عبدالقیوم چوہدری
محفلین
اعجاز فاروق کے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں کے باسی مذہبی فرائض نبھانے کے بعد دوستی کا فرض بھی نبھاتے ہیں۔اعجاز فاروق کے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں کے باسی مذہبی فرائض نبھانے کے بعد دوستی کا فرض بھی نبھاتے ہیں۔
گاؤں کی تنگ گلیوں میں اذان گونج رہی ہے۔ اعجاز مسجد میں با جماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ مسجد سے نکلتے ہی وہ گرجا گھر کا رخ کرتے ہیں۔ اس گرجا گھر کی ابھی دیواریں ہی کھڑی ہیں۔ اعجاز بھی باقی گاؤں والوں کے ساتھ کھدائی کر رہے ہیں، اینٹوں پر لیپ لگا رہے ہیں۔ گاؤں کی مسیحی برادری کے لیے پہلا گرجا گھر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر کا بوجھ مسلمان اور مسیحی برادری کے افراد کندھے سے کندھا ملا کر اجتماعی طور پر بانٹ رہے ہیں۔
اعجاز فاروق نے کہا ہماری مسجد تو یہاں کب سے موجود ہے لیکن ہمارے عیسائی دوستوں کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت کر سکیں، ہماری مسجد ہے تو ان کا گرجا بھی گاؤں میں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور عدم برداشت کے واقعات روز سامنے آتے ہیں ، لیکن ان ہی شورش زدہ علاقوں میں ایسی کمیونٹیز بھی ہیں جو قومیت اور برادری کے جذبے کو مسلک اور فرقے سے بالاتر سمجھتی ہیں۔ پنجاب کے علاقے گوجرہ کے قریب یہ چھوٹا سا گاؤں ایسی ہی چھوٹی سی کاوش کر رہا ہے جہاں کے مسلمان رہائشی اپنی محدود آمدنی کی پائی پائی جوڑ کر اپنے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ہمسائیوں کے لیے ایک گرجا گھر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر رہے ہیں۔ اب تک پچاس ہزار روپے کا چندہ اکھٹا کر کے یہ لوگ گرجا گھر کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور حوصلے بلند ہیں کہ اس بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ باقی رقم بھی جمع کر کے سینٹ جوزف چرچ کو ایک حقیقت بنا لیں گے۔
فریال مسیح بھی ان آٹھ عیسائی خاندانوں میں شامل ہیں جو دہائیوں سے اس مسلم اکثریت والے گاؤں میں مقیم ہیں۔ وہ اعجاز فاروق کے ہم مذہب نہ صحیح لیکن ہمسائے ضرور ہیں۔ دونوں روز صبح اپنے گھروں سے نکل کر سامنے والے کریانے کے سٹور پر بیٹھتے ہیں، گپیں لگاتے ہیں ، اور چائے پیتے ہیں۔ ان کی بیگمات اکثر ایک دوسرے کے گھر کھانے کی ترکیبیوں کے تبادلے کر رہی ہوتی ہیں۔
پنجاب کے چند باقی علاقوں سے مختلف یہاں مسیحی برادری کی کوئی الگ کالونی نہیں بلکہ ایک گھر مسلمان خاندان کا تو دوسرا عیسائی کا نظر آتا ہے۔ سب آپس میں گھل مل کر رہتے ہیں اور مذہب پر تفریق کا تصور شائد ان کے پاس سے گزرا ہی نہیں۔ فریال مسیح نے بتایا جب سے میں دیکھ رہا ہوں ، ہم سب مل جل کر ہی رہتے آئے ہیںِ ایک دوسرے کی خوشی غمی، سب ہی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ خدا گوجرہ میں ہونے والے بھیانک واقعات کبھی کسی کو نہ دکھائے لیکن ہمیں اعتماد ہے کہ ہمارے مسلمان ہمسائے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مبصرین کے خیال میں پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں گزشتہ سالوں میں اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ گاؤں بھی گوجرہ کے اس علاقے سے دور نہیں ہے جہاں 2009 میں مسیحی برادری کے خلاف مشتعل ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے گھرں اور گرجوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔
اس گاؤں کے لوگوں کی یادیں بھی ماضی کے خون خرابے سے چھلنی ہیں لیکن یہ امن کا ایک جزیرہ قائم کر کے ماضی کی تلخ یادوں کو پر امید مستقبل میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اعجاز فاروق نے کہا اسی لیے تو یہ چرچ بن رہا ہے تاکہ گوجرہ جیسے واقعات کبھی ہمارے گاؤں میں نہ ہوں، ہمیں ایک قوم کی طرح ساتھ ساتھ رہنا ہو گا، اس سے مسلمان اور مسیحی، دونوں مستحکم رہیں گے، ہم سب کا اسی میں فائدہ ہے۔
یہ علاقہ قومیت کی ایک چھوٹی مثال ہے جہاں پاکستانیوں کی شہریت مسلم اور غیر مسلم کی بنیادوں پر نہیں بانٹی جا رہی۔ اگر ایسا ممکن ہے تو کیا اس سوچ کو ریاستی سطح پر عمل درآمد کرانے میں واضع کمی کیوں ہے؟
اس علاقے کی بڑی پیریش کے پادری فادر آفتاب جیمز کا خیال ہے کہ دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ اجتماعی امتیازی سلوک پر انفرادی سطح پر پرخلوص رویہ حاوی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ایک طرف گوجرہ کا واقعہ ہوتا ہے تو ایک طرف یہ گاؤں بھی تو ہے جہاں مسلمان مسیحی برادری کے لیے گرجا گھر بنا رہے ہیں۔ لوگوں میں محبت سے ساتھ رہنے کا جذبہ ہے، جہاں آگ لگانے والے ہیں وہاں آگ بجھانے والے بھی تو ہیں۔
ربط
گاؤں کی تنگ گلیوں میں اذان گونج رہی ہے۔ اعجاز مسجد میں با جماعت نماز پڑھ رہے ہیں۔ مسجد سے نکلتے ہی وہ گرجا گھر کا رخ کرتے ہیں۔ اس گرجا گھر کی ابھی دیواریں ہی کھڑی ہیں۔ اعجاز بھی باقی گاؤں والوں کے ساتھ کھدائی کر رہے ہیں، اینٹوں پر لیپ لگا رہے ہیں۔ گاؤں کی مسیحی برادری کے لیے پہلا گرجا گھر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر کا بوجھ مسلمان اور مسیحی برادری کے افراد کندھے سے کندھا ملا کر اجتماعی طور پر بانٹ رہے ہیں۔
اعجاز فاروق نے کہا ہماری مسجد تو یہاں کب سے موجود ہے لیکن ہمارے عیسائی دوستوں کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت کر سکیں، ہماری مسجد ہے تو ان کا گرجا بھی گاؤں میں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور عدم برداشت کے واقعات روز سامنے آتے ہیں ، لیکن ان ہی شورش زدہ علاقوں میں ایسی کمیونٹیز بھی ہیں جو قومیت اور برادری کے جذبے کو مسلک اور فرقے سے بالاتر سمجھتی ہیں۔ پنجاب کے علاقے گوجرہ کے قریب یہ چھوٹا سا گاؤں ایسی ہی چھوٹی سی کاوش کر رہا ہے جہاں کے مسلمان رہائشی اپنی محدود آمدنی کی پائی پائی جوڑ کر اپنے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ہمسائیوں کے لیے ایک گرجا گھر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر رہے ہیں۔ اب تک پچاس ہزار روپے کا چندہ اکھٹا کر کے یہ لوگ گرجا گھر کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور حوصلے بلند ہیں کہ اس بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ باقی رقم بھی جمع کر کے سینٹ جوزف چرچ کو ایک حقیقت بنا لیں گے۔
فریال مسیح بھی ان آٹھ عیسائی خاندانوں میں شامل ہیں جو دہائیوں سے اس مسلم اکثریت والے گاؤں میں مقیم ہیں۔ وہ اعجاز فاروق کے ہم مذہب نہ صحیح لیکن ہمسائے ضرور ہیں۔ دونوں روز صبح اپنے گھروں سے نکل کر سامنے والے کریانے کے سٹور پر بیٹھتے ہیں، گپیں لگاتے ہیں ، اور چائے پیتے ہیں۔ ان کی بیگمات اکثر ایک دوسرے کے گھر کھانے کی ترکیبیوں کے تبادلے کر رہی ہوتی ہیں۔
پنجاب کے چند باقی علاقوں سے مختلف یہاں مسیحی برادری کی کوئی الگ کالونی نہیں بلکہ ایک گھر مسلمان خاندان کا تو دوسرا عیسائی کا نظر آتا ہے۔ سب آپس میں گھل مل کر رہتے ہیں اور مذہب پر تفریق کا تصور شائد ان کے پاس سے گزرا ہی نہیں۔ فریال مسیح نے بتایا جب سے میں دیکھ رہا ہوں ، ہم سب مل جل کر ہی رہتے آئے ہیںِ ایک دوسرے کی خوشی غمی، سب ہی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ خدا گوجرہ میں ہونے والے بھیانک واقعات کبھی کسی کو نہ دکھائے لیکن ہمیں اعتماد ہے کہ ہمارے مسلمان ہمسائے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مبصرین کے خیال میں پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں گزشتہ سالوں میں اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ گاؤں بھی گوجرہ کے اس علاقے سے دور نہیں ہے جہاں 2009 میں مسیحی برادری کے خلاف مشتعل ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے گھرں اور گرجوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔
اس گاؤں کے لوگوں کی یادیں بھی ماضی کے خون خرابے سے چھلنی ہیں لیکن یہ امن کا ایک جزیرہ قائم کر کے ماضی کی تلخ یادوں کو پر امید مستقبل میں بدلنا چاہتے ہیں۔ اعجاز فاروق نے کہا اسی لیے تو یہ چرچ بن رہا ہے تاکہ گوجرہ جیسے واقعات کبھی ہمارے گاؤں میں نہ ہوں، ہمیں ایک قوم کی طرح ساتھ ساتھ رہنا ہو گا، اس سے مسلمان اور مسیحی، دونوں مستحکم رہیں گے، ہم سب کا اسی میں فائدہ ہے۔
یہ علاقہ قومیت کی ایک چھوٹی مثال ہے جہاں پاکستانیوں کی شہریت مسلم اور غیر مسلم کی بنیادوں پر نہیں بانٹی جا رہی۔ اگر ایسا ممکن ہے تو کیا اس سوچ کو ریاستی سطح پر عمل درآمد کرانے میں واضع کمی کیوں ہے؟
اس علاقے کی بڑی پیریش کے پادری فادر آفتاب جیمز کا خیال ہے کہ دوسرے مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ اجتماعی امتیازی سلوک پر انفرادی سطح پر پرخلوص رویہ حاوی ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ایک طرف گوجرہ کا واقعہ ہوتا ہے تو ایک طرف یہ گاؤں بھی تو ہے جہاں مسلمان مسیحی برادری کے لیے گرجا گھر بنا رہے ہیں۔ لوگوں میں محبت سے ساتھ رہنے کا جذبہ ہے، جہاں آگ لگانے والے ہیں وہاں آگ بجھانے والے بھی تو ہیں۔
ربط