محمد اطھر طاھر
محفلین
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک ان کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک ان کی
سوچتا میں کیا اس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیش شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اس کی ان اداؤں کا
ایک شہر مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
گرم تھی مہک ان کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک ان کی
سوچتا میں کیا اس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیش شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اس کی ان اداؤں کا
ایک شہر مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا