گرتے پڑتے ہیں، چلتے جاتے ہیں - منیبؔ احمد

منیب الف

محفلین
نہیں آتی جو یاد ” اُردو محفل “ مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتی ہے تو اکثر یاد آتی ہے​
مسلسل دوسرے دن دوسری غزل پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اُمید ہے احباب قبول فرمائیں گے بلکہ عمدہ تنقید سے بھی نوازیں گے:

گرتے پڑتے ہیں چلتے جاتے ہیں
تن بدن سے نکلتے جاتے ہیں
جلتے جاتے ہیں بتیاں بن کر
موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں
سنگ بن کر ندی میں ٹھہرے تھے
موج بن کر اُچھلتے جاتے ہیں
چڑھتے جاتے ہیں کوہِ عمر پہ خود
آپ ہی آپ ڈھلتے جاتے ہیں
پالتے ہیں گلاب کے پودے
ساتھ کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں
دل کے اندر بہت سے موتی ہیں
جو لبوں سے اُگلتے جاتے ہیں
خاک کو منہ بھی کیا دکھائیں گے؟
خاک ہی منہ پہ ملتے جاتے ہیں​
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
برادرم منیب السلام علیکم !

آپ کو یہاں دیکھ کر اچھا لگتا ہے -آتے رہیے اپنی نگارشات کے ساتھ -غزل آپ کی پسند آئی' بہت اچھی لگی -ایک دو مقام تاک لئے تھے تنقید کے لئے' آپ نے خود درست کر لئے -خوب -یہی ایک اچھے شاعر کی پہچان ہے کہ اپنے کلام کے محاسن و معائب سے خوب واقف ہوتا ہے -چلیے کچھ اور مقامات ڈھونڈھتے ہیں برائے "عمدہ تنقید" 8)



گرتے پڑتے ہیں چلتے جاتے ہیں
تن بدن سے نکلتے جاتے ہیں

واہ -بہت خوب -یعنی گرنے پڑنے سے تن بدن تو سفر سے عاجز آگیا ہے مگر اندر کچھ ایسی شے ہے جو تن بدن سے ماورا ہے اور سفر پہ مجبور کر رہی ہے -

جلتے جاتے ہیں بتیاں بن کر
موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں

یہ بھی کیا خوب کہا -یوں کیوں نہ کہا :

بتیاں بن کے جلتے جاتے ہیں
موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں

یعنی ہم دوسروں کو نفع دینے کی یہ قیمت چکا رہے ہیں کہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں -

چڑھتے جاتے ہیں کوہِ عمر پہ خود
آپ ہی آپ ڈھلتے جاتے ہیں

واہ صاحب !

پالتے ہیں گلاب کے پودے
ساتھ کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں

ہے تو درست -لیکن پالنا کھٹکا -پالتا تو کوئی اور ہے ہم تو بس پانی دیتے ہیں -کیا یاد آ گیا
"مالی د ا کم پانی دیون اوتے بھر بھر مشقاں پاوے -مالک دا کم پھُل پَھل لاون بھاویں لاوے یا نا لاوے "

ایک شکل یہ بھی دیکھ لیجئے :

پانی دیتے ہیں ہم گلابوں کو
اور کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں


دل کے اندر بہت سے موتی ہیں
جو لبوں سے اُگلتے جاتے ہیں

اگلنا گو کھٹکا مگر اس مفہوم میں درست ہے کہ دل تو نہیں چاہ رہا مگر اچھی اور پرحکمت بات کرنی پڑ رہی ہے -

البتہ "جو لبوں سے ....." کی جگہ "جن کو منھ سے ...."زیادہ فصیح محسوس ہوتا ہے -

خاک کو منہ بھی کیا دکھائیں گے؟
خاک ہی منہ پہ ملتے جاتے ہیں

نہایت عالی مضمون ہے مگر بندش سست پڑگئی ہے -وجہ یہ ہے کہ محاوروں میں الفاظ کی ترتیب بدلنے سے روزمرّہ کا لحاظ نہیں ہو پا رہا-
کوئی بہتر تجویز بھی سوجھ نہیں رہی -ایک صورت یہ ہے روزمرّہ کے قریب تر :


خاک میں لے کے جائیں گے یہ منھ ؟
منھ پہ چل خاک ملتے جاتے ہیں

یاسر
 

منیب الف

محفلین
برادرم منیب السلام علیکم !

آپ کو یہاں دیکھ کر اچھا لگتا ہے -آتے رہیے اپنی نگارشات کے ساتھ -غزل آپ کی پسند آئی' بہت اچھی لگی -ایک دو مقام تاک لئے تھے تنقید کے لئے' آپ نے خود درست کر لئے -خوب -یہی ایک اچھے شاعر کی پہچان ہے کہ اپنے کلام کے محاسن و معائب سے خوب واقف ہوتا ہے -چلیے کچھ اور مقامات ڈھونڈھتے ہیں برائے "عمدہ تنقید" 8)



گرتے پڑتے ہیں چلتے جاتے ہیں
تن بدن سے نکلتے جاتے ہیں

واہ -بہت خوب -یعنی گرنے پڑنے سے تن بدن تو سفر سے عاجز آگیا ہے مگر اندر کچھ ایسی شے ہے جو تن بدن سے ماورا ہے اور سفر پہ مجبور کر رہی ہے -

جلتے جاتے ہیں بتیاں بن کر
موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں

یہ بھی کیا خوب کہا -یوں کیوں نہ کہا :

بتیاں بن کے جلتے جاتے ہیں
موم بن کر پگھلتے جاتے ہیں

یعنی ہم دوسروں کو نفع دینے کی یہ قیمت چکا رہے ہیں کہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں -

چڑھتے جاتے ہیں کوہِ عمر پہ خود
آپ ہی آپ ڈھلتے جاتے ہیں

واہ صاحب !

پالتے ہیں گلاب کے پودے
ساتھ کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں

ہے تو درست -لیکن پالنا کھٹکا -پالتا تو کوئی اور ہے ہم تو بس پانی دیتے ہیں -کیا یاد آ گیا
"مالی د ا کم پانی دیون اوتے بھر بھر مشقاں پاوے -مالک دا کم پھُل پَھل لاون بھاویں لاوے یا نا لاوے "

ایک شکل یہ بھی دیکھ لیجئے :

پانی دیتے ہیں ہم گلابوں کو
اور کانٹے بھی پلتے جاتے ہیں


دل کے اندر بہت سے موتی ہیں
جو لبوں سے اُگلتے جاتے ہیں

اگلنا گو کھٹکا مگر اس مفہوم میں درست ہے کہ دل تو نہیں چاہ رہا مگر اچھی اور پرحکمت بات کرنی پڑ رہی ہے -

البتہ "جو لبوں سے ....." کی جگہ "جن کو منھ سے ...."زیادہ فصیح محسوس ہوتا ہے -

خاک کو منہ بھی کیا دکھائیں گے؟
خاک ہی منہ پہ ملتے جاتے ہیں

نہایت عالی مضمون ہے مگر بندش سست پڑگئی ہے -وجہ یہ ہے کہ محاوروں میں الفاظ کی ترتیب بدلنے سے روزمرّہ کا لحاظ نہیں ہو پا رہا-
کوئی بہتر تجویز بھی سوجھ نہیں رہی -ایک صورت یہ ہے روزمرّہ کے قریب تر :


خاک میں لے کے جائیں گے یہ منھ ؟
منھ پہ چل خاک ملتے جاتے ہیں

یاسر
یاسر بھائی، آپ کی تنقید پڑھ کے مزہ آ جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے میں ہی اپنے شعروں پہ تنقید کر رہا ہوں۔
اِن شاء اللہ، میں آپ کے نمایاں کردہ پہلوؤں کو ذہن میں رکھوں گا
اور اِس غزل کی مجموعی شکل سنوارتا جاؤں گا۔
جزاک اللہ!
یہ بغیر کانٹوں کا گلاب آپ کے لیے :rose:
 
Top