فرخ منظور
لائبریرین
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تُو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
ناصر کاظمی
فریدہ خانم کی آواز میں ناصر کاظمی کی یہ غزل
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تُو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
ناصر کاظمی
فریدہ خانم کی آواز میں ناصر کاظمی کی یہ غزل