کامران چوہدری
محفلین
آج گھر میں خوب چہل پہل تھی۔سبھی خاندان والے جمع تھے۔گھر بھر کے بچوں نے اودھم مچایا ہوا تھا۔گھر میں پکنے والے پکوانوں کی بھینی بھینی خوشبو سے پورا گھر مہک رہا تھا۔مارچ کے مہینے کی اس سہانی شام اکبر کی اکلوتی بیٹی کی منگنی اسکے بھتیجے سے طے ہونے جا رہی تھی۔خاندان کے بزرگ افراد کی رائے سےاکبر کے بڑے بھائ سکندر نے بخوشی یہ رشتہ قبول کرلیا تھا۔
آج باقاعدہ منگنی کی رسم ادا کرنے کی خاطر خاندان بھر کے افراد جمع تھے۔سبھی کے چہروں پہ مسکراہٹ تھی اکبر کی بیٹی نیلم بھی بے حد خوش تھی کیونکہ وہ دانیال کو بچپن سے جانتی تھی دانیال ایک دانشمند،ایک خاص وضع قطع والا خوبرو لڑکا تھا۔
دانیال کی ماں نے نیلم کو منگنی کی انگوٹھی پہنائ اور اس طرح باقاعدہ رسم ادا ہوئ۔نیلم مہمانوں کے جا چکنے کے بعد ادھر سے آئے کپڑے جوتے اور دیگر سامان کو دیکھ دیکھ کر بے انتہا خوش ہو رہی تھی۔
ایک منصوبہ انسان بنا رہا ہوتا ہے جبکہ اسکے ساتھ ایک اللہ تعالی کی ذات بنا رہی ہوتی ہے۔انسان کی نظر محض اپنی متعین کردہ منزل پر ہوتی ہے مگر انسان راستے میں پیش آنے والے کٹھن اور دشوار گزار لمحات سے بے بہرہ سرپٹ بھاگتا رہتا ہے اور اوندھے منہ جا گرتا ہے۔
دن یونہی ہنسی خوشی گزرتے رہے اس دوران عید آئ دانیال کی ماں حاجرہ اپنی ہونے والی بہو کے لئے کپڑے جوتے اور چوڑیاں لائی جسے دیکھ کر نیلم اور اسکی خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔
منگنی کو سال ہونے کو تھا اکبر چاہتا تھا کہ جلد ازجلد بیٹی کا فرض ادا کرکے سرخرو ہو جائے۔اکبر کے گھریلو حالات بھی اس قدر آسودہ نہیں تھے جسکاسکندر کو بخوبی ادراک تھا۔
نیلم اور دانیال ایک دو موقعوں پر اکٹھے ہوئے تو ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھتے رہے اور مسکراتے رہے۔اس سے قبل ان کے درمیان محض ایک چچا زاد کا رشتہ تھا مگر اب وہ منگیتر تھے اور اس سے بڑھ کہ وہ ایک دوسرے کو چاہنے لگے تھے۔
ادھر ایک کھیل چل رہا تھا مگر قدرت کچھ اور چاہ رہی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا سب اپنی اپنی دھن میں مگن تھے۔دن یونہی گزرتے رہے۔
نیلم ہر وقت دانیال کے بارے میں سوچتی رہتی اسے دانیال سے محبت ہو گئ تھی وہ چاہتی کہ جتنی جلدی ہو سکے اڑ کر دانیال کے پاس پہنچ جائے ادھر دانیال بھی نیلم کے خیالوں میں گم رہتا اور اسی کے نام کے گیت گنگناتا رہتا۔درحقیقت دونوں ایک دوجے پہ جان دینے تک آگئے تھے۔یی سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ چوری چھپے ایک دوسرے کو ٹیلی فون بھی کرنے لگے تھے۔
ادھر اکبر جلد اپنی بیٹی کا فرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر اتنی سکت نہیں رکھتا تھا کہ خواہش کے مطابق بیٹی کو جہیز کا سامان دے سکے۔سکندر نے اپنے بھائ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے کبھی بھی منہ چڑھ کہ ایسا مطالبہ نہیں کیا تھا۔مگر حاجرہ کا ایک اور ہی روپ سامنے آنے لگا جب اس نےجہیز میں دانیال کو موٹر سائیکل کے علاوہ گہنے زیورات کا مطالبہ کر ڈالہ۔حاجرہ کے منہ سے یہ مطالبہ اکبر اور اسکی بیوی پر بجلی بن کر گرا۔
سکندر بھی حاجرہ کے سامنے بے بس نظر آنے لگے یہ مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا معاملہ لڑائ جھگڑے تک آن پہنچا۔اکبر نے بہتیری کوشس کی کہ کہیں سے ادھار لیکر گھر میں اسکی بیوی کے گہنے زیورات،آلتے پالتے بیچ بچا کر حاجرہ کا مطالبہ پورا کردے تاکہ بیٹی کا سہاگ برباد نہ ہو مگر باوجود سعی کہ اکبر کچھ نہ کر پایا۔
ادھر دانیال بھی اپنی ماں کے سامنے اس قدر بے بس نظر آیا کہ نیلم سے بات کرنا تک چھوڑ گیا۔
آج کل کے دور میں یہ کانچ کے رشتے اس طرح کچے ہوتے ہیں کہ ذرا سی ٹھوکر لگنے کی دیر ہے اور دھڑم سے تمام تر عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے اور تمام ناطوں کی قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔کل تک جو رشتےجان تک دینے پہ تیار ہوتے ہیں مادیت کے اس دور میں ذرہ سی آزمائش آئے تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔
نوبت رشتہ توڑنے تک آپہنچی۔حاجرہ کا ایک ہی مطالبہ تھا بصورت دیگر وہ اپنے بیٹے کو ایسی جگہ بیاہنا چاہتی تھی جہاں سے جہیز کی صورت میں مال غنیمت ہاتھ آئے۔
آخر وہی ہوا جس کا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔سکندر نے حاجرہ کے کہنے پر اکبر کو رشتے سے جواب دے دیا۔
نیلم یہ خبر سنتے ہی گم سم ہو گئ۔وہ کانپتی لرزتی بھاگی اندر کمرے میں گئ اور اندر سے پٹاخ کی آواز آئ اکبر بھاگ کر اندر گیا تو نیلم کے ہاتھ میں سے ریوالور گرا پڑا تھااور خون کا دھارا کن پٹی سے جاری تھا۔۔۔اکبر چارپائ پہ پڑے لاشے کے سرہانے بیٹھ گیا اور بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔۔ اس رات خوب بارش برسی زمیں جل تھل ہو گئ آسمان خوب رویا نیلم گرفتار وفا ہوگئ تھی۔
آج باقاعدہ منگنی کی رسم ادا کرنے کی خاطر خاندان بھر کے افراد جمع تھے۔سبھی کے چہروں پہ مسکراہٹ تھی اکبر کی بیٹی نیلم بھی بے حد خوش تھی کیونکہ وہ دانیال کو بچپن سے جانتی تھی دانیال ایک دانشمند،ایک خاص وضع قطع والا خوبرو لڑکا تھا۔
دانیال کی ماں نے نیلم کو منگنی کی انگوٹھی پہنائ اور اس طرح باقاعدہ رسم ادا ہوئ۔نیلم مہمانوں کے جا چکنے کے بعد ادھر سے آئے کپڑے جوتے اور دیگر سامان کو دیکھ دیکھ کر بے انتہا خوش ہو رہی تھی۔
ایک منصوبہ انسان بنا رہا ہوتا ہے جبکہ اسکے ساتھ ایک اللہ تعالی کی ذات بنا رہی ہوتی ہے۔انسان کی نظر محض اپنی متعین کردہ منزل پر ہوتی ہے مگر انسان راستے میں پیش آنے والے کٹھن اور دشوار گزار لمحات سے بے بہرہ سرپٹ بھاگتا رہتا ہے اور اوندھے منہ جا گرتا ہے۔
دن یونہی ہنسی خوشی گزرتے رہے اس دوران عید آئ دانیال کی ماں حاجرہ اپنی ہونے والی بہو کے لئے کپڑے جوتے اور چوڑیاں لائی جسے دیکھ کر نیلم اور اسکی خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔
منگنی کو سال ہونے کو تھا اکبر چاہتا تھا کہ جلد ازجلد بیٹی کا فرض ادا کرکے سرخرو ہو جائے۔اکبر کے گھریلو حالات بھی اس قدر آسودہ نہیں تھے جسکاسکندر کو بخوبی ادراک تھا۔
نیلم اور دانیال ایک دو موقعوں پر اکٹھے ہوئے تو ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھتے رہے اور مسکراتے رہے۔اس سے قبل ان کے درمیان محض ایک چچا زاد کا رشتہ تھا مگر اب وہ منگیتر تھے اور اس سے بڑھ کہ وہ ایک دوسرے کو چاہنے لگے تھے۔
ادھر ایک کھیل چل رہا تھا مگر قدرت کچھ اور چاہ رہی تھی جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا سب اپنی اپنی دھن میں مگن تھے۔دن یونہی گزرتے رہے۔
نیلم ہر وقت دانیال کے بارے میں سوچتی رہتی اسے دانیال سے محبت ہو گئ تھی وہ چاہتی کہ جتنی جلدی ہو سکے اڑ کر دانیال کے پاس پہنچ جائے ادھر دانیال بھی نیلم کے خیالوں میں گم رہتا اور اسی کے نام کے گیت گنگناتا رہتا۔درحقیقت دونوں ایک دوجے پہ جان دینے تک آگئے تھے۔یی سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ چوری چھپے ایک دوسرے کو ٹیلی فون بھی کرنے لگے تھے۔
ادھر اکبر جلد اپنی بیٹی کا فرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر اتنی سکت نہیں رکھتا تھا کہ خواہش کے مطابق بیٹی کو جہیز کا سامان دے سکے۔سکندر نے اپنے بھائ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے کبھی بھی منہ چڑھ کہ ایسا مطالبہ نہیں کیا تھا۔مگر حاجرہ کا ایک اور ہی روپ سامنے آنے لگا جب اس نےجہیز میں دانیال کو موٹر سائیکل کے علاوہ گہنے زیورات کا مطالبہ کر ڈالہ۔حاجرہ کے منہ سے یہ مطالبہ اکبر اور اسکی بیوی پر بجلی بن کر گرا۔
سکندر بھی حاجرہ کے سامنے بے بس نظر آنے لگے یہ مطالبہ روز بروز بڑھتا گیا معاملہ لڑائ جھگڑے تک آن پہنچا۔اکبر نے بہتیری کوشس کی کہ کہیں سے ادھار لیکر گھر میں اسکی بیوی کے گہنے زیورات،آلتے پالتے بیچ بچا کر حاجرہ کا مطالبہ پورا کردے تاکہ بیٹی کا سہاگ برباد نہ ہو مگر باوجود سعی کہ اکبر کچھ نہ کر پایا۔
ادھر دانیال بھی اپنی ماں کے سامنے اس قدر بے بس نظر آیا کہ نیلم سے بات کرنا تک چھوڑ گیا۔
آج کل کے دور میں یہ کانچ کے رشتے اس طرح کچے ہوتے ہیں کہ ذرا سی ٹھوکر لگنے کی دیر ہے اور دھڑم سے تمام تر عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے اور تمام ناطوں کی قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔کل تک جو رشتےجان تک دینے پہ تیار ہوتے ہیں مادیت کے اس دور میں ذرہ سی آزمائش آئے تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔
نوبت رشتہ توڑنے تک آپہنچی۔حاجرہ کا ایک ہی مطالبہ تھا بصورت دیگر وہ اپنے بیٹے کو ایسی جگہ بیاہنا چاہتی تھی جہاں سے جہیز کی صورت میں مال غنیمت ہاتھ آئے۔
آخر وہی ہوا جس کا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔سکندر نے حاجرہ کے کہنے پر اکبر کو رشتے سے جواب دے دیا۔
نیلم یہ خبر سنتے ہی گم سم ہو گئ۔وہ کانپتی لرزتی بھاگی اندر کمرے میں گئ اور اندر سے پٹاخ کی آواز آئ اکبر بھاگ کر اندر گیا تو نیلم کے ہاتھ میں سے ریوالور گرا پڑا تھااور خون کا دھارا کن پٹی سے جاری تھا۔۔۔اکبر چارپائ پہ پڑے لاشے کے سرہانے بیٹھ گیا اور بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔۔ اس رات خوب بارش برسی زمیں جل تھل ہو گئ آسمان خوب رویا نیلم گرفتار وفا ہوگئ تھی۔