اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
اورچڑھتی، اُتر نہ جائے کہیں
واضح نہیں
جی بہتر ہے تبدیل کیے دیتا ہوں
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
چڑھتے چڑھتے، اُتر نہ جائے کہیں
وقت آتا ہے، آ بھی جائے گا
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
درست
تھوڑی بہتری کی کوشش کرتا ہوں ، پتہ نہیں کیوں تسلی نہ ہوئی
وقت چاہے ذرا سا مل جائے
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
راہ الفت ہے پُر خطر دیکھو
کوئی بُھولااُدھر نہ جائے کہیں
بھولا صحیح نہیں لگ رہا، میری اصلاح ہ بہتر تھی، اسے قبول کرنے میں کچھ اعتراض؟
ہرگز نہیں جناب وہی بہتر ہے، غلطی سے تبدیل کرنا بھول گیا
راہ الفت ہے پُر خطر ۔دیکھو
کوئی اب اُس طرف نہ جائے کہیں
میں بُرے حال ہی سہی لیکن
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں
درست
اس میں بھی ذرا سی بہتری سوجھی ہے، دیکھیے تو ذرا
مفلسی عیب تو نہیں میرا
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں
دیکھ لو آج رو دیا اظہر
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
اظہر رو دیا سے یہ احساس ہوتا ہے کہ دریا اظہر ہے۔ اس کو ویسے ہی مبہم رہنے دو۔ جیسا تم نے لکھا تھا، اور میں نے درست قرار دیا تھا
پتی نہیں کیوں اس شعر پر دل بیٹھ نہیں رہا ہے، ایک کاوش اور دیکھیے ورنہ ویسا ہی رہنے دیتا
عارضی ولولہ نہ ثابت ہو
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی، کچھ تازہ اشعار کے ساتھ
اوج سے موج ،ڈر نہ جائے کہیں
چڑھتے چڑھتے، اُتر نہ جائے کہیں
وقت چاہے ذرا سا مل جائے
رائگاں بس گزر نہ جائے کہیں
راہ الفت ہے پُر خطر ۔دیکھو
کوئی اب اُس طرف نہ جائے کہیں
مجھ سے بہتر ہیں لوگ دنیا میں
کاش اُس کی نظر نہ جائے کہیں
مفلسی عیب تو نہیں میرا
اُس تلک یہ خبر نہ جائے کہیں
عارضی ولولہ نہ ثابت ہو
،،پھر یہ دریا، اُتر نہ جائے کہیں،،
مجھ پہ الزام ہر بُرائی کا
بد ہے جب نام، دھر نہ جائے کہیں
دُکھ سے مرجھا گیا اظہر
اب تو ڈر ہے بکھر نہ جائے کہیں