف معلومہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے والے تھے، اور ان کے تیور بہت ہی پُر معنی تھے۔

ملک کو بانٹ دینے کی وجہ سے انہیں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 78

سلطنت کی نصف آمدنی گھٹ گئی۔ اور آصف الدولہ مرحومنے مصارف حد سے زیادہ بڑھا رکھے تھے۔ چنانہ انہیں دربار کے مصارف گھٹانا پڑے، جو نہایت ہی مشکل چیز تھی۔ اس کوشش میں انہوں نے حسابات کی جانچ کی۔ ادنا ادنا رقموں پر نظر ڈالی، معافیوں اور جاگیروں کی نہایت سختی کے ساتھ چھان بنان کی، دربار کے مصارف میں جہاں تک بنا، کمی کی۔ غرض جس طرح ہو سکا، بدنامیاں اتھا کے اور لوگوں پر سخت بے رحمیاں کر کے انہوں نے سلطنت کی آمدنی بڑھائی اور خرچ گھٹایا۔

یہ کاروائیاں دیکھ کے ذی ہوش اور منصف مزاج لوگ تو سعادت علی خاں کی لیاقت اور خوش تدبیری کے قائل ہو گئے، مگر عوام میں بے انتہا ناراضی پھیلی۔ ایک طرف ان معافی داروں اور جاگیرداروں کا گروہ شاکی تھا جن کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں، دوسری طرف وہ فضول اور ازکار رفتہ ملازمین روتے پھرتے تھے جن کی جگہیں تخفیف میں آ گئی تھیں۔ اسی قدر نہیں، ملک میں ایک بڑا بھاری گروہ ان لوگوں کا بھی تھا، جو وزیر علی خاں کے طرف دار تھے، ان کو جائز اور سچا حق دار سلطنت خیال کر کے، نواب سعادت علی خاں کو غاصب بتاتے تھے۔ غرض ملک میں ہزاروں دشمن تھے، جن سے خطرہ تھا کہ نواب کی جان پر حملہ نہ کر بیٹھیں۔ رعایا کے علاوہ فوج بھی نئے نواب سے نہایت ناراض تھی۔ بے شمار فوج کا ٹیری دل جو نواب شجاع الدولہ کے عہد میں تھا، اس میں آصف الدولہ ہی کے زمانے سے سرکار انگریز بہادر کے مشورے سے تخفیف شروع ہو گئی تھی۔ مگر آصف الدولہ کی فیاضیوں اور فضول خرچیوں نے بہلائے رکھا اور شکایت کی آواز زیادہ نہین بلند ہونے پائی۔ سعادت علی خاں نے جب زیادہ تخفیف کی اور اسکے ساتھ جُزرسی بھی اختیار کی، تو ہر طرف ہائے ہائے پڑ گئی۔ اور جو تھا، ان کی جان کو رہ رہا تھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی جان کی حفاظت کے لیے سرکار انگریزی کو ضرورت معلوم ہوئی کہ انگیریزی باضابطہ فوجی گارڈ خاص شہر کے اندر رکھا جائے۔ کیوں کہ شہر کے مفسدوں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 79

اور سرکشوں کی سرکوبی کے لیے اور نیز امن و امان قایم رکھنے کی غرض سے، ایک بیرونی زبردست قوت کا ہر وقت شہر میں رہنا بہت ہی ضرورتی تھا۔ جس کی نسبت سُنا جاتا ہے کہ نواب سعادت علی خاں نے اس کو نہایت ہی ناگواری کے ساتھ منظور کیا۔

فرماں روایان، اودھ نے اس سے پیش تر اپنے رہنے سہنے کے متعلق نہایت ہی سادگی ظاہر کی تھی۔ پہلے تین حکمرانوں یعنی نواب بُرہان الملک، نواب صفدر جنگ اور نواب شجاع الدولہ نے جن سادے مکانوں میں زندگی بسر کی، وہ بھی ان کی ذاتی ملکیت نہیں، بلکہ کرایے پر تھے۔ انہوں نے اپنا اصلی مکان یا تو میدان جنگ کو خیال کیا یا ساری مملکت کو جس میں دورہ کرتے رہتے اور ساری مملوکہ زمین کے ہر حصے کو اپنا مسکن و مکان تصور کرتے۔ نواب آصف الدولہ اگرچہ نہایت ہی مسرف تھے، عیاشی و فضول خرچی میں بدنام تھے، مگر ان کے لیے بھی صرف ایک سادہ پرانی قطع کا مکان یعنی پنچ محلا کافی تھا۔ حالانکہ انہیں عمارت کا بڑا شوق تھا۔ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ بیس لاکھ روپے ایک امام باڑے اور مسجد کی تعمیر میں صرف کر دیے اور اس سے زیادہ ہی رقم چوک، مختلف بازاروں، منڈیوں، پُلوں اور سرایوں وغیرہ کی تعمیر اور فوجی سامان کے فراہم کرنے میں پورا ہوتا تھا، تو آصف الدولہ کا شوق دین داری کی عمارتوں یا نفع رسانی خلق اللہ کے کاموں میں۔ اس کے ساتھ، عمارت کا قدیم مذاق بھی اب تک نبھتا چلا جاتا تھا۔ آصف الدولہ کے امام باڑے تک تک عمارتیں قدیم مذاقِ تعمیر کا مکمل ترین نمونہ ہیں۔ دہلی و آگر ے میں شاہ جہاں بادشاہ کو اعلا درجے کا سنگ رخام اور سنگ سرخ، قریب کی کانوں میں مل گیا تھا، جس نے وہاں کی عمارتوں میں خاص قسم کی نفاست اور اعلا درجے کی شان پیدا کرا دی۔ لکھنؤ میں پتھر کا ملنا غیر ممکن تھا، اور آگرے اور جے پور سےلانا اس قدر دشوار تھا کہ کسی کو منگوانے کی جرأت نہ ہو سکتی تھی۔ آصف الدولہ نے اینٹ اور چونے سے وہی کام لیا اور ویسی ہی شان داری

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 80

دکھا دی۔

نواب سعادت علی خاں کو باوجود کفایت شعاری، جُزرسی اور روپیا جمع کرنے کی ہوس کے، مکانوں اور عمارتوں کا شوق تھا مگر افسوس، ان کا یہ شوق کلکتے وغیرہ میں رہنے اور مختلف مقامات کی عمارتوں کے دیکھنے کی وجہ سے ایسا غارت ہو گیا تھا کہ ان کے عہد کی عمارتوں سے وہ پرانی خصوصتیں جدا ہو گئیں۔ اور اس وقت سے گویا عمارت کا مذاق ہی بدل گیا۔

لکھنؤ میں اس انقلابِ تعمیر کا اصلی باعث کچھ تو تخت نشینی سے پہلے نواب سعادت علی خاں کی غریب الوطنی خانہ بدوشی اور اقوام یورپ سے ملنا جلنا تھا، اور زیادہ تر یہ چیز تھی کہ جنرل مارٹن نے اپنے مذاق کی دو ایک کوٹھیاں یہاں بنوا کے ایک نئی وضع عمارت فرماں رواؤں کے سامنے پیش کر دی، جو بہ لحاظ مضبوطی کے ناقص اور بہ اعتبار ضروریات زندگی کے نہایت ہی دل فریب تھی۔ ان عمارتوں کی حالت بالکل اُن کھلونوں کی سی تھی جو بچوں کے ہاتھ میں دے دیئے جاتے ہیں اور رعز ٹوٹتے اور نئے خریدے جاتے ہیں۔ ناقدینِ یورپ تنقید کرتے وقت بڑے زور شور سے اعتراض کرتے ہیں کہ آصف الدولہ کے بعد والے فرماں روایانِ لکھنؤ کا مذاقِ عمارت بالکل بگڑ گیا تھا اور ان کی تمام عمارتیں، لڑکوں کے کھلونے یا لڑکیوں کے گھروندے ہیں۔ مگر ادھر توجہ نہیں کرتے کہ یہ مذاق بگاڑا کس نے؟ کہا جاتا ہے کہ یہاں کا قومی مذاق اس لیے بگڑ گیا کہ یہاں دراصل کوئی قوم ہی نہیں تھی۔ اور اس کا خیال نہیں کیا جاتا کہ یہاں کی قومیت کو بگاڑا کس نے؟ اور کس کی کرشمہ سازیوں نے لوگوں سے اُن کی پرانی وضع چُھڑا دی؟ سچ یہ ہے کہ ع

ای بادِ صبا این ہمہ آوردۂ تست

سعادت علی خاں نے پہلے کوٹھی فرحت بخش پچاس ہزار روپے پر جنرل مارٹن سے مول لی۔ اس میں رہنا شروع کیا اور اس کے متصل اور کئی مکان بنوائے، پھر وہاں

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 81

قریب ہی، صاحب ریزیڈنٹ کی سکونت کے لیے ٹیڑھی کوٹھی تعمیر کی، جس کے کھنڈر، ریذڈنسی کے اندر پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد اپنے دربار کے لیے انہوں نے لال بارہ دری تعمیر کرائی۔ جس میں اب کتب خانہ ہے اور ان دنوں قصر السلطان کے نام سے مشہور تھی۔ اس کے علاوہ، دریا پار انہوں نے دل آرام نام ایک نئی کوٹھی تعمیر کی اور اسی سلسلے میں ایک بلند ٹیکرے پر، جو اب صدر یعنی لشکر گاہِ لکھنؤ کے علاقے میں واقع ہوا ہے، اور جہاں سارے شہر، گرد کے میدانوں اور دریا کا دل کش منظر نظر کے سامنے ہو جاتا ہے، ایک خوبصورت کوٹھی تعمیر کی اور دل کشا اس کا نام رکھا۔ اسی طرح ایک اور کوٹھی تعمیر کی جس کا نام حیات بخش قرار دیا۔ مگر وہ کوٹھی، نواب سعادت علی خاں کے بعد کے فرماں روایانِ اودھ کے استعمال میں نہیں رہی۔ اس میں غدر سے پہلے میجر بینک رہتے تھے اور غدر کے بعد یہ معمول تھا کہ انگریزی گورنمنٹ کی طرف سے جو معزز یورپین، اودھ کے چیف کمشنر مقرر ہو کے آتے، اسی کوٹھی میں قیام کرتے۔

مذکورہ بالا کوٹھیوں کے علاوہ نواب ممدوح نے مشہور عمارتیں، منور بخش اور خورشید منزل بھی تعمیر کرائیں اور چوپڑ کا اصبطل بھی انہی کی یادگار ہے۔ مگر ان سب عمارتوں کی تعمیر میں پرانی وطنی عمارت کی وضع ترک کر دی گئی۔ اور یورپ سے آئی ہوئی نئی جدتیں اختیار کی گئیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس بارۂ خاص میں لکھنؤ کا کوئی قیدم مکان ان نئی عالی شان عمارتوں کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا جو خود دولتِ برطانیہ کے اثر اور اہتمام سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں تعمیر ہو چکی ہیں، یا روز بہ روز تعمیر ہوتی جاتی ہیں۔ غرض یہی زمانہ ہے جب سے لکھنؤ میں ان قدیم مذاق کی عمارتوں کا خاتمہ ہو گیا جو تاریخی وقعت رکھتی ہوں اور کسی خاص خوبی کےلحاظ سے سیاحوں کو اپنی طرف بلاتی ہوں۔

نواب سعادت علی خاں نے لکھنؤ کے مغربی حصے میں ایک بڑا گنج بنوایا اور

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 82

اس کی آبادی اور رونق کے لیے اس قدر اہتمام کیا کہ اس کے واسطے خاص قوانین فصع کیے گئے اور تاجروں اور دکانداروں کو خاص قسم کے حقوق عطا کیے گئے۔ اس نے بڑی رونق پائی اور آج تک باوجودے کہ شہر کی آبادی سے فاصلے پر اور بالکل الگ واقع ہوا ہے، مختلف چیزوں کی سب سے بڑی منڈی ہے اور عالم نگر کا اسٹیشن صرف اسی کی وجہ سے روز بروز ترقی پاتا جاتا ہے۔

سعادت گنج کے علاوہ دوسرے بڑی بازار جو نواب ممدوح کے عہد میں قائم اور آباد ہوئے، حسبِ ذیل ہیں : رکاب گنج (جو آج لوہے کی سب سے بڑی اور غلے وغیرہ کی ایک ممتاز منڈی ہے)، جنگلی گنج، مقبول گنج، مولوی گنج، گولا گنج اور رستوگی محلہ، موتی محل میں جو آصلی اور پرانی عمارت ہے، وہ بھی نواب سعادت علی خان ہی کی بنوائی ہوئی ہے۔ یہ عمارت موجودہ احاطۂ موتی محل میں شمال کی طرف واقع ہے۔ اس میں نہایت ہی سفید گنبد تھا جس میں کاریگر نے موتی کی سی آب و تاب پیدا کر دی تھی۔

سعادت علی خاں، اودھ کے تمام فرماں رواؤں سے زیادہ بیدار مغر و مدبر اور اس کے ساتھ نہایت ہی کفایت شعار، جُزرس بلکہ بخیل خیال کیے جاتے ہیں۔ ملک کا انتظام انہوں نے غیر معمولی ہوشیاری اور خوبی و شایستگی سے کیا اور اس میں ذرا شک نہیں کہ اگر ان کو آخر عہد تک پورا اطمینان نصیب ہو جاتا، تو تمام گذشتہ بدنظمیاں اور خرابیاں دور ہو جاتیں اور وہ ملکی پوری پوری اصلاح کر لے جاتے۔ لیکن خرابی یہ ہوئی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اں کا دل تاج و تخت اور فرماں روائی و جہاں بانی سے کھٹا ہو گیا تھا۔ انہی باتوں سے عاجز آ کے انہوں نے آدھے سے زیادہ ملک سرکارِ عظمت مدارِ برطانیہ کے سپرد کر دیا اور سمجھے کہ اب میں اپنے مقبوضہ علاقے میں بے خر خشہ و بے تردد حکومت کر سکوں گا۔ مگر افسوس کہ اب بھی ان کو اطمینان اور چین نہ نصیب ہوا۔ جو ملک ان کے قبضے میں چھوڑا گیا تھا، اس میں بھی جا بہ جا انگریزی فوج

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 83

کے کیمپ قائم کیے گئے اور بڑی مقدار، خاص لکھنؤ اور اس کے حوالی میں مقیم ہوئی، جس کی سنبھال دشوار تھی۔ اور اس کی تعداد کے زیادہ ہونے سے سلطنت پر سخت بار پڑ گیا تھا۔ اس کے مقابل، انہیں اپنی بہت سی فوج گھٹا دینی پڑی۔

مگر باوجود ان افکار و ترددات کے، انہوں نے جو جو اصلاحیں کیں، بہت کچھ قابل تعریف ہیں۔ مگر سب سے عجیب بات یہ ہے کہ بازاروں کی ترقی اور تجارت کے فروغ کے ساتھ، ان کے دربار میں باکمالوں اور قابل قدر لوگوں کا اتنا بڑا مجمع ہو گیا تھا کہ اس وقت ہندوستان کے اور کسی دربار میں ایسے صاحبان کمال نہ نظر آ سکتے تھے۔ ایسے لوگ اکثر اسی جگہ جمع ہوا کرتے ہیں۔ جہاں کے رئیس معمول سے زیادہ فیاضی ظاہر کرتے ہوں۔ سعادت علی خاں، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، جُزرس اور بخیل تھے مگر اس بخل و کفایت شعاری کے ساتھ یہ صفت تھی کہ ان کی ذاتی قابلیت، دوسرے باکمالوں کی لیاقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ اور اسی بات نے ان کے ہاتھوں سے لائق لوگوں کی بڑی بڑی قدریں کرائیں اور لکھنؤ پہلے سے زیادہ اہل کمال کا مرجع بن گیا۔ جو قابل آدمی جہاں ہوتا، سعادت علی خاں کی قدردانی کی شہرت سنتے ہی اپنے وطن کو خیرباد کہہ کے لکھنؤ کا رخ کرتا اور یہاں آ کے ایسا آرام پاتا کہ پھر کبھی وطن کا نام نہ لیتا۔

1243 محمدی (1814ء) میں نواب سعادت علی خاں نے سفر آخرت کیا اور ان کے بیٹے غازی الدین حیدر مسند حکومت پر رونق افروز ہوئے۔ قیصر باغ کی مربع عمارت کے اندر نواب سعادت علی خاں اور ان کی بی بی، مرشد زادی کے مقبرے ہیں۔ ان دونوں مقبروں کی جگہ ایک مکان تھا، جس میں نواب غازی الدین حیدر ایام ولی عہدی میں رہا کرتے تھے۔ باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی جب وہ ایوان شہریاری میں گئے تو کہا، "میں نے والد کا گھر لیا تو ضرور ہے کہ اپنا مکان انہیں رہنے کو دے دوں۔" اس خیال کے مطابق مرحوم کو اپنے گھر میں دفن کرایا اور پرانا مکان منہدم کرا کے، یہ مقبرے تعمیر کرا دیے۔

اب غازی الدین حیدر کے عہد میں نہ باپ کی سی بیدار مغزی اور دولت کی قدر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 84

تھی اور نہ اگلے فرماں رواؤں کی سی فوجی سرگرمی۔ ہاں آصف الدولہ کے عہد کی سی آرام طلبی اور عیش پرستی ضرور تھی۔ مگر اس میں یہ فرق آ گیا تھا کہ آصف الدولہ کا اسراف بھی ملک و ملت کی نفع رسانی کے لیے ہوتا تھا اور اب خالص نفس پروری تھی۔

غازی الدین حیدر کو باپ کا جمع کیا ہوا کروڑوں روپے کا نقد خزانہ مل گیا تھا جو شاہی شوق کےپورا ہونے میں نہایت ہی دریا دلی سے اڑنے لگا۔موتی محل میں ہم کہہ آئے ہیں کہ شمالی جانب سعادت علی خاں نے ایک کوٹھی تعمیر کرائی تھی، غازی الدین حیدر نے اس احاطے میں دو اور کوٹھیاں تعمیر کرائیں، جن کے نام مبارک منزل اور شاہ منزل قرار دیے گئے۔ شاہ منزل کے پاس ہی کشتیوں کا ایک پل تھا اور مبارک منزل اس سے مشرق کی طرف ہٹی ہوئی تھی۔ شاہ منزل کے محاذی دریا پار رمناؔ تھا جو ہزاری باغ کے نام سے موسوم تھا اور اس میں میلوں تک نزہت بخش سبزہ زار چلا گیا تھا۔ اس میں اکثر مست ہاتھی، گینڈے اور وحشی درندے لڑائے جاتے اور بادشاہ اس پار شاہ منزل کے کوٹھے پر جلوہ فرما ہو کے، ان کی لڑائی کا تماشا ملاحظہ فرماتے۔ شیروں کی لڑائی بھی وہیں ہوتی جس کے لیے مضبوط کٹہرے اور ایک عمدہ سرکس بنا ہوا تھا۔ مگر جو چھوٹے غیر آزار رساں جانور لڑائے جاتے، ان کی لڑائی خاص شاہ منزل کے احاطے میں اسی پار ہوتی۔

یہ درندوں اور وحشی جانورں کے لڑانے کا شوق، ہندوستان میں یہاں سے پہلے اور کہیں نہیں شنا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ رزیڈنٹوں اور دربار رس اہل یورپ سے رومیوں کے ایمفی تھیٹر کے حالات سن کے جہاں پناہ کے دل میں شوق پیدا ہوا۔ مگر مولانا حبیب الرحمٰن خاں صاحب شیروانی کے توجہ دلانے سے ہمیں معلوم ہوا کہ درندوں کی لڑائی کا رواج دولتِ مغلیہ کے عہد سے ہے۔

غازی الدین حیدر نے اپنی ایک یورپین بی بی کے لیے ولایتی محل بنوایا اور ان کا نام ولایتی باغ قرار دیا۔ وہاں سے قریب ہی قدم رسول کی عمارت تیار کرائی۔ غازی الدین حیدر

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 85

کی آرزو کے موافق، دربار انگریزی سے انہیں بادشاہی کا لقب عطا کیا گیا۔ اس سے پیشتر فرماں روایان اودھ، وزیر کے رتبے کے سمجھے جاتے اور سوا نواب کے، اور کسی اعزازی لقب سے نہیں یاد کیے جاتے تھے۔ اس زمانے تک ہندوستان میں شہنشاہی محلیہ کی اتنی آن باقی تھی کہ اگرچہ ملک، خود مختار و خودسر حکمرانوں میں بٹ گیا تھا اور شہنشاہ دہلی کے قبضے میں صرف دہلی کے گرد و پیش کی زمین باقی رہ گئی تھی، لیکن اس بے بضاعتی پر بھی شہنشاہ و جہاں پناہ ہی وہی تھے۔ نہ سریر آرایان دہلی کے سوا ہندوستان میں کسی کو "بادشاہ" کہلانے کا حق تھا اور نہ خطاب و عزت دینے کا۔ ان کے اس غرور کو توڑنے کےلیے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے غازی الدین حیدر کو جنہوں نے باپ کے اندوختے میں سے بہت سا روپیہ انگریزوں کو قرض دے دیا تھا، شاہی کا خطاب دیا اور دربار اودھ نے اس عزت و سرفرازی کو نہایت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا، چنانچہ اس وقت سے حکمرانان اودھ، جو ریزیڈنٹوں کے ہاتھوں کے کھلونے تھے، بادشاہ بن گئے اور آخری فرماں روا واجد علی شاہ کے مرنے تک ان کا سرمایہ ناز رہے۔

غازی الدین حیدر نے اسی خطاب شاہی کی یادگار میں، دریا پار مچھی بھون کے سامنے ایک نیا بازار بسایا اور اس کا نام بادشاہ گنج رکھا۔ اسی زمانے میں حکیم مہدی نے مہدی گنج آباد کیا۔ اور نائب السلطنگ آغا میر کی شاہانہ عمارت کے دور تک پھیل جانے کی وجہ سے، عین وسط شہر میں محلہ آغا سیر کی ڈیوڑھی قائم ہوا۔ اور اسی عہد میں آغا میر کی سرائے تعمیر ہوئی۔

بادشاہ کو اور ان کسے زیادہ بادشاہ بیگم کو مذہبی معاملات میں بہت زیادہ انہماک تھا۔ صفویہ خاندان کے زمانے سے ایران کا مذہب شیعہ اثنا عشری تھا۔ مگر ہندوستان کے عام مسلمان سُنی تھے۔ نواب برہان الملک چوں کہ ولایت سے نئے آئے تھے، اس لیے ان کا اور ان کے سارے خاندان کا مذہب شیعہ تھا۔ باوجود اس کے، زمانے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 86

تک لکھنؤ میں حکومت کا وہی قدیم طریقہ چلا آتا تھا جو آتا تھا جو آغاز سلطنتِ اسلام سے دیگر بلاد ہند اور سارے ملک کا تھا۔ مگر اس وقت سے بادشاہ اور ان کے خاص محل کے انہماک مذہبی کی وجہ سے شیعیت، حکومت لکھنؤ کا ایک نمایاں عنصر بن گئی۔ فرنگی محل کے علما کی طرف سے حکم رانوں کی توجہ ہٹ گئی اور خاندان اجتہاد عروج پا کے سلطنت کا اصلی مقنن قرار پایا۔

لیکن شیعہ مذہب اپنی اصلی حالت پر قائم رہتا تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ خرابی یہ ہوئی کہ بادشاہ بیگم کی جاہلانہ اور امیرانہ مذہبی سرگرمی نے مذہب شیعہ میں نئی نئی بدعتیں ایجاد کیں۔ جن کی وجہ سے اسی قدر نہیں ہوا کہ بادشاہوں اور امیروں میں طرح طرح کی طفلانہ مزاجیاں پیدا ہوئیں، بلکہ لکھنؤ کی شیعیت، ساری دنیا کی شیعیت سے نئی، نرالی اور عجیب ہو گئی۔

سب سے پہلے بیگم صاحبہ نے امام صاحب العصر کی چھٹی کی رسم قرار دی، جس میں اگر یہ ہوتا کہ کسی محفل میں امام ممدوح کے حالات بیان کر کے ثواب حاصل کر لیا جائے، تو مضائقہ نہ تھا۔ مگر نہیں، یہاں ہندوؤں کے جنم اسٹمی کے رسوم کے موافق پورا زچا خانہ مرتب کیا جاتا۔ اس کے بعد یہ ترقی ہوئی کہ صحیح النسب سیدوں کی خوبصورت لڑکیاں لے کے، ائمۃ اثنا عشیر کی بیبیاں قرار دی گئیں، جن کا نام "اچھوتیاں" رکھا گیا۔ اور جب وہ اماموں کی بیبیاں تھیں، تو پھر ان کے وہاں اماموں کی ولادت بھی ہوتی اور بارھوں اماموں کی ولادت کی تقریبیں بڑے کروفر کے ساتھ منائی جانے لگیں۔

غازی الدین حیدر نہایت ہی غضب ناک اور آشفتہ مزاج بادشاہ تھے۔ اور رعب داب اس بلا کا تھا کہ ان کے زمانے میں انگریزوں سے تعلقات تو اچھے رہے، مگر آغا میر جو وزیر السلطنت تھا، دربار پر اس قدر حاوی تھا کہ خود بادشاہ بیگم اور ولی عہد سلطنت تک اس کے آزار سے محفوظ نہ رہ سکے۔ غازی الدین حیدر اسے گھونسوں اور لاتوں سے

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 87

مارتے۔ جس مار کو وہ خوشی سے کھا لیتا۔ مگر اس کا بدلہ دیگر معززین دربار اور اعزاے شاہی تک سے لے لیا کرتا۔

اس سے پہلے بادشاہ اودھ نے مذہبی ارادت و عقیدت سے دریا کنارے اور موتی محل کے متصل، نجف اشرف یعنی روضہ مطہرہ حضرت علیؓ کی نقل لکھنؤ میں بنوائی اور اس کی روشنی و خدمت کے لیے بہت سا روپیہ انگریزی سرکار کے حوالے کیا۔ جس کی بدولت آج تک وہ بارونق اور خوب آباد ہے۔ اور 1256 محمدی (1827ء) میں جب ان کا انتقال ہوا تو اسی میں دفن ہوئے۔

(6)

1256 محمدی (1827ء) میں غازی الدین حیدر کے بیٹے نصیر الدین حیدر تخت پر بیٹھے۔ غازی الدین حیدر کے زمانے سے، جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں، فرماں روایان اودھ، نواب نہیں بادشاہ تھے۔ اس دولت کا آغاز وزارتِ دہلی کے درجے سے ہوا تھا۔ اور اگلے زبردست و ذی وقعت فرماں روا سب نواب وزیر کہلاتے تھے۔ لیکن اب جب کہ اصلی حکومت و سطوت رخصت ہو چکی تھی اور ہندوستان کے پالٹکس میں ان لوگوں کا بالکل اثر نہیں باقی رہا تھا، یہ بادشاہ بن گئے۔

خیال کیا جا سکتا ہے کہ انگریزوں نے حکم رانان اودھ کو بادشاہی عزت دی تو اپنی پشت پناہی سے ان کی سطوت بھی بڑھا دی ہو گی اورانہیں نام ہی کا بادشاہ نہیں، بلکہ حقیقۃً بادشاہ بنا کے دکھا دیا ہو گا۔ لیکن نہیں، ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس عہد میں اودھ کے باہر ان لوگوں کا اثر تو بالکل تھا ہی نہیں۔ خود اپنی قلمرو میں بھی یہ اتنے آزاد نہ تھے جتنے کہ ان کے ماسبق بزرگ ہوتے آئے تھے۔ اب کسی کی تخت نشینی بغیر انگریزوں کی منظوری کے ہو ہی نہ سکتی تھی۔ انگریزی فوج ساری قلمرو میں جابجا پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی اہم معاملہ بغیر صاحب ریذیڈنٹ کی دخل دہیہ کے طے ہی نہ ہو سکتا تھا۔ سریر شہریاری

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 88

ایک اسٹیج تھا، جس پر جو کچھ ہوتا، بہ ظاہر نظر آتا کہ ایکٹر کر رہے ہیں، مگر اصل میں وہ افعال کسی اور شخص کے قبضۂ قدرت میں تھے جو پردے کی آڑ میں تھا اور جو چاہتا تھا کرتا تھا۔

مگر خدا کی اتنی مہربانی تھی کہ ان پچھلے حکمرانانِ اودھ کی اور ان کے ساتھ قریب قریب سارے وابستگان دامن دولت کی حس مفقود ہو گئی تھی۔ جس کی بدولت وہ اپنی کمزوری و بے دست و پائی کو بالکل محسوس نہ کر سکتے تھے۔ غازی الدین حیدر بادشاہ بنتے ہی عیش و عشرت میں مشغول ہو گئے اور نصیر الدین حیدر کو تو تختِ شاہی ورثے میں ملا تھا۔ نواب سعادت علی خاں کا جمع کیا ہوا روپیہ عیش پرستی میں دونوں کا ممد و معاون ہوا۔ کچھ انگریزوں کو قرض دیا گیا۔ کچھ ان مبتدعہ مذہبی رسموں کی بجا آوری میں صرف ہوا جنہیں بادشاہ اور ان کی ملکاؤں نے اپنے مذاق کے موافق ذوق و شوق سے ایجاد کیا۔ اور باقی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کی نذر ہونے لگا۔ غازی الدین حیدر نے تو اتنا بھی کیا تھا کہ نجف اشرف کی نقل بنوا کے اپنی قبر کا ٹھکانا کر لیا۔ اور بغیر اس کے کہ اپنے ورثہ پر بھروسہ کریں، کچھ روپیہ انگریزوں کے حوالے کیا کہ اس کے سود سے پوری دینی آداب کے ساتھ نجف کی داشت کیا کریں۔ چنانچہ آج تک ان کی قبر پر چراغ روشن ہوتا ہے۔ مجلسیں ہوتی ہیں، قرآن خوانی ہوتی ہے، اور محرم میں خوب روشنی ہوتی ہے، جس کے طفیل تھوڑے سے غریبوں کی پرورش ہو جایا کرتی ہے۔ مگر نصیر الدین حیدر کو ہجوم عیش میں اتنی بھی توفیق نہ ہوئی۔ دریا پار محلہ ارادت نگر میں انہوں نےا یک کربلا بنوائی جو خود ان کا مرقد قرار پانے والی تھی مگر اس کی خدمت و داشت کی ذرا بھی فکر نہیں کی۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ ڈالی گنج کے اسٹیشن کے پاس اُجاڑ اور خاموش پڑی ہے۔ اور شاید کوئی چراغ جلانے والا بھی نہیں۔ ان کے زمانے میں نئے محلے گنیش گنج اور چاند گنج وہیں دریا پار آباد ہوئے۔

نصیر الدین حیدر کو نجوم سے عقیدت تھی، جس نے علم ہیأت کی طرف توجہ دلائی۔ اور ارادہ کیا کہ اپنے شہر میں ایک اعلا درجے کی رصدگاہ قائم کریں۔ چنانچہ اسی

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 89

غرض کےلیے ایک کوٹھی نواب سعادت علی خاں کے مقبرے اور موتی محل کے درمیان میں تعمیر کرائی۔ جو رصدگاہ ہونے کے باعث، لکھنؤ میں تارے والی کوٹھی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس میں بڑی بڑی دوربینیں اور اعلا درجے کے آلاتِ رصد جمع کیے گئے۔ ان کے مناسب طور پر قائم کرنے کا کام اور ان کا انتظام و اہتمام کرنل ولکاکس کے سپرد ہوا جو ایک اچھے ہیأت داں تھے مگر لکھنؤ کی یہ رصدگاہ گویا کرنل صاحب موصوف ہی کی زندگی کا ایک مجہول الحال واقعہ تھی۔ کیونکہ 1256 محمدی سے نصیر الدین حیدر کی سلطنت کا آغاز ہوا جس کے چار پانچ سال بعد غالباً یہ رصدگاہ قائم ہوئی ہو گی۔ اور اس وقت سے 1276 محمدی (1847ء) تک جب کہ آخری تاجدار اودھ واجد علی شاہ کا زمانہ تھا، یہ رصدگاہ انہی کے اہتمام میں رہی۔ سنہ مذکور میں کرنل صاحب کا انتقال ہوا اور ان کی جگہ کوئی ہیأت داں اس خدمت پر مقرر نہیں کیا گیا۔ واجد علی شاہ نے اس کی طرف سے بے پروائی کی۔ لکھنؤ کے بعض مستند اشخاص کی زبانی سنا گیا کہ اس کی سب سے بڑی دوربین کو واجد علی شاہ نے ایک کھلونا خیال کر کے، حیدری طوائف کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن گزیٹر سے معلوم لوتا ہے کہ یہ رصدگاہ، انتزاع سلطنت کے زمانے تک قائم تھی۔ غدر میں غالباً بلوائیوں نے اسے تباہ کر دیا۔ کیونکہ احمد اللہ شاہ نے (جو ڈنکا شاہ بھی کہلاتے تھے اور انگریزی فوج سے بڑی مستعدی و گرم جوشی کے ساتھ لڑے تھے) تارے والی کوٹھی ہی میں سکونت اختیار کی تھی، اسی میں اپنا دربار قائم کیا تھا اور باغی فوجوں کے افسر یہیں جمع ہو کے مشورے کیا کرتے تھے۔

اسی زمانے میں روشن الدولہ نے، جو وزیر سلطنت تھے، اپنی خوبصورت اور شاندار کوٹھی تعمیر کرائی۔ جس میں فی الحال ڈپٹی کمشنر بہادر اجلاس کرتے ہیں، اس لیے کہ واجد علی شاہ نے اس کوٹھی کو، قیصر باغ بنواتے وقت ضبط کر لیا تھا۔ اور جب ملک انگریزوں کے قبضے میں آیا ہے، یہ کوٹھی ایک سرکاری جائیداد تھی۔

گذشتہ لکھنؤ صفحہ 90

نصیر الدین حیدر کا زمانہ، سچ یہ ہے کہ نہایت ہی خطرناک زمانہ تھا۔ ایک طرف تو انتظام مملکگ کی خرابی تھی۔ بادشاہ کو عیش و عشرت اور ایجاد کردہ دین داری کی رسموں سے فرصت نہ ملتی تھی۔ سارا نظامِ سلطنت وزیر پر چھوڑا جاتا تھا۔ اور وزیروں کی یہ حالت تھی کہ کوئی ایسا شخص ملتا ہی نہ تھا جو نیک نیتی اور خوش تدبیری سے کام چلا سکے۔ حکیم مہدی بلائے گئے، وہ منتظم تو اعلا درجے کے تھے، مگر چاہتے تھے کہ سلطنت کو اپنی ہی میراث بنا لیں۔ روشن الدولہ وزیر ہوئے۔ ان میں نہ مادہ تھا نہ طبیعت داری، ان سے کچھ کرتے دھرتے نہ بنی۔ بادشاہ کی فضول خرچیوں کی یہ حالت تھی کہ سعادت علی خاں کا جمع کیا ہوا سارا روپیہ پانی کی طرح اڑ گیا اور ملک کی آمدنی محل کے مصارف کےلیے کفایت ہی نہ کرتی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ بادشاہ اور ان کی ماں، غازی الدین حیدر کی خاص محل میں جھگڑے پیدا ہوئے۔ وہ منا جان کو بادشاہ کا بیٹا بتاتی تھیں اور بادشاہ اس کو اپنا بیٹا تسلیم نہ کرتے تھے۔ ان باتوں نے ملک کی ایسی حالت کر دی تھی کہ معلوم ہوتا حکم رانوں میں حکومت کرنے اور ملک کے سنبھالنے کی مطلق صلاحیت نہیں ہے۔

صاحب رزیڈنٹ اور گورنر جنرل ہند نے بار بار سمجھایا، ڈرایا، دھمکایا۔ انجام سے مطلع کیا اور برابر کان کھولتے رہے۔ مگر یہاں کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ نصیر الدین حیدر میں، عورتوں میں رہتے رہتے اس درجہ زنانہ مزاجی پیدا ہو گئی تھی کہ عورتوں کی سی باتیں کرتے اور عورتوں کا سا لباس پہنتے۔ زنانہ مزاجی کے ساتھ مذہبی عقیدت نے یہ شان پیدا کر دی کہ ائمۃٔ عشر کی فرضی بیبیاں (اچھوتیاں) اور ان کی ولادت کی تقریبیں، جو ان کی ماں نے قائم کی تھیں، ان کو اور زیادہ ترقی دی۔ یہاں تک کہ ولادتِ ائمۃ کی تقریبوں میں خود حاملہ عورت بن کے زچا خانے میں بیٹھتے، چہرے اور حرکات سے وضعِ حمل کی تکلیف ظاہر کرتے۔ اور پھر خود ایک فرضی بچہ جنتے، جس کے لیے
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 112
دیتے ہیں۔ جس کی رو سے وہ ہمارے مختارِ عام بنائے گئے ہیں۔"
اب کیا تھا، ساری کاروائی ختم ہو گئی۔ بادشاہ مٹیا برج میں رنگ رلیاں منانے لگے۔ مصاحبوں کے گھروں میں ہن برسنے لگا۔ اور شاہی خاندان کا شکستہ حال قافلہ جو انگلستان میں پڑا ہوا تھا، قریب قریب وہیں تباہ ہو گیا۔ اکثر ہم راہیوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بادشاہ کی ماں، جنابِ عالیہ اس صدمے سے بیمار ہو گئیں۔ اور اسی بیماری میں چلیں کہ ملک فرانس سے ہوتی ہوئی مقاماتِ متبرکہ میں جائیں اور اُن کی زیارت سے شرف یاب ہو کے کلکتے پہنچیں۔مگر موت نے پیرس سے آگے قدم نہ بڑھانے دیا۔وہیں انتقال کیا۔اور عثمانی سفارت خانۂ فرانس کی مسجد کے متصل مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے، اسی میں دفن ہوئیں۔ مرزا سکندر حشمت کو ماں کے مرنے کا اس قدر صدمہ ہوا کہ ماں کے مرتے ہی خود بھی بیمار پڑ گئے۔ اور ماں کے چودہ پندرہ روز بعد وہ بھی ماں کے برابر یومِ جزا کا انتظار کرنے کے لیے لٹا دیے گئے۔ اکیلے مرزا ولی عہد بہادر کلکتے واپس آ کے ماں باپ سے ملے۔ کہتے ہیں کہ ابتداً مٹیا برج میں بھی بادشاہ کی زندگی نہایت ہی بیدار مغزی اور ہوشیاری کی تھی۔ یہ حالت دیکھ کے گردوپیش کے لوگوں نے چند آلاتِ موسیقی فراہم کر دیے۔ فوراً " سرودبمستان یاددہانیدن" کا پورا پورا مضمون صادق آ گیا اور اربابِ نشاط کا گروہ وہاں بھی جمع ہونے لگا۔ ہندوستان کے اچھے اچھے گویے آ کے ملازم ہوئے اور مٹیا برج میں موسیقی دانوں کا ایسا مجمع ہو گیا تھا کہ اور کسی جگہ نہ تھا۔
خوب صورت عورتوں کے جمع کرنے اور حسن و عشق کے کرشموں میں پھنسے رہنے کا وہاں بھی ویسا ہی شوق تھا، جیسا کہ لکھنؤ میں سنا جاتا ہے۔ مگر مٹیا برج میں اس شوق میں مذہبی احتیاط کا پورا لحاظ رہتا۔ بادشاہ شیعہ تھے اور شیعوں کی شرع میں متعہ بغیر کسی تحدید اور روک کے جائز ہے۔ اس مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھا کے، بادشاہ جی بھر کے اپنا شوق پورا کر لیتے ۔ اور قاعدہ تھا کہ غیر ممتوعہ عورت کی صورت تک دیکھنا گوارا نہ کرتے۔ یہ احتیاط
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ 113
اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ایک جوان بھشتن جو بادشاہ کے سامنے زنانے میں پانی لاتی۔اس سے بھی متعہ کر کے اسے نواب آب رساں بیگم کا خطاب دے دیا۔ ایک جوان خاک روبن، جس کی حضوری میں آمدورفت رہتی، وہ بھی ممتوعات میں داخل ہو کے نواب مصفّا بیگم کے خطاب سے سرفراز ہوئی۔ اسی طرح موسیقی کا شوق بھی ممتوعات ہی تک محدود رہتا۔ شاید شاذونادر ہی اس کا اتفاق ہوا ہو گا کہ بادشاہ نے کبھی کسی بازاری طوائف کا مجرا دیکھا ہو۔ خود ممتوعات کی مختلف پارٹیاں بنا دی گئی تھیں جن کو مختلف طرز پر رقص و سرود کی تعلیمیں دی جاتیں۔ ایک رادھا منزل والیاں۔ ایک جھومر والیاں۔ ایک لٹکن والیاں۔ ایک ساردھا منزل والیاں۔ ایک نتھ والیاں۔ ایک گھونگھٹ والیاں۔ ایک رہس والیاں۔ ایک نقل والیاں۔ اور اسی طرح کے بیسیوں گروہ تھے جن کو رقص و سرود کی اعلا تعلیم دی گئی تھی اور انہی کے ناچ گانے میں ان کا دل بہلتا۔ ان سب سے متعہ ہو گیا تھا۔ بیگمیں کہلاتی تھیں۔ اور دو ایک گروہوں میں اگر چند کم سن لڑکیاں غیر ممتوعہ تھیں۔ تو اس لیے تھیں کہ بعد بلوغ داخل ممتوعات کر لی جائیں گی۔
ان میں اکثر خود بادشاہ کے قریب خاص سلطان خانے میں رہتیں۔ اور بعض کو دوسری کوٹھیوں میں جدا محل سرائیں ملی تھیں۔ ان ممتوعات میں سے جو صاحب اولاد ہو جاتیں، ان کو محل کا خطاب دیا جاتا۔ رہنے کو جداگانہ محل سرا ملتی۔ اور ان کی تنخواہ اور عزت بڑھ جاتی۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسیقی کے سوا اور تمام حیثیتوں سے بادشاہ بڑے متقّی و پرہیزگار اور پابند شرع تھے۔ نماز کبھی قضا نہ ہوتی تھی۔ تیسوں روزے رکھتے تھے۔ افیون، شراب، فلک سیر، یا اور کسی قسم کے نشے سے زندگی بھر احتراز رہا۔ اور محرم کی عزاداری نہایت خلوص عقیدت سے بجا لاتے تھے۔
تیسرا شوق انہیں عمارت کا تھا۔ سلطان خانے کےگرد بیسیوں محل سرائیں تعمیر ہو گئیں۔ اور بہت سی نئی کوٹھیاں اور ان میں محل سرائیں بنیں۔ گورنمنٹ سے صرف
 
Top